حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن التواء کیس کے تین رکنی بنچ کے فیصلے سے اتفاق اور اختلاف فطری امر ہے اس فیصلے کو جن چند بنیادی سوالات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے وہ غالباً دونوں فریقوں کے لئے اہمیت نہیں رکھتے۔ آپ کو اختلاف کا کامل حق ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ یہ فیصلہ نظام انصاف اور جمہوریت پر بوجھ بنے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نظام انصاف اور لُولی لنگڑی جمہوریت کی گردنیں یہ بوجھ اٹھاپاتی ہیں یا نہیں۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج صاحبان میں تقسیم بہت واضح ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل دو سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کرانے کے ساتھ انتخابی عمل کے باقی ماندہ مرحلہ کے لئے شیڈول بھی دیا۔ کیا انتخابی شیڈول مکمل یا محدود ( جزوی) دینا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہے؟
کم از کم میرے سامنے آئین کی وہ شق بہرطور موجود نہیں جو سپریم کورٹ کو انتخابات کی تاریخ اور مکمل یا جزوی شیڈول دینے کا اختیار دیتی ہو۔
عدالت کو یہ دیکھنا ہوتاہے کہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ یہ کیس بھی عدالتی حکم کی خلاف ورزی کا کیس تھا۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 90دن میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کے عدالتی فیصلے سے انحراف کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
یعنی خیبر پختونخوا اور پنجاب میں الیکشن کمیشن عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے انحراف کا مرتکب ہوا ہے ۔
منگل کا فیصلہ پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے ہے۔ کیا اگر آئین شکنی اور اختیارات سے تجاوز ہوا تو وہ صرف پنجاب میں ہوا خیبر پختونخوا میں نہیں؟ دو صوبوں کے معاملات میں درخواست پر ایک صوبے کےلئے فیصلہ اور دوسرے صوبے پر محض یہ کہہ دینا کہ متاثرہ فریق مناسب فورم پر درخواست دے سکتا ہے عجیب ہے کیونکہ متاثرہ فریق نے مناسب فورم پر ہی درخواست دی تھی فورم نے درخواست کے ایک حصے کی شنوائی کرکے فیصلہ سنادیا۔
گو فیصلے میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’’خیبر پختونخوا کے گورنر کا وکیل وکالت سے دستبردار ہوگیا اس لئے خیبر پختونخوا کے الیکشن کا فیصلہ نہیں کررہے‘‘۔
معاف کیجئے گا گورنر کو دوبارہ نوٹس کرنا چاہیے تھا جوکہ نہیں کیا۔ پختونخوا الیکشن کمیشن کو بلانا ضروری تھا نہیں بلایا گیا۔ اب فیصلے میں جو مرضی لکھ دیجئے جیسا کہ لکھ دیا گیا ہے مگر اس تاثر کو ختم نہیں کرسکیں گے کہ سارا جھگڑا تخت لاہور کے لئے تھا اور ہے۔
ایسا نہیں تو پھر جب گورنر پختونخوا کے وکیل یہ کہہ کر وکالت سے دستبردار ہوگئے کہ میری جماعت کو اس بنچ پر اعتماد نہیں اس لئے میں گورنر کی وکالت نہیں کروں گا تو عدالت کا فرض کیا تھا، بالکل سادہ سا فرض تھا گورنر کو دوبارہ نوٹس دیا جاتا انہیں سنا جاتا عدالتی نوٹس کےبعد اگر گورنر وکیل نہ کرتے تو پانچ میں سے کم از کم آخری دو سماعتوں پر عدالت واضح کردیتی کے ہم اس وقت صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التوا کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔
ایسا نہیں ہوا اور جو ہوا جیسے ہوا اور پھر فیصلہ یہ سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ روز بھی عرض کیا تھا کہ جب چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ کے فیصلے میں کہہ دیا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے تین رکنی بنچ کے فیصلے کا اطلاق الیکشن التواء کیس پر نہیں ہوتا تو پھر فیصلہ سنائے جانے کے بعد الگ سے 6رکنی بنچ بنانے کی ضرورت کیا تھی؟
کیا صاف سیدھی قانونی وجہ یہی نہیں کہ اگر 6رکنی بنچ بناکر جسٹس قاضی والے تین رکنی بنچ کے فیصلے کو ختم نہ کیا جاتا تو الیکشن التواء کیس کافیصلہ قانونی حیثیت حاصل نہ کرپاتا؟ بالفرض وہ فیصلہ درست نہیں تھا تو چیف جسٹس والے بنچ کے فیصلے میں وضاحت کردی گئی تھی پھر 6رکنی بنچ کیوں؟
اب لاکھ وضاحتیں کیجئے درست بات یہ ہے کہ اگر 6رکنی بنچ بناکر فیصلہ نہ لیا جاتا تو جسٹس قاضی والے تین رکنی بنچ کے فیصلے کی موجودگی میں کسی فیصلے کی قانونی حیثیت نہ رہتی۔
محض یہ کہہ دیتا کافی نہیں کہ الیکشن التواء والے کیس پر جسٹس قاضی والا فیصلہ لاگو نہیں ہو تا۔ جسٹس قاضی والے بنچ کا فیصلہ ازخود نوٹسوں والے تمام مقدمات کے لئے تھا۔
یہ الیکشن التواء کیس بنیادی طور پر ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر دائر ہوا تھا۔ کیسے یہ بات مان لیا جائے کہ اس کا ازخود نوٹس کیس سے کوئی تعلق نہیں؟ تعلق تھا تو 6رکنی بنچ بنانا پڑا ورنہ الیکشن التوا کیس کے فیصلے میں کئی گئی وضاحت ہی قانون کا درجہ حاصل کرلیتی ۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ 6رکنی بنچ قائم کرکے پانچ رکنی بنچ کے اختلافی فیصلے اور اس فیصلے کے اس پیراگراف کا ’’بندوبست‘‘ کیا گیا جس میں لکھا تھا کہ ’’ازخود نوٹس کو ہم سمیت دو ساتھی ججوں نے مسترد کردیا ہے اس لئے فیصلہ تین دو کا نہیں چار تین کا تصور ہوگا اور تمام ادارے چار تین کا فیصلہ ماننے کے پابند ہوں گے‘‘۔
الیکشن التوا کیس کی سماعتوں اور فیصلے میں جب کہہ دیا گیا تھا کہ ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ تین دو کے تناسب سے ہے اختلافی فیصلہ دینے والے ججوں کا یہ موقف درست نہیں کہ فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے تو پھر خطرہ کیا تھا؟
ایک عام فہم طالب علم کے طور پر میں یہی سمجھ پایا ہوں کہ تین رکنی بنچ اس امر سے بخوبی آگاہ تھا کہ محض یہ لکھ دینا کافی نہیں ہوگا کہ جسٹس قاضی والے بنچ کا فیصلہ غیرموثر ہے یا اختلافی فیصلہ دینے والوں نے چار تین کا جو تناسب لکھا اور حکم دیا ہے اس پر تین رکنی بنچ کی رائے قابل عمل نہیں ہوگی اس لئے جسٹس اعجازالحسن کی سربراہی میں ہنگامی طور پر 6رکنی بنچ بنواکر فیصلہ لیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چھ رکنی بنچ میں جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی دونوں شامل ہیں۔ ان کی سفارش پر ہی ازخود نوٹس لیا گیا تھا پھر یہ دونوں جج 9رکنی بنچ سے الگ ہوگئے ان میں سے ایک کو الیکشن التواء کیس کے ابتدائی پانچ رکنی بنچ میں شامل کیا گیا تو اس پر اعتراضات اٹھے۔
اب دونوں جج چھ رکنی بنچ کا حصہ ہوئے اس طرح تو ازخود نوٹس لینے کی سفارش کرنے والے جج صاحبان خود ایک فریق تھے جسٹس قاضی والے بنچ کے فیصلے کی روشنی میں ۔ اب انہوں نے ہی 4منٹ 47سیکنڈ میں جسٹس قاضی والے بنچ کے فیصلے کو نمٹادیا۔
کیا کمال انصاف ہوا یعنی جن دو جج صاحبان کے ازخود نوٹس کی سفارش سارے تنازع کی وجہ بنی وہی تنازع ختم کرنے کے "کارخیر” کو انجام دے رہے ہیں۔
ازخود نوٹس کیس اور پھر الیکشن التواء کیس کی سماعتوں اور فیصلوں پر لکھے گئے ان سوالات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں جو گزشتہ کالموں میں پڑھنے والوں کے سامنے رکھے۔ فریقین کے لئے پسندوناپسند سے زیادہ میرے لئے دستور کی اہمیت ہے۔ آئین کیا کہتا ہے گزشتہ روز والے کالم میں عرض کیا تھا آئین کہتا تھا کسی قانون کی تشریح اور خلاف ورزی کا نوٹس لینا عدالت (سپریم کورٹ) کا کام ہے یہ کہیں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ ’’آئین نویسی‘‘ کی ذمہ داری سنبھال سکتی ہے۔
اسی طرح سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان موجود اختلاف اور فیصلوں کے ذریعے مٹی پائو پروگرام سے زیادہ اس امر سے دلچسپی ہے کہ خودپسندی اور تجاوز کہاں کہاں ہوا۔
انتخابی شیڈول دینا الیکشن کمیشن کا کام تھا عدالت انتخابی شیڈول نہ دینے یا دے کر منسوخ کرنے کا نوٹس لے سکتی ہے خود سے انتخابی شیڈول مکمل یا جزوی دے سکتی ہے نہ پولنگ کی تاریخ مقرر کرسکتی ہے۔
ثانیاً یہ کہ خیبر پختونخوا والے معاملے میں وضاحت قانونی جواز سے زیادہ ڈنگ ٹپائو لگتی ہے۔ یہی فیصلہ مزید چند دن بعد دیا جاسکتا تھا بہتر ہوتا کہ اگر پختونخوا کے گورنر اور صوبائی الیکشن کمیشن دونوں کو دوبارہ نوٹس کرکے ان کا موقف بھی سن لیا جاتا ایسا ہوتا تو یہ مناسب ہوتا۔
اب آیئے فیصلے کے حوالے سے حکومت کے موقف پر، حکومت کا فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرائے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود ہے۔ حکومت اپیل لے کر جائے اور درخواست کرے کہ سپریم کورٹ کا فل بنچ بنایا جائے جو اس آئینی نوعیت کے کیس کی سماعت کرے۔
اپیل میں وہ سارے سوالات اور اعتراضات اٹھائے جانے چاہیں جن کا اظہار کیا جارہا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ محاذ آرائی کا تاثر دینا درست نہیں ہوگا۔
قانونی جنگ قانونی طریقہ سے لڑی جانی چاہیے۔ حکومت کے پاس اپیل کے علاوہ پارلیمنٹ کا فورم بھی ہے۔ اس لئے نرم گرم بیانات سے بہتر راستہ اپنایا جانا چاہیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ