نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رسالہ "اور”۔۔۔||عامر حسینی

عامر حسینی پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع خانیوال سے تعلق ہے، ، وہ مختلف موضوعات پرملتان سمیت ملک بھر میں شائع ہونے والے قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان سے نوجوان ادیب تصنیف حیدر کی ادارت میں ایک نئے اردو ادبی جریدے کا آغاز ہوا ہے – اس کا نام ہے”اور” –
پاکستان سے بھی اس کی اشاعت ہونے لگی جس کے تقسیم کار ‘سٹی پریس’ والے ہیں جن کے ہاں سے اجمل کمال کی ادارت میں اردو کا شہرہ آفاق ادبی جریدہ ‘آج’ نکلتا ہے –
مجھے "اور” چند روز پہلے ملا تھا- میں نے اسے گھر میں ، گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آتے ہوئے گاڑی میں دوران سفر پڑھنا شروع کیا- تصنیف حیدر کے قلم سے لکھا ‘اداریہ’، ہندی ناول ‘کیرتی گان’ کا احسن ایوبی کا کیا اردو ترجمہ، ابراہیم چغتائی کا انشائیہ، احسن فاروقی صاحب کا افسانہ ، عبدالسلام العمری کی عربی کہانی کا اردو روپ، ہندی کی ایک کہانی کا اردو ترجمہ ، مونیکا کمار کا پنجابی ٹرانسجیبڈر پر لکھا مضمون پڑھا ہے جبکہ دو ایک غزلیں اور ایک نظم دھیان سے پڑھیں اور ان سے بے پناہ ادبی مسرت بھی حاصل کی ہے –
میں یہاں ایک بات اپنے پڑھنے والوں کے گوش گزار کردوں کہ میں فکشن ہو یا شاعری یا ادبی تنقید ان سب کو سب سے پہلے ‘ادبی حظ’ اٹھانے کے لیے پڑھتا ہوں – سماجی ، سیاسی اور دیگر پہلوؤں سے ان سب پر غور بعد میں آتے ہیں اور ان سب چیزوں میں دوسروں کو شریک کرنے کا معاملہ تیسرے مرحلے میں آتا ہے –
میں رحمان عباس کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ادیبوں کے ادب کا سب سے کم اہم قاری وہ ہوتا ہے جو ادبی تبصرہ نگاری کو سب سے پہلے رکھ کر ادب کا مطالعہ کرتا ہے اگرچہ ایک ناشر کے نزدیک وہ قاری سب سے اہم اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے سے (شاید) اس کی کتاب کی فروخت میں اضافے کے امکانات ہوا کرتے ہیں –
میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ تصنیف حیدر کی ادارت میں شایع ہونے والا رسالہ ‘اور’ ادبی مسرت کا بے پناہ سامان رکھتا ہے – اور میں اس کو پڑھنے کے بعد خود کو اندر سے بھرا بھرا سا محسوس کر رہا ہوں – یہ ویسا ہی احساس ہے جو کبھی مجھے ساجد رشید کی ادارت میں ممبئی سے نکالنے والے ادبی رسالے ‘نیا ورق’ کو پڑھنے کے دوران ہوا کرتا تھا – اگرچہ تصنیف کے لکھے اداریہ میں اس آگ کی کمی نظر آئی جو ساجد رشید کے قلم سے لکھے اداریوں میں محسوس ہوتی تھی لیکن جیسے ہی میں نے ‘کیرتی گان’ کا اردو ترجمہ پڑھنا شروع کیا تو میرا دل بے اختیار چاہنے لگا کہ وہ کبھی ختم نہ ہو- میرے پسندیدہ ناولوں میں درجنوں ایسے ناول ہیں جنھیں پڑھنے کے دوران ہی میرے اندر یہ آرزو پنپنے لگی کہ کاش وہ کبھی اپنے اختتام کو نہ پہنچیں لیکن افسوس کہ یہ آرزو کبھی پوری نہ ہوکر دی اور نہ پوری ہوگی –
ہندوستان میں ہندی ادب میں 40 سالہ ادیب چندن پانڈے کا نام اب صرف ہندی اور اردو پڑھنے والوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کے پڑھنے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد انگریزی قارئین کی بھی ہے کیونکہ انگریزی ادب کے قاری کے پاس چندن پانڈے کے دو ناولوں کا انگریزی روپ پڑھنے کے لیے ہے – پہلے ان کے ناول "ودھانائیک گالپ” کا انگریزی روپ ” لیگل فکشن” کے نام سے آیا اور اب کیرتی گان بھی انھیں پڑھنے کو میسر ہے –
ہندوستان میں ہندی سے نابلد اردو پڑھنے والوں کے لیے احسن ایوبی ان چند ترجمہ نگاروں میں سے ایک ہیں جو انھیں ہندی ادب کے اہم ناولوں اور کہانیوں سے واقف کرانے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ( تصنیف حیدر بھی یہ کام بڑے اچھے طریقے سے کر رہے ہیں بلکہ وہ تو اس سارے کام کو ایک منظم طریقے سے پھیلانے کا کام بھی کر رہے ہیں) –
میں نے ہندی سے اردو میں کیا جانے والا ان کا یہ پہلا ترجمہ پڑھا ہے اور میں ان کی مہارت کا قائل ہوگیا ہوں –
تصنیف حیدر کو میں اردو ادب میں ایک اور اچھے رسالے کا اجراء کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں – اس امید کے ساتھ کہ یہ اپنے تسلسل کو جاری رکھے گا-
کیرتی گان کو پڑھنے کے دوران میرے ذہن میں وہی سوال پھر سے پیدا ہوا جو سوال میرے ذہن میں عربی کے کہانی نگاروں جیسے عبدالسلام العمری، سعداوی، حسن بلاسم وغیرہ کو پڑھتے ہوئے ہوا کرتا ہے کہ آخر کار ہمارے پاکستان کے ناول نگاروں کے ہاں سلمان تاثیر ، مشعال خان ، جمشید نایاب، استاد سبط جعفر ، ڈاکٹر علی حیدر جیسوں کی ہتھیا اس طرح کی کہانیوں کی تخلیق کا سبب کیوں نہیں بن پاتی جیسی کہانیاں ہندوستان، عراق، سعودی عرب ، مصر وغیرہ کے ادیبوں کے ہاں تخلیق ہوتی ہیں –
پونے میں آئی ٹی سیکٹر کے ایک معصوم مسلمان شخص کی بھیڑ ہتھیا/موب لنچنگ نے چندن پانڈے کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اسی چیز نے اسے اس بارے کہانیوں کی تخلیق پر اکسایا- یہ ناول اس موضوع پر لکھے جانے والے بھاری بھرکم ناں فکشن پر بھاری پڑتا ہے اور پاکستانی قاری کو اس کا بالواسطہ فائدہ یہ پہنچے گاہ کہ اسے جدید ہندوستان میں ہورہے ایک ایسے سماجی مظہر بارے پتا چلے گا جس کے تانے بانے عصر حاضر کی سیاست ، سماجی حرکیات سے جڑے ہیں اور اگر پڑھنے والے میں انسانیت کی رمق باقی رہی ہوگی تو یہ ناول اس کے رونگٹے کھڑے کر دے گا –
چندن پانڈے نے ہندوستان کی لبرل بورژوازی پرتوں کی سڑاند ، منافقت اور ان کے کھوکھلے سماج سدھار نعرے بازی اور ایکٹو ازم کو جس طرح سے بے نقاب کیا ہے وہ اپنی جگہ ان کے فن کی بے پناہ داد دینے پر پڑھنے والے کو مجبور کر دیتا ہے –
سرمایہ دارانہ ترقی کی نچلی تہوں میں جو نام نہاد مین سٹریم میڈیا اور یہاں تک کہ سوشل میڈیا تک کی اسکرینوں سے چھپی رہتی ہیں کیسی ذلت چھپی ہے اور ان نچلی نہ نظر آنے والی سطحوں پر کیسے کیسے کھیل کھیلے جاتے ہیں چندن پانڈے نے وہ بہت ہی مہارت سے ہمیں دکھانے کی کوشش کی ہے – چندن پانڈے خود کہتے ہیں کہ وہ سب دکھانے کے لیے انھوں نے کہانی بیان کرنے کے لیے
Celeberal tactic
کا استعمال کیا ہے –
اردو ادب کے قارئین کو رسالہ اور ضرور پڑھنے کی ضرورت ہے –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author