اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"روٹی” سپر پاور۔۔۔||عزیز سنگھور

شی جن پنگ 7 سال تک لیانگ جیاہ میں رہےلیکن کمیونسٹ پارٹی سے نفرت کرنے کے بجائے انھوں نے کئی بار پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کی جو والد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئی۔ آخر کار 1974 میں ہیبی صوبے میں پارٹی میں جگہ مل گئی۔ وہاں سے شروع ہونے والے سفر کے بعد انھیں پارٹی میں سینئر کردار ملتے رہے۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالاآخرعالمی طاقتوں کو غلطیوں سے سبق سیکھنا پڑا،متفقہ طورپر تسلیم کیا گیا کہ مہلک جنگی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ روٹی (معیشت) میسر ہونے سے عالمی طاقت بنا جاسکتا ہے۔ یہ معیشت اور تجارت کی دنیا ہے،معیشت ہی سب کچھ ہے، پیٹ ہی سب کچھ ہے، بھوک اور افلاس ہی سب کچھ ہے۔ بھوک کا کوئی دھرم یا مذہب نہیں ہے اس کا مذہب بس روٹی ہی ہے۔ ریاست اور سیاست سب روٹی (معیشت) کے اردگرد گھومتی ہے۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں دنیا کو نیست و نابود کرنے والی عالمی طاقتوں نے روٹی کے سامنے اپنے جوہری ہتھیار پھینک کر روٹی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا۔ یہ مان لیا گیا کہ روٹی ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ روٹی ہی ہے جو انکی ریاست کی بقا اور سلامتی کی ضامن بنے گی۔ ریاست مستحکم معیشت سے ہی مضبوط ہوسکتی ہے۔ ایک دفعہ پھر جدید دنیا نے پہلے سماج یعنی قدیم "اشتراکیت” کی طرف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انسان کا پہلا سماج اشتراکیت تھا جہاں انسان مشترکہ شکار کرتا اور مشترکہ طور پر کھاتا تھا۔ جسے "کمیون” بھی کہا جاتا ہے۔

جی 20 نامی تنظیم نے دنیا کے مختلف ممالک کو معاشی بنیادوں پر آپس میں جوڑنے کا فیصلہ کیا۔ جی 20 میں امریکہ، روس، انڈیا، ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اندونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ، چین اور یورپی یونین شامل ہیں۔ بھارت میں ہونے والی جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران "انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور” کا اعلان کیاگیا۔ اس پراجیکٹ کا مقصد انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کو ریل اور بندرگاہوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائےگا۔ اس منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں واقع ممالک کو ریل نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائے گا جس کے بعد وہ سمندری راستے سے انڈیا سے منسلک ہوں گے۔ اس کے بعد اس نیٹ ورک کو یورپ سے جوڑا جائے گا۔ پراجیکٹ کے تحت بندرگاہوں سے لے کر ریل نیٹ ورک تک سب کچھ تعمیر کیا جانا ہے۔

"انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور” دراصل چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو” ( بی آر آئی) کی طرح ایک منصوبہ ہے۔ سرکاری طور "انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور” کو "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو” ( بی آر آئی) کے مد مقابل منصوبہ قرار نہیں دیا گیا کیونکہ چین بھی جی 20 کا رکن ملک ہے۔ تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ بی آر آئی کے مقابلے میں لایا جارہا ہے۔ ایک طرف چین ہے جبکہ دوسری جانب دنیا کی مضبوط معیشتیں اسکی مدمقابل ہیں۔

چین نے بی آر آئی منصوبہ 2013 میں شروع کیا تھا ۔ جس کے تحت کئی ممالک میں کام اب بھی جاری ہے جبکہ جی 20 ممالک کی قیادت میں "انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور” منصوبہ 2023 میں شروع ہو رہا ہے۔ بی آر آئی کو اب تک کا سے مضبوط منصوبہ قراردیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد پوری دنیا میں کسی ایک حکومت یعنی چین یا پارٹی یعنی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا اثر و رسوخ پھیلانا نہیں ہے جو کہ بی آر آئی کا اصل مقصد ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013 میں بی آر آئی منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے جو کہ زمانۂ قدیم کی شاہراہ ریشم کے نقشِ قدم پر بنایا گیا ہے۔ منصوبے کی تکمیل کی صورت میں چین کو سڑک اور ریل کی مختلف راہداریوں کے ذریعے ایشیا کے تقریباً تمام ممالک سے ہوتے ہوئے یورپ تک رسائل مل جائے گی۔ ان راہداریوں کا ایک اہم حصہ چین پاكستان اقتصادی راہداری بھی ہے جو کہ گوادر سے خنجراب کے راستے 62 ارب امریکی ڈالر کی مالیت لاگت سے بنایا جارہا ہے۔
چین کا بی آر آئی منصوبہ اس وقت متنازعہ ہوا جب بعض افریقی ممالک کی جانب سے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ سمجھوتے کو مسترد کردیاگیا۔ افریقی ملک سیئرا لیون میں ایک ایئرپورٹ ، تنزانیہ میں ایک بندرگاہ بھی بی آر آئی منصوبے کا حصہ ہیں۔ دونوں ممالک نے اِن پراجیکٹس کو لاگت اور خود مختاری کے خدشات کے باعث روک دیا ہے۔

دیگر ترقی پذیر ممالک میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ بہت سے منصوبوں کی فنڈنگ مہنگے اور بھاری قرضوں سے کی جاتی ہے، اِن منصوبوں سے میزبان ممالک کی خود مختاری پر آنچ آتی ہے اور ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے۔ کیونکہ چین کے معاہدے نہ صرف شرائط کے بعد شروع کیے جاتےہیں بلکہ اِن کے ساتھ بیڑیاں بھی پہنائی جاتی ہیں۔ انہیں منصوبوں میں سےبعض میں بدعنوانی کی ایک طویل فہرست سامنے آئی جن میں ارجنٹینا کے خلائی کمپلیکس سے لے کر اسرائیلی بندرگاہ حیفہ کی توسیع تک کے منصوبے شامل ہیں۔

جی 20 کا منصوبہ چین کے منصوبے سے مختلف نوعیت کا ہے۔ ’انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور‘ کو بے شمار حکومتیں چلارہی ہیں۔ جہاں ون پارٹی حکومت نہیں ہے۔ بلکہ جمہوری ممالک کا ایک مضبوط ڈھانچہ ہے جہاں حکومتیں عوام کو جوابدہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں چین میں ایک ون پارٹی حکومت قائم ہے۔ جہاں نہ عوامی مینڈیٹ ہے اور نہ ہی حکمران عوام کو جوابدہ ہیں بلکہ وہاں وَن پارٹی رول ہے جسے آمرانہ حکومت کہا جائے تو بالکل درست ہوگا۔ سارا ریاستی نظام صرف کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے اردگرد گھومتا ہے۔ چین کی معیشت بھی اب سوشلسٹ نہیں رہی، بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چینی معیشت میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔

شی جن پنگ نے 2012 میں اقتدار سنبھالا تو ان کے دور حکومت میں چین آمرانہ حکمرانی کی طرف بڑھا۔ امریکا نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ چین نے مغربی سنکیانگ کو ایغور مسلمانوں کے لیے ایک کھلی جیل‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین نے ایغوروں کی ”تربیت” اور ”جبری مزدوری” کے لیے پہلے ہی بڑی تعداد میں کیمپ قائم کر رکھے تھے لیکن اب جبر اور زیادتی کا دائرہ پورے صوبے تک وسیع کر دیا ہے۔

شی جن پنگ کا بچپن تنگ دستی اور غربت میں گزرا،عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھنے والے کمیونسٹ رہنما ماؤ زے تنگ نے انکے والد کو 1962 میں قید کر دیا تھا۔
ماؤ کو اپنی پارٹی کے لیڈروں پر شدید شک تھا، خاص کر ایسے لوگ جو انکے حریف تھے، ماؤ نے انہیں جیل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ ان واقعات نے شی جن پنگ کے خاندان کو بھی متاثر کیا۔ ان کی سوتیلی بہن نے دباؤ میں آ کر خودکشی کرلی تھی۔ شی جن پنگ کو اس اسکول سے بھی نکال دیا گیا جہاں اعلیٰ سیاستدانوں کے بچے پڑھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے 15 سال کی عمر میں بیجنگ چھوڑ دیا۔ان کو ملک کے شمال مشرق میں غربت زدہ لیانگ جیاہ بھیجا گیا تھا۔

شی جن پنگ 7 سال تک لیانگ جیاہ میں رہےلیکن کمیونسٹ پارٹی سے نفرت کرنے کے بجائے انھوں نے کئی بار پارٹی میں شامل ہونے کی کوشش کی جو والد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئی۔ آخر کار 1974 میں ہیبی صوبے میں پارٹی میں جگہ مل گئی۔ وہاں سے شروع ہونے والے سفر کے بعد انھیں پارٹی میں سینئر کردار ملتے رہے۔

آج چین کےہمسایہ ممالک کےساتھ اچھے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ یہ تنازعہ ساؤتھ چائنا سی میں سمندری حدود کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ساؤتھ چائنا سی سنگاپور سے لے کر آبنائے تائیوان تک 35 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس سمندر سے ملحقہ ممالک میں چین، مکاؤ، ہانگ کانگ، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویت نام شامل ہیں۔ چین پورے ساؤتھ چائنا سی پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ جبکہ ہمسایہ ممالک اس دعوے کو غلط قراردیتے ہیں۔

ویت نام، فلپائن اورانڈونیشیا سمیت دیگرممالک ساؤتھ چائنا سی میں چین کے غیرقانونی سمندری دعوؤں پر عوامی سطح پر احتجاج کرتے رہتےہیں۔ اسی سمندر میں چینی کوسٹ گارڈز کی جانب سے دیگر ممالک کی سمندری حدود میں دراندازی اور مچھیروں سے چھیڑچھاڑ کے واقعات عام ہیں۔ چین کے کوسٹ گارڈز نے ویت نام کے مچھیروں کی ایک کشتی کو ٹکر مار کر ڈبو دیا۔ ایک اور واقعے میں چینی کوسٹ گارڈ کے جہاز بحیرہ مشرقی چین میں سینکاکو جزائر کے ارد گرد جاپان کے علاقائی پانیوں میں داخل ہوئے اور جاپان کی مچھلیاں پکڑنے والی کشتیوں کو ہراساں کیا۔ ملائشیا کے سمندری علاقوں میں توانائی کے پراجیکٹس میں بھی چین کے کوسٹ گارڈ نے مداخلت کی۔

شی جن پنگ بظاہر تو کمیونسٹ رہنما ہیں مگر انکی شخصیت میں مذہبی عنصر بھی نظر آتا ہے۔ وہ چین کے قدیم اور مقامی مذہب یعنی "کنفیوشس مذہب” کو دنیا میں متعارف
کروانے میں سرگرم ہیں۔ چینی زبان کی آڑ میں کنفیوشس مذہب کو دنیا میں پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مختلف ممالک کی یونیورسٹیوں میں کنفیوشس سینٹرز کھولے گئے ہیں۔ حالانکہ ماؤ زے تنگ نے "کنفیوشس مت” سمیت تمام مذاہب پر پابندی لگادی تھی۔ آج بھی کنفیوشس مت چین کا سب سے بڑا مقامی مذہب ہےجوتقریباً دو ہزار سال تک حکمرانوں کا مذہب بھی رہا ہے۔

بلوچ گوریلا خاتون، شاری بلوچ عرف برمش نے جامعہ کراچی میں ایک وین پر فدائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔یہ واقعہ 26 اپریل، 2022 کو پیش آیا۔ ہلاک ہونے والوں میں چینی کنفوشیس زبان سکھانے والے ادارے کاڈائریکٹر بھی شامل تھا۔ دھماکہ جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہوا۔ جس کے نتیجے میں تین چینی آفیشلز ہوانگ گواپنگ، دنگ موفانگ اور چن سائی ہلاک ہوئے۔ حملے میں وین کا ڈرائیور خالد ہلاک جبکہ حفاظت پر معمور دو سیکورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
شاری بلوچ کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھی۔ کون سے عوامل تھے جس نے ایک پڑھی لکھی خاتون کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ اس نے جان کی پرواہ کئے بغیر فدائی حملہ کیا۔ فدائی حملوں کا یہ عمل پاکستانی حکومت سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک پیغام ہے، انہیں اس فالٹ لائن کی اہمیت کو سمجھنا
چاہیے۔ شاید اس کا سبب روٹی (معیشت) تھی جو بلوچ کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ "سی پیک” کی شکل میں بلوچ کے معاش پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ بلوچ سرزمین کے ساحل اور وسائل پر قبضہ کیا گیا۔ بلوچ کے لئے گوادر پورٹ،سیندک اور ریکوڈک کے دروازے بند ہیں۔ بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر چین اور پنجاب سے آنے والوں کا غلبہ ہے۔
حکومت سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بندوق کے زور پر بلوچ سرزمین کو کنٹرول کرنے کی پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بلوچ سمیت دیگر چھوٹی قومیتوں کے لئے روٹی میسر کرنے کا بندوبست کریں۔ ہتھیار سے ریاستیں نہیں بچ سکتی ہیں۔ اگر ریاستیں ہتھیار سے بچ سکتیں تو سابق سوویت یونین بچ سکتی تھی۔ کھربوں ڈالرز مالیت کے مہلک ہتھیار ہونے کے باوجود سوویت یونین دنیا کے نقشے سے مٹ گئی۔ سوویت یونین کے پاس جدید اسلحہ تو تھا مگر عوام کو کھلانے کے لئے روٹی نہیں تھی۔ روٹی میسر نہ ہونے کی وجہ سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ کیونکہ پوری ریاست روٹی (معیشت) کے گھیرد گھومتی ہے اور روٹی ہی دنیا کی عالمی طاقت ہے۔بشکریہ :ڈیلی آزادی کوئٹہ

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: