مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حسن درس: سندھڑی کا امر بیٹا||خلیل کنبھار

حسن درس کی شاعری میں کارونجھر کی بارش اور موروں کی ٹہوک ہے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ شاعری بھی ہواؤں اور بادلوں کی طرح خود سفر کرتی ہے۔ ایک تیز رفتار گاڑی بعد میں پہنچتی ہے جب کہ شاعری تھر اور تھر پارکر میں پہلے پہنچ جاتی ہے۔ اب حسن درس کی شاعری سفر کر کے ہم تک پہنچی ہے تو اس کے پاس شاعری کے پنکھ ہیں۔

خلیل کنبھار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا دوست رفعت عباس لکھتا ہے ”میں اپنی ماں کی گود میں جاگا ہوں اور اپنی ماں بولی کی آغوش میں سو جاوٴں گا“ ایک شاعر اور ناول نگار نے اپنی زبان سے کتنا حسین تعلق جوڑا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی ماں بولی کی جھولی میں سو گئے وہی امر ہوئے۔ شاہ لطیف بھٹائی اپنی سندھی زبان کی آغوش میں سو گیا ہے۔ شیخ ایاز اپنی ماں بولی کے دامن میں چلا گیا۔ حسن درس بھی اپنی مادری زبان کی آغوش میں ہے۔ اس لیے شہرتوں کی دوڑ میں دوسری زبانوں میں لکھنے کے بجائے اپنی مادری زبان کا سفیر بننا ہی عظمت ہے۔

مٹی میں دفن ہونا بھی اعزاز کی بات ہے لیکن ایک حقیقی شاعر کی اصل آغوش اس کی زبان ہے۔ جب تک اس دھرتی پر اس کی زبان بولی جائے گی اور اس کے گیت گونجتے رہیں گے تب تک وہ شاعر اپنے ہم وطنوں کی زبان سے اچارا، پڑھا، بولا اور گایا جائے گا۔ حسن درس کو بھی اس دھرتی نے بیٹے کے طور پر قبول کیا ہے اور وہ تب تک سندھی زبان کی گود میں سلامت رہے گا جب تک سندھی زبان لکھی، پڑھی اور بولی جائے گی۔

 

حسن درس کی شاعری نے اسے سندھ وطن کا بیٹا بنا دیا ہے۔ جن لوگوں نے سوچا کہ اسے جوانی کی موت نے شہرت بخشی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ بے معنی ہوتا چلا جائے گا انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ اس کی شاعری وقت کے ساتھ ساتھ مزید نکھرتی چلی جا رہی ہے۔ معروف اردو شاعر محسن نقوی نے کہا تھا۔

عمر اتنی تو مرے فن کو عطا کر مولا۔
میرا دشمن مرے مرنے کی خبر کو ترسے

 

حسن درس کی شاعری سندھ کے گلی کوچوں میں گونج اٹھی ہے۔ اب ایک نئی پیڑھی اس کی شاعری کو پڑھنے اور گانے کے لیے آ گئی ہے۔ وہ نئی پیڑھی کا مقبول شاعر بنتا جا رہا ہے۔ یہ اس کی دوستی اور لابنگ کا نتیجہ نہیں ہے۔ وہ تو گلابوں کے سہرے پہن کر سندھ کی زبان میں سو گیا اور اب لوگوں کی گفتگو میں اس کی شاعری مہک رہی ہے۔ میں بڑے شہروں اور ان کے ادبی میلوں کی بات نہیں کرتا۔ میں تھر تھر پارکر کی بات کرتا ہوں جہاں حسن درس کی شاعری پڑھی اور گائی جاتی ہے۔ امر کوٹ، چھاچھرو مٹھی، اسلام کوٹ اور ننگر پارکر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں، لیکن بعض ادبی حاسدین اسے سندھی شاعری کا ”فیوریٹ چائلڈ“ لکھتے ہیں جو قانون کی زبان میں مجرم کے لیے بولا جاتا ہے۔

حسن درس کی شاعری میں کارونجھر کی بارش اور موروں کی ٹہوک ہے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ شاعری بھی ہواؤں اور بادلوں کی طرح خود سفر کرتی ہے۔ ایک تیز رفتار گاڑی بعد میں پہنچتی ہے جب کہ شاعری تھر اور تھر پارکر میں پہلے پہنچ جاتی ہے۔ اب حسن درس کی شاعری سفر کر کے ہم تک پہنچی ہے تو اس کے پاس شاعری کے پنکھ ہیں۔

کالے ناگ پہ چاندنی، کارونجھر پہ مور ناچے
میرے خیال میں ساری سندھ پریں کی پرچھائیں

 

کسی کو یہ بارش اور مور نظر آئے یا نہ آئے ہم اچھوت اسے دیکھ لیتے ہیں۔ کسی کو سارے سندھ پر پریں کی پرچھائیں دکھائی دے یا نہ دے ہم اچھوتوں کو دکھائی دے رہی ہے۔ کیوں کہ مور کاسبے میں ٹہوکے یا شاعری میں ہم اسے پہچان لیتے ہیں۔ اب کسی براہمن کو یہ آواز سنائی نہ دے تو نہ دے۔ ہمیں تو درس کی شاعری اپنے رئسوڑے اور چروڑی ناچ جیسی لگتی ہے۔ ہم اسے گا بھی سکتے ہیں اور ناچ بھی سکتے ہیں۔

کولھیوں کے ساتھ کولھی ہو جاؤں
ہاں ہاں ہاں میں ہولی ہو جاؤں

ہم اس کی شاعری کو اپنے نئے جیون کے لیے برت سکتے ہیں۔ وہ ہمارے کام اور سنگھار کی چیز ہے۔ حسن درس کی شاعری ہمیں حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ ہماری واپسی کے لیے لڑ بھی سکتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں اتی۔

 

سنجھا کے وقت وہ سارے کولہی
ٹھہرے کے مٹکے کھولتے ہیں
گردن کے زنجیر اتارتے ہیں
صدیوں کے درد گاتے ہیں
نشے میں سب بتاتے ہیں

حسن کی شاعری ہم دھرتی جایوں کے سارے درد بیان کرتی ہے جنہیں حملہ آوروں نے اچھوت بنا کر انسانیت کا تفاخر چھیننے کی کوشش کی ہے۔

حسن درس کے گاوٴں میں سجائی ہوئی ایک محفل میں ہمارے دوست ڈاکٹر نظیر شیخ نے پرکیف لمحوں میں اس سے ایک غزل سنانے کی فرمائش کی جو حسن نے ہنس کر ٹال دی تو ڈاکٹر نظیر نے خود وہ غزل سنائی تھی جو اس کی کتاب میں شامل نہیں ہے۔ اس کی شاعری اس کے دوستوں کو یاد تھی اور اگر سچ بولیں تو اس کے ناقدین بھی اس کے کلام کو اپنی تنہائی میں گنگناتے رہتے ہیں۔ اس نے اپنی پردیسن دادی کے لیے ایک کمال کی نظم لکھی جو اس کی کتاب میں شامل نہیں ہے۔

 

جودھ پور تیرا وطن، سندھ تجھے کیسا لگا

حسن درس اپنے دوستوں اور شاعری کے مداحوں کے ایک بہت بڑے حلقے کا مرکز اور شاعروں کے ایک مخصوص ٹولے کی نفرت کا نشانہ رہا۔ وہ نفرت اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا کرتی رہی۔ حسن درس کی شاعری کی غلطیاں لکھوائی گئیں، اس کی شاعری کی غلط تشریح کروائی گئی، پھر یہ امید کی گئی کہ ایسا کرنے سے حسن اپنے شعری مقام سے گر جائے گا، لوگ اس سے ایک شاعر کی حیثیت میں محبت کرنا چھوڑ دیں گے، مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ حسن کے کچھ ہم عصر شاعر اپنے ہنر میں کچھ بھی نہ تھے فقط حسن درس کے عمل کا ردعمل تھے۔

حسن لاڑ ( سندھ کا ایک خطہ ) جاتا تھا تو وہ بھی لاڑ آنے جانے لگے ان کا خیال تھا کہ شاید لاڑ جانے سے شاعری میں نکھار آ جاتا ہے۔ حسن نے پریموں کولھی پر نظم لکھی تو انھوں نے ناگجی کولھی پر نظم کہی۔ حسن کی شاعری میں اگر گھوڑے کی ٹاپیں گونجیں تو ان کی شاعری میں بھی گھوڑا دوڑنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ ان سب ہیلوں اور وسیلوں کے بعد بھی وہ حسن کی برابری کے لیے لہجے کی کاٹ، موضوعات کی وسعت، بولی کا رس اور بات کرنے کا وہ انداز کہاں سے لائیں جو حسن درس کے گلے میں ہار کی طرح سجا ہوا تھا۔

 

میں نے گلے میں پہنا اور سینے سے بھی لگایا۔ کل تک میرا محبوب میرے ہاتھوں میں ہار کی طرح موجود تھا۔

حسن درس کے رد عمل میں کئی شاعروں نے ڈھیروں شاعری لکھی، دیس پردیس سے بڑے بڑے مھاگ بھی لکھوائے لیکن بات نہ بنی۔ کچھ سندھی شاعر اب تو اس کی کرشماتی شخصیت کی تعریف کرنے لگے ہیں (شاعری کی نہیں ) جبکہ پہلے وہ اپنی ذاتی محفلوں اور تحریروں میں یہی لکھتے اور کہتے تھے کہ غم کے بادل چھٹتے ہی حسن درس گم ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسے تو دھرتی نے ایک شاعر کے طور پر قبول کر لیا ہے اور یہ فیصلہ وطن خود کرتا ہے۔

جب شیخ ایاز صاحب جیسا عظیم شاعر اپنی فنی، فکری طاقت کے ساتھ موجود تھا اور اس کی موضوعاتی وسعت پورے جہان کو گھیرے میں لے رہی تھی تب حسن درس نے اپنا نیا راستہ بنایا۔ یہ کوئی معمولی اور سادہ بات نہیں تھی۔ حسن درس کا تخیل اتنا طاقتور تھا کہ وہ ہم کو تخلیق کے نئے اور ان دیکھے جہانوں میں لے گیا اور اس کی دین نے کویتا کے اسرار ہم پہ آشکار کر دیے۔ اس کے شاعرانہ حسن کو ابھی اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہونا تھا لیکن زندگی نے عین عروج کے زمانے میں اس سے بے وفائی کی، لیکن پینتالیس سال کی عمر میں وہ ایسی تخلیقی قوت دکھا گیا کہ اس کو پڑھ کر بڑے بڑے تخلیق کار اور نقاد دنگ رہ جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ حسن درس ہمارے آس پاس، سندھ کی مٹی اور لوگوں کی زندگی میں سے وہ موضوع لے کر آیا جو اس سے پہلے سندھ کے شاعرانہ اظہار کا حصہ ہی نہ تھے۔ اس نے اپنے کلام میں ہمیں ایک نیا سندھ دکھایا ہے۔ اس کے نئے منظر نئے زاویے، نئے دکھ اور نئے سکھ بتائے ہیں۔

لاڑ سے اترتا ہوا سورج مچھیروں کے بچے جیسا ہے۔

میں نے شاہ لطیف کے پارکھو مٹھو مھیری سے پوچھا کہ اس سطر کی آپ کے ہاں کیا تشریح ہے۔ اس نے کہا سورج غروب ہوتے وقت مچھیرا بچہ جو مچھلی یا ڈینڈ وغیرہ ملتا ہے اس کو اپنی رچھ میں ڈال کر جلدی جلدی گھر کی طرف جاتا ہے۔ سرخ رنگ ڈھلتا سورج بھی اسی طرح واپس لوٹ رہا ہوتا ہے۔ مچھیرے کا بچہ اور سورج دونوں بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔ یہ حسن درس کا مشاہدہ ہے اور اس کے بیان کی قوت ہے کہ وہ منظر اور لمحہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایسے منظر ایسے لقاء روز مرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں، ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس کو اس طرح محسوس اور بیان کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ اچھا قافیہ لکھنا اور اچھا شعر کہنا دو الگ چیزیں اور حقیقتیں ہیں۔ حسن جیسا نیا پن کسی کو کم نصیب ہوتا ہے۔

تم تو راکھ کی طرح
اپنی قبر کے ایش ٹرے میں
بے معنی ہو کر گر جاؤ گے

کچھ سندھی شاعروں کو دعوی ہے کہ ان کی شاعری میں مزاحمت ہے لیکن قاری کو نظر نہیں آتی، یہ کیسی مزاحمت ہے جو قاری کو متاثر کرنا تو دور کی بات نظر بھی نہیں آتی۔

ایک مرتبہ حسن درس نے ایک شخص کو مخاطب کر کے شعر لکھا اور پھر اس کا نام چھاپنے کی کسی پبلشر کو بھی جرات نہ ہوئی۔

ہم سب کو مل کر اس دن کے لیے جدوجہد کرنی ہے جس دن کسی شعر میں لکھا گیا نام پبلشر بے دھڑک چھاپ سکے۔ شاعری میں مزاحمت خود بتانے سے نہیں بہت بڑے شعری ہنر سے آتی ہے۔ یہ ہنر لطیف جانتا ہے کہ جب سر ماروی میں ماروی مزاحمت کی علامت بن جاتی ہے۔

ایک مرتبہ میرا دوست نصیر نہڑیو اور میں حسن درس سے شاعری سننے اس کے گاوٴں مشائخ ہوتھی گئے جہاں اس نے اعلی نسل کی گھوڑیاں پال رکھی تھیں۔ حسن کی شاعری سننے کے لیے اسے ڈھونڈنا پڑتا تھا اس لیے کہ اس نے کبھی کسی اخبار یا رسالے کو شاعری پوسٹ نہیں کی۔ اس محفل میں اس نے مجھ سے دو باتوں کی مانگ کی کہ سرکاری نوکری چھوڑ دو اور مے پیو تو شاعری ٹوٹ کر برسے گی۔ اسی محفل میں اس نے پی۔ آئی۔ اے میں نوکری کرنے والے اپنے کسی مصور دوست کا ذکر کیا کہ وہ اچھا مصور ہے لیکن اپنے آپ کو سرکاری نوکری میں ضائع کر رہا ہے۔ حسن درس کو اپنے بارے میں ہونے والی تعریفی یا تنقیدی گفتگو کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی وہ ایسی باتوں پر ہنستا تھا۔ وہ اس بات سے آگاہ تھا کہ اس کی تخلیقی سر مستی کو اس کے نقاد سمجھنے سے قاصر ہیں۔

میں نے اپنے گاوٴں نوہٹو میں ایک پروگرام رکھا اس میں شرکت کے لیے جب حسن درس کو فون کیا تو وہ روہی چولستان میں پیر فرید کے تکیے پر تھا اور وہاں سے گئی رات کو نوہٹو پہنچا۔ اس وقت محفل موسیقی چل رہی تھی اور ہمارا دوست گلوکار صادق فقیر گا رہا تھا۔ محفل موسیقی کے دوٴران نوجوانوں کی فرمائش پر حسن نے اپنی تازہ شاعری سنائی۔

حسن درس سے ہمارا عشق تھا اور اس کی شاعری ہمارے لیے آب حیات کی طرح تھی۔ وہ عجیب درویش تھا کچھ لوگوں نے اس سے پیار کا اظہار کیا، کچھ لوگوں نے اس کو پتھر مارے، کچھ نے اس کے عیب بڑھا چڑھا کر پیش کیے اور کچھ لوگوں نے اس کو گرانے کی کوشش کی مگر ان کو یہ یاد نہیں رہا کہ زمانے کو پارسائی سے زیادہ آرٹ متاثر کرتا ہے۔

خلیل کنبھار کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: