سعید اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخی میں لفظ عمران کو اقتدار میں لانا پڑھ کر کچھ پڑھنے والوں کو غصہ دلا سکتا ہے۔ آئیے پہلے اس کو حل کریں۔ آپ میں سے جن لوگوں نے شیکسپیئر کے عظیم ڈرامے میکبیتھ کو پڑھا ہے یا جنہیں اس ڈرامے کو تھیٹر میں دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ مذکورہ لفظ کو پڑھنے کے بعد الجھ نہیں سکتے۔ میکبتھ، ایک عظیم جنرل، جب اپنے دوست بانکو کے ساتھ ایک فاتحانہ مہم جوئی سے واپس آ رہا تھا، گھر جاتے ہوئے ایک چٹیل میدان میں تین چڑیلوں سے ملتا ہے۔ ان تینوں نے میکبتھ کو ملک کا بادشاہ بننے کی خوشخبری دی، اگرچہ اس کے لیے اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنانا ایک مشکل کام تھا لیکن آخر کار اس کی کامیابی کا فیصلہ قدرت کی قوتوں نے کیا تھا جو، الزبیتھن دور کے نظریات کے پس منظر میں کائنات پر حکومت کرتے ہیں۔
عمران خان کو سیاست کے میدان میں لانے کا فیصلہ ملک کے ان کمروں میں کیا گیا جہاں جادوگروں کی جلتی ہے اور جادو کی چھڑی معجزے دکھاتی ہے۔ ’مستقل طاقت ”نے ملک کی دو اہم سیاسی جماعتوں پی ایم ایل این اور پی پی پی کی خاندانی سیاست کے رجحان کو توڑنے کے لیے ملک کے سیاسی بیانیے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن یہ صرف ملک کی روایتی سیاسی اشرافیہ کا تختہ الٹنے کا اقدام نہیں تھا بلکہ تنخواہ دار متوسط طبقے اور متوسط طبقے کا تھا جنہوں نے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے یا اگر خوش قسمتی تھے تو خود فوج سے مختلف مقاصد کے ٹھیکے حاصل کر کے، کافی ساری دولت اکٹھی کر کے اب اقتدار کی راہداریوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے۔
برصغیر میں تحریک پاکستان کے آغاز سے سیاسی بیانیہ یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن ہو اور اس کے باشندوں کے لیے ایک اسلامی فلاحی ریاست ہو۔ لبرل اگرچہ بعد کے مقصد سے متفق نہیں ہیں لیکن تحریک کے دنوں کے تاریخی اور سیاسی حقائق ملک کے سنٹر رائٹ کے دعوے کو ثابت کرتے ہیں۔ اسلام کے احکامات کے مطابق ملک کو چلانے کے لیے 1949 میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی۔ قرارداد میں اس بات کا تعین کیا گیا کہ پاکستان کا آئندہ آئین مکمل طور پر یورپی طرز پر نہیں بلکہ اسلام کے نظریے اور جمہوری عقیدے پر بنایا جائے گا۔ بعد میں اس قرارداد کو پوری طرح سے آرٹیکل 2 (A) کے تحت پاکستان کے 1973 کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔
چنانچہ سنٹر رائٹ کی سیاسی جماعتیں اس مقصد کا چیمپئن بن گئیں اور اس مقصد کو ثابت کرنے اور حاصل کرنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بیعت کے ساتھ مرکز دائیں سیاسی جماعتوں کے موقع پرستوں کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کر دیا گیا۔ جیسا کہ کے کے عزیز نے اپنی کتاب ”مڈر آف ہسٹری“ میں کہا ہے۔ دوسرے سیاسی دھڑے جنہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سینٹر رائٹ کے دعوے کی مخالفت کی انہیں یا تو بدنام زمانہ شاہی قلعہ لاہور میں پھینک دیا گیا یا پھانسی دے دی گئی۔ پاکستان نے ایوب دور کے بعد انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کیا ہے کیونکہ فوج ہمیشہ 1949 میں منظور کی گئی قرارداد کے مقاصد کی پاسداری کرتی رہی۔
سیاسی بیانیہ ایک اصطلاح ہے جو علم انسانیات اور علم سیاسیات میں اس طریقے کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں کہانی سنانے سے حقیقت کی تشکیل ہوتی ہے اور حقیقت کی تفہیم پر اثر پڑتا ہے۔ (شاؤل آر، 2006 ) ۔ کے کے عزیز نے اپنی کتاب مرڈر آف ہسٹری میں پاکستان کے سیاسی بیانیے کے بارے میں وہی موقف رکھا تھا جو بعد میں 2006 میں شاول آر نے بیان کیا تھا۔ اس سیاسی بیانیے نے حکمران اشرافیہ کو معاشی فائدہ پہنچایا۔ لیکن 90 کی دہائی کے اوائل میں اسٹیبلشمنٹ نے متوسط طبقے کے لوگوں کو ملک کی معاشی پائی میں حصہ داری کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ سیاسی اسلام کے بیانیے کے ساتھ ملک میں نفرت کا بیانیہ بھی متعارف ہوا اور عمران خان اس کا چیمپئن بن گیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے نازی پارٹی کے نقش قدم پر کام کیا اور ”ہم“ بمقابلہ ”ان“ کے نظریہ پر زور دیا گیا۔ سیاست میں نفرت کبھی بھی حکمران جماعت کو انسانی حقوق کے وقار کی پاسداری نہیں کرنے دیتی۔ اب عمران حکومت کی بدعنوانی، بے حیائی، وزیراعظم ہاؤس کی چوتھی منزل پر خواتین کی عصمت دری کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں، جو کہ استحصال کے مترادف ہے اور ساتھی کی رضامندی کے بغیر جبری جنسی تعلقات قائم کرنے کے مترادف ہے۔ اپوزیشن کو اندھیرے اور جیل کی اندھیری کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔
اب پی ٹی آئی سنگین انسانی خلاف ورزیوں کا دعویٰ کر رہی ہے۔ آئین میں کہا گیا ہے کہ بغاوت اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانا گھناؤنا جرم ہے اور اس کی سخت سزا ہونی چاہیے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس باغیوں کو سزا دینے کے سوا چارہ نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر