نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایرانی انقلاب اور مقدس دفاع کا قومی عجائب گھر(5)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طبیعت پُل سے گزر کر ہم لگ بھگ ایک سو میٹر سے زائدطویل پِلر کے پاس پہنچے جس پر ایرانی پرچم لہرا رہا تھا۔ اس پرچم کے پاس ہم کھڑے ہوئے۔ یہاں بعض دیگر لوگ بھی کھڑے ہوئے تھے۔ یہاں نل سے قدرتی پانی آ رہا تھا، جس کے قریب منہہ لے جا کر اویس ربانی نے پیا۔ میں نے چُلو سے پانی پیا اورہم آگے بڑھ گئے۔ چند میٹر آگے پندرہ بیس ایرانی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ورزش کی کلاس لے رہے تھے۔ ایک فزیکل انسٹرکٹر انہیں ہدایات دے رہا تھا۔ یہ وہ ورزشیں تھیں جو ہمارے اسکول میں ہمارے پی ٹی آئی کرایا کرتے تھے۔ برسرعام ایک گزرگاہ پر نوجوانوں کو ورزش کرتے دیکھنے کا ہمارا یہ تجربہ بہت دلچسپ تھا۔ ہمارے اُن کے درمیان سے گزرنے پر انہوں نے ورزش کا وقفہ کر لیا مگراُن کے کام میں ہمارے مخل ہونے کے باوجود ان کے چہروں پر کوئی ایسی بیزاری نہیں نظر نہیں آئی جس سے یہ لگتا ہو کہ انہیں ہمارادخل درمعقولات ہونا گراں گزرا ہے۔
ہم آگے بڑھے ، سامنے ایک عمارت نظر آتی ہے جس پر فارسی میں “موزہ ملی انقلاب اسلامی و دفاع مقدس” کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں ۔ ساتھ ہی انگریزی میں National Museum of Islamic Revolution & Holy Defence کے الفاظ بھی لکھے ہوئے ہیں۔ اس عجائب گھر میں دو واقعات کی دستاویزی اور حقیقی علامتیں اس نادر نمونے سے ہیش کی گئی ہیں کہ وہ واقعات ایک بار پھر آپ کے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں ایک واقعہ انقلابِ ایران اور دوسرا واقعہ ایران جنگ ہے۔ آج سے 45 سال قبل جب انقلاب اپنے عروج پر پہنچا تو دنیا بھر نگاہیں تہران پر جم گئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر کا پریس اور عام لوگ عراق کے مقدس شہر نجف پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے جہاں آیتہ اللہ خمینی انقلاب کی مرکزی شخصیت کے طور پر ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کئے ہوئے تھے۔
اس عجائب گھر میں انقلاب کے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ مختلف اسکرینوں پر رونما ہوتے نظر آتے ہیں۔
ہم طبیعت پُل سے پیدل چلتے ہوئے عجائب گھر کے احاطے میں داخل ہوئے، جہاں رضا شعبانی ایک لفٹ کے ذریعے ہمیں کسی زیرزمین نشیبی منزل کی طرف لے گئے جہاں چائے کیک اور دیگر لوازمات سے ہماری تواضع کی گئی۔ یہاں صرف ہم ہی چار پانچ افراد نہیں تھے بلکہ سینکڑوں دیگر مرد، خواتین اور بچے بھی اس چائے خانے میں موجود تھے۔ چائے سے فارغ ہو کر ہم لفٹ کے ذریعے ایک بالائی منزل پر آگئے اور سیدھے انقلاب کی وادی میں جا پہنچے۔ ہمارے سامنے انقلاب رونما ہو رہا تھا۔ درجنوں ٹی وی اسکرینوں واقعات کی فلمیں چل رہی ہیں۔ یونیورسٹی آف تہران سے ہزاروں احتجاجی طلباء انقلاب انقلاب اور مرگ بر شاہ کے نعرے لگاتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں۔ شاہ حفاظتی حصار میں اپنے تنخواہ دار وفادار فوجی دستوں کا معائنہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی دے رہا ہے مگر اس کے چہرے پر طوفان کی طرح آگے بڑھتے انقلاب کا خوف چھایا ہوا ہے۔ نجف میں آیتہ اللہ خمینی بہت پُرسکون دھیمے لہجے شاہ کی سفاکیت اور بربریت کا پردہ چاک کرتے نظر آتے ہیں۔ انقلاب تہران کے آزادی چوک پر پہنچ چکا ہے۔ سامراج، استعمار اور شاہ کے خلاف فلک شگاف نعروں کا شور چاروں طرف پھیل رہا ہے اور یہ شور ایران کے طول و عرض کی لامحدود سمتوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔ ہم پہلوی شہنشاہت کو لرزتا، تھرتھراتا اور کانپتا دیکھ رہے ہیں جس کا جشن 9 سال قبل 1979ء میں منایا گیا اور جس میں دنیا بھر جمہوری، غیرجمہوری، مطلق العنان، سوشلسٹ اورکمیونسٹ حکمران، بادشاہ، صدور اور وزرائے اعظم شریک ہوئے تھے۔ میں حیران تھا کہ سوویت یونین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل برژنیف کا ایران کی ڈھائی ہزار شہنشاہیت کے جشن میں شرکت کا کیا کام تھا۔ ہمارے ہاں سے جنرل یحی خان اس جشن میں شریک ہونے گئے تھے۔ مگر اب شہنشاہیت اپنے عبرت ناک زوال اور مکمل تباہی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ ظل الہی اور عالم پناہ کو کہیں بھی پناہ نہیں ملنے والی تھی۔ انقلاب ایک منہہ زور سیلاب کی طرح تہران، اصفہان، شیراز، قم، مشہد، آبادان، کاشان، کرمان اور دیگر شہروں کی گلیوں میں بہہ رہا تھا۔ انقلاب کے ہراول دستے مرگ بر شاہ کے نعروں کی گونج میں آگے پیچھے دائیں بائیں پھیلتے چلے جا رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسوگیس، گولیوں کی تڑتڑاہٹ پکڑ دھکڑسب کچھ رائیگاں جا رہا تھا۔ گولیاں کم پڑ رہی تھیں، سینے بڑھتے جا رہے تھے۔ ایک انقلابی کے گرنے سے پہلے دوسراانقلابی اس کی جگہ لیتا جا رہا تھا۔
انقلاب 7 جنوری 1978ء سے 11 فروری 1979ء تک ایران کے شہر شہر، گلی گلی، کوچہ کوچہ، کریہ کریہ گاؤں گاؤں، بستی بستی میں پھلتے پھیلتے آگے اور آگے بڑھتا رہا۔ یہاں عجائب گھر کے اندر انقلاب ایک قصے اور ایک کہانی اور ایک فلم کی طرح آگے بڑھ رہا ہے۔ اس عرصے میں مسلسل مظاہرے، ہڑتالیں، ہنگامے، عوامی مزاحمت، مسلح جدجہد اور آزادی کے نعروں کی لامحدود گونج پھیلتی جا رہی ہے۔ آیتہ اللہ خمینی کو عراق بدر کردیا جاتا ہے۔ اگست 1978ء میں ریکس سینما کی آگ میں پونے چارسو سے پونے پانچ سو کے درمیان افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک موت کے سندیسے بانٹ رہی ہے۔

ہم 16 جنوری 1979ء کو ایک عجیب منظر دیکھتے ہیں، اس سے پہلے شاہ اپنی آخری کوشش کے طور پر شاہ پور بختیار کو وزیراعظم بناکر صورتحال کو قابو میں لانے کے حربے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اب تہران کا مہرآباد ایئرپورٹ ایک حیرت ناک اور عبرت انگیز منظر پیش کرتا ہے۔ ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا وارث، بادشاہوں کا بادشاہ، ایران کا مطلق العنان شہنشاہ بے بسی کی تصویر بنا کسی متعین منزل کے بغیراپنی بیوی اوربچوں کو ساتھ لے کر ایران سے بھاگ رہا ہے۔ عجائب گھر کی اسکرین پر یہ لمحاتی منظر صدیوں کو سمیٹ لیتا ہے۔ شہنشاہ کو امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، غرض کوئی بھی ملک پناہ دینے پر تیار نہیں۔ عالم پناہ ، پناہ کیلئے ترس رہا ہے، جہاز اُڑان بھر رہا ہے۔ آگے وسیع خلا ہے اور کوئی منزل نہیں۔ یہ عجائب گھر ہے یا واقعات کو اور انقلاب کی تاریخ کو اُن کی اصل سند کے ساتھ دہرانے کا مقام۔
رضا شعبانی ہمیں عجائب گھر کے دوسرے حصے میں لے جا رہے ہیں جہاں ایران عراق جنگ کی ہولناکیوں کے مناظر ہیں۔ انقلاب اور ردِانقلاب کی قوتیں ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے شعلوں کے درمیان سوویت یونین کے بالشویک انقلاب کا ظہور ہوا۔ چین جاپان جنگ کے درمیان چینی انقلاب وقوع پذیر ہوا۔ ویت نامی انقلاب براہِ راست امریکہ کے ساتھ جنگ کے اختتام پر آگ کے دہشت ناک شعلوں میں نکل کر آیا۔ ایران کے انقلاب کے ظہور کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اُسے ایک طویل آٹھ سالہ جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ میں اُن لوگوں میں شامل ہوں جن کی نظروں کے سامنے ان دردناک واقعات کا ظہور ہوا۔ پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ افغانستان میں انقلاب ثور کی ناکامی کیلئے ہر حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ وہاں گوریلا جنگ کے شعلے بھڑکائے جا رہے ہیں اور ایران میں انقلاب کی کامیابی کے ایک سال اور سات ماہ بعد وہاں پر ایک جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔ عراق کو شط العرب پر قبضہ کا خواب دکھایا جاتا ہے۔ صدام حسین اپنے پیشرو حسن البکر کی چھٹی کر کے عراق میں مرد آہن بننا چاہتا ہے۔ وہ خونریزی کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے۔ وہ عراق میں ہر مسئلہ کو اندھا دھند طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ وہ بغداد، تکریت اور دوسرے شہروں میں اپنے لئے محلات بنوانے کا شوقین ہے۔ وہ طاقت اور جبر کی علامت نظر آنا چاہتا ہے۔ شط العرب کا مشرقی کنارا تاریخی اعتبار سے ایران کا حصہ ہے مگر وہ اس پر قبضہ کرکے علاقائی بدمعاش بن کر خطہ کی سُپرپاور یا کسی طاقت کا ایک آلۂ کار بننا چاہتا ہے۔ اسے جنگ کیلئے اُکسایا اور بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ اسے عربی اور عجمی کا فرق سمجھایا جاتا ہے۔ اس نے اپنی جوانی کے دن مصر میں جمال عبدالناصر کے دور میں گزارے تھے، وہ عرب دنیا کا ایک نیا تازہ دم جمال عبدالناصر بننا چاہتا ہے۔ وہ 1975ء کے ایران عراق معاہدہ کو پھاڑ دیتا ہے جس کے تحت شط العرب کے مشرقی کنارے کو ایران کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔
میں اس جنگ کی ہولناکیوں کی تازہ داستان ایک ایرانی کُرد خاتون سیدہ زہرہ حسینی کی ایک ہزار سے زائد صفحات پر دو جلدوں پر مشتمل کتاب “ماں” میں پڑھ چکا ہوں۔ یہ کتاب ڈاکٹر سعید طالبی نیا نے میرے دفتر میں تشریف لا کر مجھے دی تھی۔ اس کتاب میں ایران عراق جنگ کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے چشم دید واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ سیدہ زہرہ حسینی کا بچپن عراق کے ساحلی شہر بصرہ اور ایران کے خرمشہر میں گزرا تھا اور ایران عراق جنگ کی پہلی قیامت اسی خرمشہر پر سے گزری تھی۔
عجائب گھر میں خرمشہر کے کھنڈرات کو اس طرح بنایا گیا ہے جیسے انہیں جنگ کے فوراً بعد وہاں سے اُٹھا کر اس عجائب گھر میں لا کر رکھا گیا ہو۔ خرمشہر کے جلتے گھر، راکھ بنے اسکول، تعلیمی ادارے، اسپتال، بکھرے صحن، اُجاڑ گلیاں، ویران ماحول، سُلگتے آنگن، چارسُو پھیلا غم، مجھے سید زہرہ حسینی کی تحریر یاد آ رہی ہے۔”چونکہ کفن میں لپٹے ہوئے نومود اور سقط شدہ بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے غسل خانے کا گوشہ بھر چکا تھا ۔لہذا میں انہیں ہاتھ لگانے پر مجبور ہوئی تاکہ جگہ خالی کردی جائے۔ میں نے اُن میں دو بچوں کو اُٹھایا، جو کافی بھاری لگ رہے تھے۔ اُن کے جسموں کی ٹھنڈک میں اپنے ہاتھوں اور بازوؤں پر محسوس کر رہی تھی۔ اس منظر نے میرے وجود کو لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک نومولود کے تو منہہ سے چسنی بھی نہیں نکالی گئی تھی جبکہ دوسرے کے گلے میں ابھی تک پیش بند بندھا ہوا تھا اور ایک کے باچھوں میں پیا ہوا دودھ خشک ہو کر رہ گیا تھا، ان سوچوں سے دل کرتا تھا کہ میں زمین میں گڑ جاؤں۔”
ہم خرمشہر، ابادان، اہواز، دزفُل ، ایلام کرمان شاہ، اور قصرِشیریں میں بربادی کے مناظر اور کئی مقامات پر بنائے گئے مورچوں کا ماحول دیکھتے ہیں اور اس عجائب گھر میں جنگ کے پورے مناظر دیکھتے ہیں۔ ہم بالائی اور زیریں جنگی مورچوں کے شدید گرم اور شدید سرد ماحول میں لے جایا جاتا ہے، جہاں ہم سردی سے ٹھٹھرنے لگ جاتے ہیں اور گرمی سے پسینے سے شرابُور ہونے لگتے ہیں۔ آگے جنگ کا کنٹرول روم دکھایا گیا ہے۔ جس میں دائیں جانب آیتہ اللہ خمینی کی تصویر لگی ہے ، ساتھ ہی ایران کی مسلح افواج کے سربراہ کا چاک و چوبند مجسمہ جنگ کیلئے تیار نظر آتا ہے۔ کنٹرول روم کی بائیں طرف صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کا مومی مجسمہ ہے۔ لگتا ہے کہ صدر رفسنجانی کنٹرول روم جنگی ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ آگے ایران عراق جنگ کے ایرانی شہداء کی تصویریں ہیں۔ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ وہ ایرانی یہودی، عیسائی، زرتشتی، پارسی اور دیگر غیرمسلم شہری ہیں جنہوں نے ایران کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔ آگےتہران شہر سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی گیلری ہےجومادرِ وطن کا دفاع کرتے ہوئے قربان ہوئے۔ یہ عجائب گھر کیا تھا بس جنگ کے مورچے تھے۔ جنگی فضاء تھی۔ آگ اور خون کے دریا تھے جہاں سے حالت ِ جنگ میں گزرنا ناگزیر ہوتا ہے۔
ہم میوزیم سے باہر نکل آئے ، بائیں جانب کو ایک سڑک پر مڑے۔ جہاں دائیں طرف اسی عجائب گھر کی طویل عمارت کا پھیلاؤ ہے اور بائیں جانب مختلف کاروں ، جیپوں، ٹرکوں اور جنگی گاڑیوں کی قطار ہے۔ یہ گاڑیاں یا تو عراقی فوج سے قبضہ میں لی گئیں یا پھر یہ وہ گاڑیاں ہیں جس پر ایرانی سائنسدان ، فوجی افسر یا جنگی ماہر سوار تھے اور انہیں عراقی فوج نے نشانہ بنایا۔ دائیں جانب عمارت کے ساتھ ساتھ عراقی فوج کے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر یا ٹینک ہیں جنہیں دورانِ جنگ ایرانی فوج نے قبضے میں لیا۔

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author