مئی 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان کی حمایت، تنقید ، پھر حمایت : مگر کیوں ؟||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا پر بعض احباب مختلف اوقات میں لکھی میری بعض تحریروں کے سکرین شاٹ شیئر کر رہے ہیں۔ میری بھی ایک آدھ پوسٹ پر انہوں نے بڑے ذوق شوق سے کمنٹ لگائے۔ دلچسپ بات ہے کہ ایک طرف ن لیگی یہ کر رہے تو دوسری طرف انصافین ایسا کر رہے۔ شائد سوشل میڈیا پر (محدود دائرے میں )یہی ایک نکتہ ہے جس پر دونوں شدید مخالف متفق پائے گئے۔ اس پر مجھے خوش ہونا چاہیے یا خفا، معلوم نہیں۔
ہمارے دوست ہمایوں تارڈ نے خاکسار کے لئے فیس بک حسن ظن کا اظہار کیا تو یہ انصافین وہاں بھی احتجاج کرنے پہنچ گئے ۔
ن لیگیوں کا تو شکوہ ہے کہ پہلے عمران خان کے خلاف لکھا تو اب اس کی حمایت کیوں کر رہے ؟ جبکہ انصافین کو شکوہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر عامر خاکوانی نے عمران خان پر تنقید کی جسارت (گستاخی) کی تھی وغیرہ وغیرہ۔ ان اللہ کے بندوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عامر خاکوانی پچھلے گیارہ ماہ سے ان کی حمایت کر رہا،
ان انصافین کی سوئی سال پرانے ایک بلاگ میں اٹکی ہے۔ اب انہیں اگر زومبی کہا جائے تو یہ برا مان جاتے ہیں۔ چلیں زومبی نہیں کہتا، ’’بھولا بادشاہ‘‘ کہہ دیتا ہوں۔ آپ چاہیں تو ان دو لفظوں کی جگہ کچھ اور ذہن میں سوچ لیں۔

چونکہ بعض محبت کرنے والے احباب نے مجھے اس حوالے سے سوال پوچھے ہیں اور درخواست کی کہ اس حوالے سے کچھ لکھا جائے ۔ چند نکات بیان کئے دیتا ہوں۔

پہلی بات یہ کہ میں عمران خان کو کوئی مسیحا، دیوتا یا نجات دہندہ نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک وہ آئیڈیل سیاستدان نہیں، میرا محبوب یا پسندیدہ سیاست دان بھی نہیں۔
مجھے اس میں شبہ ہے کہ عمران خان اس سسٹم کو توڑ پائے ، اس گندے نظام کے دفاع میں جو بڑی بڑی فصیلیں استوار ہیں، انہیں گرا پائے ۔
البتہ مجھے پورے سیاسی نظام میں کوئی اور مقبول یا بڑا لیڈر نظر نہیں آتا جس سے یہ امید رکھی جائے ۔ یعنی کسی حد تک یہ امکان موجود ہے کہ عمران خان ایسا کر دکھائے، اس کے علاوہ کوئی اور بڑی یا پاپولر پارٹی اور لیڈر ایسا نہیں۔

میں عمران خان کو ایک سیاستدان ہی سمجھتا ہوں، تضادات سے لبریز ایک سیاستدان ۔ ان میں بعض بہت طاقتور اور نہایت مثبت پہلو ہیں تو کئی بڑی خامیاں بھی۔ عمران خان انہی تضادات کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اوریہ ایک حقیقت ہے۔ ویسے بھی انسانوں میں تضادات ہوتے ہین اور ہمیں انہیں مان کر آگے چلنا ہوتا ہے۔

عمران خان ساڑھے تین برس حکمران رہا اور ان کی بطور حکمران کارکردگی تسلی بخش نہیں تھی، بعض حوالے سے خاصی مایوس کن ، البتہ چند ایک معاشی فیکٹر اچھے ہوئے جیسے ایکسپورٹ وغیرہ ۔ کورونا کے حوالے سے مینجمنٹ بھی نسبتاً بہتر رہی ، البتہ ویکسینیشن شاندار رہی، پورے دور کی سب سے غیر معمولی چیز یہی ویکسی نیشن تھی ۔

بطور وزیراعظم اور بطور لیڈر عمران خان کے تقررنہایت مایوس کن اور انتہائی افسوسناک تھے۔ عثمان بزدار جیسے نہایت سطحی، معمولی قابلیت کے شخص کو جو بعد میں کرپٹ بھی ثابت ہوا، اسے پنجاب جیسا صوبہ سونپنا بدترین غلطی تھی۔
آج جب عمران خان اور تحریک انصاف کا بحرانی دور ہے، آج عثمان بزدار کہاں ہے؟ کسی انصافین کو پتہ چلے تو ضرور بتائے ۔ کم وبیش اسی طرح کا ایک نااہل وزیراعلیٰ کے پی میں لگایا، جس نے پرویز خٹک دور حکومت کی اچھی کارکردگی کو بھی ریورس کر دیا۔
اعظم خان جیسے شخص کو پرنسپل سیکرٹری بنایا جس نے وزیراعظم عمران خان کو تنہا کر دیا۔ شہزاد اکبر جیسے لپاڈی پر بھروسہ کیا، جس نے دعوے کئے مگرعمران خان کو ہر طرف نقصان ہی پہنچایا۔ اس کے اور فروغ نسیم کے کہنے پر جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف خواہ مخواہ کی محاذ ارائی کی ۔ واڈا جیسے کچرے کو خواہ مخواہ اپنے قریب کیا، وزیر بنایا۔
حامد خان جیسے مخلص اور نظریاتی شخص کو دور رکھا۔ مشکل وقت میں وہی کام آیا، ورنہ عمران خان شائد اسلام آباد ہائی کورٹ سے توہین عدالت میں نااہل ہوجاتا۔ سب سے زیادہ نقصان جمیل گجر اور فرح گوگی جیسے کرپٹ اور مشتبہ کرداروں کو اپنے قریب جگہ دینا، جس سے عمران خان کی انٹیگریٹی پر انگلی اٹھائی گئی ۔ ان سے فاصلہ کرنا چاہیے تھا اور اپنی اہلیہ کو بھی سختی سے بنی گالہ تک محدود رکھتے ۔ توشہ خانہ کی گھڑیاں بیچنے کا احمقانہ فیصلہ واضح طور پر خان صاحب کی بیگم کا لگتا ہے، اس سے انہیں خواہ مخواہ کا دھچکا لگا، جس سے بچا جا سکتا تھا۔

البتہ بعض تقرر اچھے بھی رہے، جیسے ثانیہ نشتر کو لانا بہت اچھا اور درست فیصلہ تھا۔ حماد اظہر جیسے نوجوانوں کو آگے لا کر اعتماد دینا اچھا رہا۔ فرخ حبیب جیسے کارکنوں کو پروموٹ کیا ۔ عارف علوی کو صدر بنانا نہایت دانشمندانہ فیصلہ ثابت ہوا۔ اسد قیصر کو سپیکر اور قاسم سوری کو ڈپٹی سپیکر بنانا درست سیاسی فیصلے تھے ۔ شوکت ترین کو آخری برسوں میں وزیرخزانہ بنایا، مگر تب تک دیر ہوچکی تھی۔

سیاسی محاذ پر بھی عمران خان کی کئی غلطیاں ہیں، اس وقت ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر سخت تنقید کی تو ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے پچھلے سال ڈیڑھ سے ہم جن چیزوں پر بولتے اور لکھتے رہے تھے، نجی محفلوں میں خان کی حامیوں کو کہتے کہ ان کی اصلاح کریں، وہ نہ کی گئیں اور ان سب کی قیمت ادا کرنا پڑی تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر۔
مثال کے طور پر جنوبی پنجاب کے اکثر آزاد ارکان اسمبلی کو جہانگر ترین نے پارٹی میں شامل کرایا۔ اس جہانگیر ترین کو بے آبرو کر کے پارٹی سے نکال دیا۔ چلیں یہ فیصلہ اچھا تھا یا برا تھا ہوگیا۔ اب یہ سوچنا چاہیے تھا کہ جہانگیر ترین گروپ کا کیا بنے گا؟ کسی نے انہیں بھی اون کرنا ہے یا نہیں؟
عمران خان کو کس نے کہا تھا کہ بطور وزیراعظم تین تین سال ارکان اسمبلی سے ملاقات بھی نہ کرو۔ مصروفیت خواہ جس قدر بھی ہو، لاہور یا اسلام آباد میں چند گھنٹے ارکان اسمبلی سے ملاقات کے لئے نہیں نکالے جا سکتے تھے ؟
اوروں کی نہیں تو جہانگیر ترین گروپ ہی کی فکر کر لیتے۔ ان سے ملتے، مسائل حل کرتے، انہیں اعتماد میں لیتے تو انہوں نے آپ کے ساتھ رہنا تھا۔ جہانگیر ترین ان کا سپانسر تو نہیں تھا کہ اسی کے ساتھ جڑے رہتے۔ یا پھر اپنے وزیراعلیٰ سے کہتے کہ اس گروپ کے لوگوں کو قابو میں رکھو، ان کے مسائل حل کرو ، فنڈز وغیرہ دو، اکاموڈیٹ کرو تاکہ مشکل وقت میں وہ تحریک انصاف کے ساتھ رہیں۔ ان میں سےموزوں اافراد کو صوبائی کا وفاقی کابینہ میں اکاموڈیٹ کر دیا جاتا۔ اس سب میں کیا جاتا تھا؟
عمران خان نے تحریک انصاف جنوبی پنجاب کا صدر مخدوم خسرو بختار کو بنایا، جنوبی پنجاب سے انہیں کابینہ میں اکاموڈیٹ کیا،اہم وفاقی وزارت دی۔ ان کے بھائی کو صوبائی وزیرخزانہ بھی بنایا۔ کسی تحریک انصاف والے نے پچھلے پورے ایک سال میں مخدوم خسرو بختیار کا نام سنا ہے؟ کہاں ہے وہ؟ حکومت ختم ہوتے ہی یہ مخدوم زادہ لندن جا کر بیٹھ گیا، ابھی تک شائد وہیں ہے۔
یہی وہ غلطیاں ہیں جس نے تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر تحریک انصاف کے لئے مشکلات پیدا کیں اور زرداری اینڈ کمپنی کے لئے جوڑ توڑ آسان کر دیا۔ ناراض ارکان اسمبلی کو توڑنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اوپر سے ایسا مٹی کا مادھو وزیراعلیٰ ہو جو ساڑھے تین برسوں میں پانچ ارکان صوبائی اسمبلی کی حمایت بھی حاصل نہیں کر سکا۔ تو یہی کچھ ہونا تھا۔ یہی سب کچھ ہم تحریک عدم اعتماد سے سال بھر پہلے سے کہتے تھے کہ کیا عمران خان کو نظر نہیں آ رہا کہ کیا ہوگا اس کے ساتھ ؟
ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر پر جو گرد وغبار اڑائی گئی ، کیا وہ کسی سے اوجھل ہے۔ یہ عمران خان کا تب بالکل غلط فیصلہ تھا۔ اس سے کیا حاصل ہوا؟
خیر ان باتوں میں اب کیا رکھا ہے۔ اب بھی اگر انصافین زیادہ چوڑے ہو کر مجھ سے سوال نہ پوچھتے تو یہ سب نہ لکھتا۔

جہاں تک تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر عمران خان پر تنقید کا معاملہ ہے تو میرے حساب سے وہ درست تنقید تھی۔ قاسم سوری کی رولنگ ہر اعتبار سے غلط، غیر قانونی اور غیر آئینی تھی۔ میرا موقف درست ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ نے وہ رولنگ اڑا دی ۔ اسمبلی بحال کر دی۔ اسے ایسا ہی کرنا تھا۔ آئین یہی کہتا تھا۔
تحریک عدم اعتماد سے پہلے یہ دھمکیاں دینا کہ ہم لوگ جمع کر رہے ہیں اور ارکان اسمبلی ان میں سے گزر کر جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں فضول اور غلط تھیں، یہ جمہوری رویے نہیں۔ تب ہی وہ بلاگ لکھا تھا، ۔۔۔۔۔ کےنقش قدم پر۔ اس بلاگ کی چبھن آج بھی انصافین کو محسوس ہوتی ہے۔ تو ہوتی رہے، میری بلا سے ۔ میں نے جو محسوس کیا، وہ لکھا ڈالا۔ تب کی صورتحال میں وہ درست تھا۔ تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے جو تاخیرکی گئی وہ بھی سمجھ سے باہر تھی، آخر رات بارہ بجے ووٹنگ کرانا پڑی تو پہلے ہی کرا دو۔
خیر میرے نزدیک عمران خان تب غلط تھا، اس کا رویہ غیر سیاسی تھا۔ اس لئے تنقید کی۔
ویسے اسی تحریک عدم اعتماد کے دوران ہی پی ڈی ایم کی ہارس ٹریڈنگ پر مسلسل تنقید کی ، جو تماشہ سندھ ہائوس میں لگایا، اس پر بھی مسلسل تنقید کی، مذمت کی، کالم لکھے، بلاگ لکھے، فیس بک پوسٹیں لکھیں، ٹوئٹ کئے۔ کیا یہ سب کچھ شکوہ کرنے والے انصافینز سے اوجھل رہا؟کیا تب وہ نیپال چلے گئے تھے یا آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھے تھے ؟راجہ ریاض کو لیڈر آف اپوزیشن بنانے کا جو ڈرامہ کیا گیا، اس پر میں ہی سب سے زیادہ تنقید کرتا رہا ہوں، پچھلے ایک سال میں۔

یہ سب ایک الگ فیز تھا۔
عمران خان کی سیاست کے الگ الگ فیز ہیں۔غیر اہم سیاست کا پہلا فیز ستانوے سے دو ہزار گیارہ تک۔ دوسرا فعال سیاست کا دو ہزار گیارہ سے چودہ پندرہ تک۔
تیسرا پاناما سے دوہزار اٹھارہ اور پھر اقتدار کے ساڑھے تین برس۔ یہ ایک ہی فیز ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قربت اور بے پناہ قربت والا۔
ایک فیز اس کی حکومت سے علیحدگی کا ہے۔ سائفر پلے ، تحریک عدم اعتماد ، رولنگ ، اسمبلی کی بحالی اور پھر وزیراعظم سے علیحدگی ۔ سائفر پر میں نے ایک طویل بلاگ لکھا تھا دو حصوں میں ، پچھلے سال اپریل میں ۔ کسی روز متن پھر لگائوں گا، پڑھ کر دیکھ لیجئے کہ تب جو کچھ کہا تھا، ویسا ہوا یا نہیں؟
ایک فیز دس اپریل دوہزار بائیس کے بعد شروع ہوا جو اب تک چل رہا ہے۔

ہر فیز کا عمران خان مختلف ہے، اس کی خامیاں، خوبیاں، طرزعمل سب کچھ مختلف ہے۔ اس لئے ہماری تنقید، تعریف، توصیف، مذمت سب کچھ بھی ہر فیز کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ۔

آج کا عمران خان یعنی پچھلے ایک سال کے دوران ، خاص کر پچیس مئی کے لانگ مارچ میں ہونے والے انتظامی، پولیس کے تشدد کے بعد سے لے کر آج چھ اپریل دو ہزار تئیس تک۔

میرے نزدیک آج کا عمران خان مظلوم ہے، اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور تمام ادارے اس کے خلاف متحد ہو کر یکسو ہو کر چڑھ دوڑے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت بھی اس کی جانی دشمن ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی مخالفت کی انتہائی حدوں تک جا پہنچی ہے۔
آج جو بھی نمایاں سیاستدان ہیں، ان میں سے بہت سے اپوزیشن میں رہے، ان پر سختیاں ہوئیں، جیل جانا پڑا، مگر قتل کرنے کی کوشش کسی کو نہیں کی گئی۔ عمران خان ہی ہے جسے مارنے کی باقاعدہ منظم کوشش کی گئی ۔ گولیاں ماری گئیں، قدرت نے بچا لیا، ورنہ منصوبہ بے داغ تھا۔ ایک ذہنی معذور ٹائپ لڑکا قاتل کے طور پر سامنے رہتا اور کسی قسم کا سراغ نہ ملتا۔

میرے نزدیک آج کے عمران خان سے بہت سے سیاسی ، نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں، مگر یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ملک کی تمام قوتیں اس کی مخالف ہیں۔ اسے کچلنے پر تلی ہیں، اس کے لئے ہر قسم کا غیر اخلاقی، غلط ، ناجائز حربہ استعمال کرنے پرآمادہ ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو یا نہ ہو، مگر آج کی اسٹیبلشمنٹ بہرحال اینٹی عمران ضرور ہے۔ عمران خان کی حمایت کے لئے صرف یہی ایک فیکٹر کافی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسے کچلنا چاہتی ہے تو اس میں یقیناً عمران خان کی کوئی خوبی اور اچھا پہلو ہوگا، ورنہ اسٹیبلشمنٹ کیوں اس کے درپے ہوتی۔

میں نے ماضی میں عمران خان کی حمایت کی، لمبا عرصہ ۔اقتدار میں آنے کے بعد اس کے غلط تقرریوں پر تنقید بھی کی، حکومت میں اصلاحات لانے میں کوتاہی پر بھی نکتہ چینی کرتے رہے۔ بعد میں بھی جہاں وہ غلط لگا، اسے برملا غلط کہا۔
آج وہ مظلوم ہے، اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو ہم اس کی بھرپور حمایت بھی کر رہے ہیں، اس کے مخالفوں کے کمزور، غیر آئینی، غیر اخلاقی، غیر سیاسی بیانیے کے پرخچے اڑانے کی کوشش بھی ہے۔
آج سوائے عدلیہ کے عمران خان کو کوئی نہیں ریلیف دے سکتا، اسی لئے عدلیہ پی ڈی ایم اینڈ کو کا ہدف بنی ہے۔
اسی وجہ سے میرے جیسے لوگ کھل کر چیف جسٹس عطا محمد بندیال کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کا دفاع کر رہے ہیں، پی ڈی ایم کے بودے بیانیہ کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ میرے نزدیک عدلیہ کا عمران خان کو ظلم اور غیر قانونی حربوں کے خلاف ریلیف دینا درست ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن کرانا ہر اعتبار سے درست اور آئین کے مطابق فیصلہ ہے۔
آج کی تاریخ میں ہم عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔
اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم نے عمران خان کو اپنا لیڈر، نجات دہندہ، مسیحا سمجھ لیا ہے۔ ہرگز نہں۔
میں ایک اخبار نویس ہوں اور اخبارنویس کو کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہونا چاہیے۔ اسے ایشو ٹو ایشو رائے دینی چاہیے۔ چاہے وہ کسی سیاسی جماعت کے حق میں ہو یا دوسری کے خلاف۔
میں یہی کر رہا ہوں۔ ایشو ٹو ایشو رائے۔
آج عمران خان درست جگہ پر کھڑا ہے، اس کے حق میں بات کر رہے ہیں۔
کل وہ اگر غلط ہوگا یا دوبارہ اقتدار میں آ کر پھر سے غلطیاں کرے، کسی اور عثمان بزدار جیسے مٹی کے مادھو کو اہم منصب دے یا پھر سے فرح گوگی، جمیل گجر جیسے مشتبہ کردار اہم ہو جائیں تو ہم پھر سے عمران خان پر تنقید کریں گے۔
ہمارے نزدیک عمران خان ایک سیاستدان ہی ہے۔ تضادات سے لبریز سیاستدان۔
البتہ مجھے کئی حوالوں سے وہ اپنے مخالف پی ڈی ایم کے سیاستدانوں سے بہتر لگتا ہے۔
میرا یہ خیال غلط بھی ہوسکتا ہے۔
ایسا ہوا تو میرے پڑھنے والے یقین رکھیں کہ ان شااللہ میں کسی بھی قسم کی مصلحت، ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوں گا۔ عمران خان کی غلطیوں پر تب ہم ایسی ہی گرفت کریں گے جیسا کہ آج ہم پی ڈی ایم کے خلاف کر رہے ہیں۔

بس اتنی سی کہانی ہے۔ مختصر لکھنے کا ارادہ تھا، مگرحسب روایت طویل ہوگئی۔ عجلت میں لکھنے کا شائد یہی نقصان ہے کہ تحریر لمبی ہوجاتی ہے۔

مجھے ان سکرین شاٹس کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ جن میں دو ہزار بائیس مارچ میں عمران خان پر تنقید ہے اور مارچ دو ہزار تیئس میں حمایت ہے۔
بھائی حالات بدل گئے ہیں، پچھلے سال وہ صاحب اقتدار تھا، اب اپوزیشن میں ہے، اس پر ظلم ہو رہا، زیادتی ہو رہی تو ظاہر ہے ہمارا دیکھنے کا زاویہ بھی اب مختلف ہے۔ اس میں ایسی کیا اچنبھے والی بات ہے؟
ہاں عمران خان سے مایوسی کا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ میں پی ڈی ایم کا حامی ہوگیا تھا۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔
عمران خان سے مایوسی اگر کسی کو آل شریف، آل زرداری یا مولانا جیسے موقعہ پرست دینی سیاستدان کے پاس لے جائے گی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص نظریاتی نہیں، وہ میچور بھی نہیں اور جدید اصطلاح میں بذات خود رانگ نمبر ہے۔

اصلاحات کا کوئی بھی حامی عمران خان یا کسی بھی پرو ریفارمز پارٹی کی بری کارکردگی سے مایوس ہوسکتا ہے، مگر پھر وہ سٹیٹس کو کی علمبردار جماعتوں کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟
ریفارمز یا تبدیلی کی خواہش تو ہمیشہ رہنی چاہیے ، پوری ہو یا نہ ہو۔ اس خواہش کوختم کیسے کیا جا سکتا ہے ؟
سسٹم بدلنے کی خواہش رکھنے والا اسی گلے سڑے سسٹم کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟
میری یہی خواہش ہے کہ مجھے اس حوالے سے جانچا جائے، پرکھا جائے۔
ہم سسٹم کو بدلنے کی خواہش برقراررکھتے ہیں؟ یا پھر اسی گندے سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں؟
جو آخری تجزیہ کیا جائے، اس میں یہ پہلو سب سے اہم ہونا چاہیے۔
میرا اپنے ناقدین سے صرف یہی مطالبہ ہے۔ بس یہی۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: