نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بدھ کی صبح اور ہمارے سفر کا چوتھا روز ہے۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر ہوٹل کی لابی میں واپس آیا تو یہاں منگول نسل کی خواتین وحضرات کا ہجوم نظرآیا۔ ہم اندازے لگانے لگے کہ یہ منگولیا سے آئے ہوں گے، پھر خیال آیا کہ چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ سے آئے ہوں گے۔ مگر ہمارے سارے اندازے غلط نکلے۔ یہ سنکیانگ کی سرحدوں سے ملحق وسط ایشیائی ملک کرغستان سے آئے ہیں جسے کیرغیزیا بھی کہا جاتا ہے۔ ڈیڑھ دو درجن پر مشتمل کیرغیزیا کے اس وفد کی قیادت نائب وزیربرائے سیاحت، ثقافت، اسپورٹس و امورِ نوجوانان ایمان علیوف کر رہے ہیں۔ ایمان علیوف ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ کیرغیزیا کو وسطی ایشیا کا سوئیٹزرلینڈ کہا جاتا ہے۔ یہاں تیان شان کے علاقے میں جنگیش چوکُوسُو کی چوٹی 7439 میٹر بلند ہے۔ جو ہماری کے ٹو کی چوٹی سے1410 میٹر کم بلند ہے۔
کیرغیزیا کی صدارتی کابینہ میں 16 وزیر اور دیگر نائب وزراء ہیں۔ صدر سدائر جاپاروف جنوری 2021ء کو برسراقتدار آئے اور وہ ملک کے چھٹے صدر ہیں۔ ہمارے ایران پہنچنے سے چار روز قبل کیرغیزیا میں حزبِ اختلاف کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا اور اپوزیشن لیڈروں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔اپوزیشن پر حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کا الزام لگایا گیا اور یونائیٹڈ کیرغیستان پارٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
ابھی اس واقعہ کو ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا اور کیرغیزیا کا وفد یہاں آیا ہوا ہے اور عین اسی ہوٹل میں قیام کرنے والا ہے جہاں آئے ہوئے آج ہمارا چوتھا دن شروع ہورہا ہے۔ ہم نے تہران یونیورسٹی جانا ہے اور میں آپ کو کیرغیزیا کا حال سنانے بیٹھ گیا۔ ہم نے کیرغیزیا کے نائب وزیر اور اُن کے وفد کے بعض ارکان سے ہاتھ ملایا اور خیروعافیت دریافت کی۔
آج علی فاطمی کے ساتھ محمد رضا شعبانی بھی آئے ہوئے ہیں۔ مگر وہ وزارتِ خارجہ کی طرف سے کیرغیستان کے وفد کے گائیڈ ہیں۔ ہمارے ساتھ کل کی طرح آج بھی علی فاطمی ہوں گے۔ہمارے دوست ناشتہ کر کے آئے اور ہم گاڑی کی طرف چل دیئے۔ دانشگاہِ تہران ملک کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ اسے یہاں کے لوگ دانشگاہ مادر بھی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تعلیمی اداروں کو مادر علمی کہا جاتا ہے۔ تہران کی اس یونیورسٹی کو مشرقِ وسطیٰ کی بہترین اور دنیا کی بہت اچھی یونیورسٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسے اسلامی دنیا کی بھی بے مثال یونیورسٹیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔1851ء میں تہران میں قائم ہونے والے دارالفنون اور 1899ء میں تہران اسکول آف پولیٹیکل سائینسز کو بھی یونیورسٹی میں ضم کر دیا گیا ہے۔اس یونیورسٹی کے انڈومنٹ کیلئے اس سال ایک ارب ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ اس یونیورسٹی کا کل وقتی تدریسی عملہ تین ہزار پانچ سو اساتذہ پر مشتمل ہے اور طلبہ کی مجموعی تعداد 41 ہزار سے 50 ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
ہماری گاڑی ہوٹل سے نکل کر یونیورسٹی کی جانب دوڑ رہی ہے۔ گاڑی یونیورسٹی کی حدود میں داخل ہوئی تومیرے کانوں میں شاہ کی شہنشاہیت کو بچانے والی سکیورٹی فورسز کی طرف سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آواز سنائی دینے لگی۔ 1979ء کے آغاز پر انقلاب ایک تیزرو رہوار کے طور پر تہران کی سڑکوں پر دوڑنے لگا۔ انقلاب ایران کی سڑکوں ، گلیوں، شاہراہوں، گلی محلوں، چھوٹے بڑے شہروں، پہاڑوں، صحراؤں ، بلند چوٹیوں، چھوٹی چھوٹی بستیوں میں ایک تیزرو سیلاب کی مانند بہنے لگا۔ شہنشاہیت کی ساری طاقت، سارا غرور و تکبر اور پورا کرّوفر منہہ زور سیلاب کی موجوں میں بہنے لگا۔
انقلاب اچانک رونما نہیں ہوتا۔ انقلاب کسی بھی ملک، خطہ یا سرزمین میں برسوں پرورش پاتا ہے۔ انقلاب کا مواد غالباَ ناآسودگی میں نمو پاتاہے۔محرومی میں اس کی اشکالی ساخت ہوتی ہے۔جبرمیں پرورش پاتا ہے۔ ظلم میں اسے مہمیز لگتی ہے اور اپنے نظرانداز کئے جانے پر یہ باز بن کر جھپٹتاہے۔ پھر کوئی ایک معمولی یا غیرمعمولی واقعہ اسے پھٹ پڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اکتوبر 1971ء میں تہران میں ایرانی شہنشاہیت کی 25 سو سالہ تقریبات کیا سوچ کر منائی گئی تھیں۔ سائرس اعظم کی بادشاہت کا جشن منانے سے ایرانی عوام کو کیا مل جانا تھا اور کیا مل گیا تھا؟ کیا ایرانی تاریخ اور ثقافت کا اڑھائی ہزار سال کا شوکیس بنانے سے ایرانی عوام کے مسائل ہوجانے تھے اور کیا وہ مسائل ہو گئے تھے۔ آخر شہنشاہ کے سر میں یہ کیا سودا سمایا تھا کہ عوام کے دلوں میں ماضی کے باشاہوں کا عشق جگانے اور اسے جاگزیں کرنے سے آج کے دور کے مجبور اور محروم عوام کو مطمن کر لیا جائے۔ کیا ماضی کی ثقافتی جمالیات حال کے سلگتے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہے۔ اور کیا طاقت کے استعمال سے سماج میں موجود سوال ساقط ہو جاتے ہیں۔ آخر رضا شاہ پہلوی نے ثقافتی احیا کا خوابناک ماحول پیدا کرنے کے عمل میں ساواک کے جبر کی آمیزش کر کے یہ کیسے فرض کر لیا تھا کہ وہ انقلاب کے بڑھتے قدموں کو روک لے گا۔
پھر یہی ہوا کہ شہنشاہیت کے 25 سو سالہ جشن کی رنگین راتوں کو بمشکل چھ سال بھی نہیں گزرے تھے کہ گھروں میں سویا ہوا تہران سڑکوں اور گلیوں میں نکل آیا۔ اسی یونیورسٹی کے در و دیوار انقلاب کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ پھر یہ انقلاب یونیورسٹی سے باہر آیا تو اس پر گولیاں چلنے لگیں۔ یونیورسٹی کے اندر اور باہر نوجوان لاشوں کی رگوں سے گرم لہو اُبل کر شہنشاہت کے بیخ و بن کو اُکھیڑ رہا تھا۔ شہنشاہیت ہراساں ہوگر بھاگ رہی تھی اور انقلاب اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ پھر تہران یونیورسٹی اور چوکِ آزادی کے مابین ایک باہمی تعلق اور رشتہ استوار ہو گیا تھا، اسی باہمی تعلق اور رشتے کا نام انقلاب تھا۔
ہماری گاڑی چلتے چلتے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے اندر آکر ایک مقام پر رک گئی۔ اب پھر اسی انتظار کا سلسلہ دراز ہوا، جیسا انتظار ہمیں گزشتہ روز ایران ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر کے مرکزی دروازے سے باہر کرنا پڑا تھا۔ میں نے مُسکراتے ہوئے زین کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا آج بھی کل والی صورتحال پیدا ہونے والی ہے۔ زین نے ہنستے ہوئے کہا کہ جیسے کل کا دن گزر گیا ویسے آج کا دن بھی گزر جائے گا۔
علی فاطمی گاڑی سے اُتر کر ایک سمت کو چلے گئے اور ہم ان کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ واپس آئے مگر اس بار وہ اکیلے نہیں تھے ان کے ساتھ یزداں تھے۔ یہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ یزداں نے بڑی خوش دلی کے ساتھ ہم سب سے مصافحہ کیا اور یونیورسٹی کی لائبریری کی طرف چلنے کو کہا۔ ہم یونیورسٹی کی لائبریری کی طرف آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم نے تہران پہنچنے کے بعد پہلے روز آخر میں باغِ کتاب میں لاکھوں کتابیں دیکھی تھیں اور آج ہم یہاں باغ دانش کے دروازے پر پہنچ گئے ہیں۔(جاری ہے)
یہ بھی پڑھیے: سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر