حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج 5 جولائی (یہ سطور لکھتے وقت) 2023ء کی دوپہر ہے۔ آج سے 46 سال قبل اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تھا۔ بٹوارے کے بعد یہ تیسرا مارشل لاء تھا اس مارشل لاء کے نفاذ کی وجہ بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی احتجاجی تحریک بنی
یہ تحریک 1977ء کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے الزامات کی بنیاد پر چلائی گئی تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت پر الزام تھا کہ اس نے وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کو بلامقابلہ کامیاب کروانے کے لئے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے مدمقابل اپوزیشن کے امیدواروں کو اغوا کیا
بعدازاں انتخابی عمل میں بھی دھاندلی کی گئی۔ قومی اسمبلی کے انتخابی نتائج کے ساتھ ہی پی این اے نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا (یاد رہے تب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات چند دنوں کے وقفے سے ہوتے تھے) جس آرمی چیف نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا اسے بھٹو صاحب نے 5 سینئر جرنیلوں پر ترجیح دے کر آرمی چیف بنایا تھا۔
ضیاء الحق کو آرمی چیف بنائے جانے کے حوالے سے دو وجوہات زبان زد عام رہیں
اولاً یہ کہ وہ غضب کے چاپلوس تھے مختلف مواقع پر اپنی چاپلوسی کی مہارت سے بھٹو کے دل میں جگہ بناگئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اٹک قلعہ بغاوت کی سماعت کرنے والی خصوصی فوجی عدالت کی سربراہی انہوں نے درخواست کرکے لی تھی وہ عالم اسلام کے عظیم مدبر کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو سزا دے کر تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتے تھے۔
دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بریگیڈیئر کے طور پر اردن میں اپنی تعیناتی کے دوران انہوں نے مشہور بلکہ رسوائے زمانہ بلیک ستمبر میں جو خدمات سرانجام دی تھیں ان کی بدولت اردن کے شاہ حسین ان کے سفارشی تھے ۔
ان دونوں کے بیچوں بیچ ایک تیسری وجہ اس وقت کے سعودی سفیر ریاض الخطیب بھی بتائے جاتے ہیں۔ بہرحال وجہ کچھ بھی رہی ہو یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کو ایک منصوبے کے تحت آگے لایا گیا۔
جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگانے کے بعد اپنے خطاب میں کہا تھا ’’فوج نے ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے مارشل لاء لگایا ہے۔ 90دنوں میں انتخابات کراکے فوج واپس بیرکوں میں چلی جائے گی ” ۔
90دن گیارہ سال پر پھیل گئے۔ بھٹو پھانسی چڑھادیئے گئے۔ پیپلزپارٹی کے اندر سے پروگریسو پیپلزپارٹی نکالی گئی یہ اور بات کہ چل نہ پائی۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں اس ملک کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
تاریخ کا یہ حصہ اتنا گھناگونا ہے کہ اس کی یادیں خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیتی ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کی پاکستان بچائو تحریک کو کچلنے کے لئے فوجی حکومت نے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا۔ فوجی حکومت نے جو کیا اس پر مٹی نہیں ڈالی جاسکتی۔
اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی نے 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکا کا اعلان کیا۔ گو بعدازاں محترمہ بینظیر بھٹو سمیت متعدد رہنمائوں نے بائیکاٹ کے اس فیصلے کو نادرست قرار دیا لیکن ہاتھ سے نکلا وقت پلٹ کر نہ آیا۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ہی دو پڑوسی ملکوں میں انقلاب برپا ہوا۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی کی شاہی کی جگہ آیت اللہ سید روح اللہ امام خمینی کے اسلامی انقلاب نے لے لی جبکہ افغانستان میں دائود کی حکومت کی جگہ نور محمد ترکئی کی قیادت میں آنے والے انقلاب ثور نے لے لی۔
پڑوس میں برپا ہونے والے ان دو انقلابوں نے پاکستان کی فوجی حکومت کو امریکہ و مغرب سمیت مسلم امہ کی آنکھوں کا تارا بنادیا۔ امریکہ و مغرب کو جمہوریت اور مسلم امہ کو اسلامی اخوت و انصاف بھول بھال گئے۔
جنرل ضیاء اپنے طیارے کو پیش آنے والے حادثے تک ملک و قوم کی گردن پر مسلط رہے۔ اپنے اقتدار گیارہ برسوں میں انہوں نے ہر وہ ستم ڈھایا جو ڈھاسکتے تھے۔ ان کی قائم کردہ فوجی عدالتوں ضیائی انصاف کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ اس دور کی عدلیہ فوجی رجیم کی ڈارلنگ بنی رہی۔
عالمگیر انقلاب اسلامی والے صالحین اور ان کے بغل بچے لٹھ بردار جلوس نکالا کرتے تھے۔ بڑے بڑے طرم خان صالحین نے فوجی عدالتوں میں سیاسی مخالفین کے خلاف گواہیاں دیں۔
17 اگست 1988ء کو پیش آئے طیارہ حادثے میں جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دور اقتدار ختم ہوا۔
ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ جنرل حمید گل نے پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا۔ انتخابی عمل اور نتائج کے گھٹالوں کے باوجود پی پی پی قومی اسمبلی میں بڑی پارٹی بن کر ابھری۔
پنجاب میں آزاد ارکان صوبائی اسمبلی ڈپٹی کمشنروں کی گاڑیوں میں سوار کرکے ماڈل ٹائون پہنچائے گئے۔ قائم مقام صدر اسحق خان اور آئی ایس آئی نے مل جل کر کوشش کی کہ آئی جے آئی کی وفاق میں حکومت بن جائے لیکن ناکامی ہوئی۔
پیپلزپارٹی کا 1988ء کا اقتدار سمجھوتے پر مبنی تھا۔ پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کو غلام اسحق خان کو صدر منتخب کروانا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان اور مشیر خزانہ وی اے جعفری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا تحفہ تھے۔
سمجھوتوں سے عبارت یہ اقتدار مشکل سے 18ماہ چل پایا اس عرصہ میں پورا اردو اور پنجاب بیس میڈیا پیپلزپارٹی کے خلاف پروپیگنڈے میں جُتا رہا۔
پنجاب حکومت کی قیادت میاں نوازشریف کے پاس تھی۔ پی پی پی کے اس سمجھوتہ برانڈ اقتدار پر چند آوازیں ضرور اٹھیں لیکن پی پی پی کا موقف تھا کہ اگر تاخیر سے ملی حکومت سازی کی دعوت قبول کرنے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا جاتا تو آئی جے آئی کی حکومت ایجنسیوں کے تعاون سے پی پی پی کے ارکان کا جینا حرام کردیتی اور یہ کہ سندھ میں بھی واضح اکثریت کے باوجود پی پی پی کی حکومت نہ بننے دی جاتی۔
ان اٹھارہ ماہ کے دوران ایسا ایسا غلیظ پروپیگنڈہ ہوا جو آج بھی الہامی ارشاد کے طور پر پسندیدہ رزق ہے۔
پی پی پی کو اپوزیشن میں بیٹھنے کا مشورہ دینے والوں کا موقف تھا کہ مارشل لاء کے خلاف لمبی پرعزم جدوجہد کی وجہ سے ایجنسیوں کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ وہ پی پی پی کے ارکان کو توڑیں یا فارورڈ بلاک بنوانے کی کوشش کریں۔ ہر دو صورتوں میں جمہوریت پسند ان سے نمٹ لیں گے۔
بظاہر یہ بات جاگتی آنکھ کے خواب جیسی ہی تھی مگر اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1988ء کے انتخابات کی وجہ سے سابق مارشل لاء کے اندھے کنویں میں پڑی جمہوریت باہر تو آپائی لیکن اب یہ لولی لنگڑی جمہوریت تھی۔
جولائی 1977ء سے اگست 1988ء کے درمیان ماہ و سال کی داستان رنج و الم سے عبارت ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بعد میں چہرے تبدیل ہوتے رہے حالات جوں کے توں ہی رہے۔ لولی لنگڑی جمہوریت کو اشرافیہ کے ڈیروں، ڈرائنگ روموں وغیرہ وغیرہ میں آسودگی نصیب ہوئی تو اس نے طبقاتی جمہوریت کا رنگ و روپ اپنالیا۔
پاکستان جولائی 1977ء میں چند خامیوں کے باوجود آج سے کروڑا ہا درجہ بہتر ملک تھا۔ بھٹو صاحب کے دور کی آئینی ترامیم اور بعض دوسرے اقدامات پر جس طور مکالمے کی ضرورت رہی اس طرح کا مکالمہ نہیں ہوسکا۔
پیپلزپارٹی کے حامیوں کی تیسری چوتھی نسل بھی ان آئینی ترامیم اور دوسرے فیصلوں جیسا کہ ایٹمی پروگرام پر سوال اٹھائے جانے کو ایجنسیوں کی کارگزاری قرار دیتی ہے۔
سمجھوتہ برانڈ حکومت کو مجبوری کہا جاتا ہے جیسی مجبوری زندگی بچانے کے سارے امکانات ختم ہونے کی صورت میں زندگی کے لئے خنزیر کھالینے کی اجازت میں ہے ۔
پیپلزپارٹی کو چاہیے کہ 5 جولائی کو یوم سیاہ ضرور منایا کرے لیکن سال کے کسی ایک دن کو خود اپنی جماعت اور اقتدار کے ادوار کے لئے یوم احتساب بھی قرار دے تاکہ اس دن پیپلزپارٹی کے کارکن اور ہمدرد پارٹی کی سیاسی تاریخ، کامیابیوں و ناکامیوں کے تجزیہ کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لئے حکمت عملی وضع کرسکیں۔
اسی طرح ہمیں یہ حقیقت ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پیپلزپارٹی نے سیاسی عمل میں ذاتی دشمنیوں کو رواج نہیں دیا۔ ایم آر ڈی اور میثاق جمہوریت دو زندہ مثالیں ہیں۔
بہر طور اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ پی پی پی کے کارکنوں کو اپنی جماعت کی سیاسی جدوجہد ، کامیابیوں اور ناکامیوں پر مکالمہ اٹھانا ہوگا یہی وقت کی ضرورت ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر