نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انہونیوں کی ” دستک ” ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہ ستمبر کے بجلی کے بلوں میں بھی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے فی یونٹ 1 روپے 46 پیسے شامل ہوں گے دوسری طرف 350 ارب روپے کا خسارہ پورا کرنے کے لئے سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ زیرغور ہے۔ پچھلے کئی عشروں سے حکومت کھاد فیکٹریوں سمیت صنعتی شعبہ کی مختلف فیکٹریوں کو بجلی اور سوئی گیس رعایتی نرخوں پر فراہم کررہی ہے۔

کیا حکومت نے کبھی اس امر پر غور کی زحمت کی ہے کہ رعایت پر بجلی و گیس حاصل کرنے والی صنعتوں کی پیداوار کی قیمتوں میں صارف کے لئے کوئی رعایت رکھی گئی؟

اس ضمن میں صرف دو چیزوں کی قیمت کا بھارتی مشرقی پنجاب سے موازنہ کرلیا جائے تو حقائق دوچند ہوجاتے ہیں اولاً سیمنٹ اور ثانیاً کھاد۔

تواتر کے ساتھ ارباب اختیار کو اس امر کی جانب متوجہ کیا جاتا رہا ہے کہ اشرافیہ کو دی جانے والی رعایتوں کا بوجھ بھی عام آدمی ہی اٹھارہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ کھاد عام کسان کی قوت خرید سے باہر ہے جیسے تیسے وہ زرعی اجناس کے لئے کھاد اور ادویات حاصل کربھی لیتا ہے مگر فی ایکڑ پیداوار کی لاگت آمدنی سے کہیں زیاہ ہے۔

زرعی معیشت والے ملک میں اگر گزشتہ عشروں کے دوران سنجیدگی کے ساتھ زراعت کی ترقی اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت کو مدنظر رکھا گیا ہوتا تو نتائج مختلف ہوتے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں اشرافیہ کے ریلیف کے لئے اڑھائی ہزار ارب روپے رکھے گئے۔ پچھلے مالی سال میں یہ رقم 17سو ارب روپے سے زائد تھی۔

غور طلب امر یہ ہے کہ صرف کسانوں کے لئے حکومت نے کیا ریلیف رکھا؟ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بجلی کی مجموعی پیداوار میں پن بجلی کی پیداوار بھی شامل ہے مگر فیول ایڈجسٹمنٹ فی یونٹ مجموعی پیداوار پر مساوی ہیں۔

1990ء کی دہائی میں آئی پی پیز سے ہوئے ابتدائی معاہدے اور بعدازاں ہوئے ترمیمی معاہدوں ہر دو کی دستاویزات عوام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ابتدائی معاہدہ اور ترمیمی معاہدوں کی ذمہ دار حکومتوں میں سے عوام کی مجرم کون سی حکومت ہے۔

گزشتہ روز وزیر توانائی نے بجلی کے صارفین کو یہ لولی پاپ دیا کہ ماہ ستمبر کے بل کم آئیں گے۔ اصولی طور پر انہیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ ماہ اگست کے بھاری بھرکم بلوں کو چند دن تاخیر سے جمع کرانے کی صورت میں صارفین پر جو اضافی ہزاروں روپے کا بوجھ پڑا اس میں رعایت کیوں نہیں دی گئی۔ کیا اس سے بھی آئی ایم ایف نے روکا تھا؟

افسوس کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑتا ہے کہ ہماےر پالیسی سازوں کی اولین ترجیح اپنے عام شہری کبھی نہیں رہے۔ بالادست طبقات ہر دور میں ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔

ادھر عمومی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران مجموعی طور پر 32 اشیاء کی قیمتوں اضافہ ہوا۔ حالیہ اضافے کے بعد مہنگائی کی سالانہ شرح تقریباً 27 فیصد بتائی جارہی ہے جوکہ زمینی حقائق سے متصادم ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ مارکیٹ کمیٹیوں اور دوسرے سرکاری ذرائع سے مرتب کردہ ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ اور مارکیٹ کے نرخوں میں بہت زیادہ فرق یے اس کے باوجود اگر ادارہ شماریات کی رپورٹ کو ہی حتمی مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ حکومت نے قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لئے کیا کیا؟

ہمارے ہاں مہنگائی میں اضافے کی مجموعی وجہ پٹرولیم و بجلی کے نرخوں میں اضافے کو قرار دیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ ایک وجہ بڑی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اس سے پیداواری لاگت اور ٹرانسپورٹ کے اضافی اخراجات کا بوجھ اسی صارف پر منتقل ہوتا ہے جو پہلے ہی اضافوں کے بوجھ تلے دبا سسک رہا ہے۔

روپے کی قدر میں مسلسل کمی بیروزگاری اور دوسرے مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ فی الوقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بے لگام مہنگائی ہے۔ اس مسئلہ کو طلب و رسد سے جوڑ کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کے ہمنوا ہیں

اسی طرح پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا معاملہ ہے ان میں زیادہ تر منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے نمائندے ہی شامل ہوتے ہیں اس لئے ان کمیٹیوں کی نمائشی کارکردگی سے عوام کو کبھی فائدہ نہیں ہوتا۔

حالیہ عرصہ میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون کا بہت شور ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس کریک ڈائون کی خبروں میں یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے بس کچھ ہی دنوں میں سب اچھا ہوجائے گا۔ اصولی طور پر ذرائع ابلاغ کو حکومت کی درست سمت رہنمائی کرنی چاہیے۔

چند روزہ نمائشی اقدامات سے دودھ و شہد کی نہریں نہیں بہنے والی۔ اس کے لئے مستقل بنیادوں پر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

مثال کے طورپر ایک برس کے دوران گھی اور کوکنگ آئل کی فی کلو قیمت میں 200 سے 225 روپے اضافہ ہوا۔ ڈبہ پیک دودھ کے ایک پائو پیکٹ کی قیمت میں 40روپے، کولڈ ڈرنک کی ڈیڑھ لٹر والی بوتل کی قیمت میں 80 روپے، چینی، آٹا، دالوں اور دیگر اشیاء کے ساتھ سبزیوں کی قیمت آسمان کو چھورہی ہے۔

مندرجہ بالا چند اشیاء کے نرخوں میں اضافہ بطور مثال تحریر کیا ہے

جس بات پر حکومت کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے وہ یہ ہے کہ فیکٹری اور مارکیٹ کے درمیان والے اپنا منافع کم رکھیں نیز یہ کہ مارکیٹ میں بھی اشیاء کے یکساں نرخ ہوں۔

ہمارے ہاں اس معاملے میں کوئی یکسوئی نہیں۔ ایک مارکیٹ میں ایک ہی چیز کے دو سے تین دام ہیں۔

مہنگائی کے خاتمے کے لئے جہاں حکومت کو اپنا فرض ادا کرنے سے پہلو تہی نہیں برتنی چاہیے وہیں دکاندار حضرات بھی ہفتہ بھر کا منافع ایک دن میں صارف سے وصول کرنے کی سوچ سے نجات حاصل کریں۔

حالات سے ہر شہری متاثر ہوا ہے ان حالات میں ایک دوسرے کا احساس کرکے ہی بہتری کی طرف بڑھا جاسکتا ہے۔ اگلے روز ایپکس (ایس آئی ایف سی) کمیٹی کے اجلاس میں دعویٰ کیا گیا کہ چینی کا وافر سٹاک موجود ہے افسوس کہ کسی نے یہ سوال نہیں کیا پھر اس کی فی کلو قیمت 200 روپے تک کیسے پہنچی؟ اس امر پر دو آراء نہیں کہ معاشی بحالی اس وقت اہم ترین ضرورت ہے مگر نگران حکومت اپنے قانونی مینڈیٹ سے تجاوز کی روش اپنانے سے گریز کرے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں پر عوامی احتجاج رائیگاں گیا۔

نگران حکومت نے عوام کو آئی ایم ایف کی کہانی سے بہلالیا ہے۔ اس کے باوجود یہ امر اپنی جگہ ہے کہ حالات کے ستائے شہریوں میں جو لاوا پک رہا ہے اس سے چشم پوشی درست نہیں ہوگی۔ حکومت عوام کے مسائل، قوت خرید اور دیگر معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرے۔

دکھاوے کے چند اقدامات سے عوام بہلنے والے ہرگز نہیں۔ مناسب ہوگا کہ ان کے دکھوں کے مداوے پر توجہ دی جائے تاکہ کسی انہونی کا دروازہ نہ کھلنے پائے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author