عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ یونیورسٹی جامشورو حیدرآباد سندھ میں شعبہ کیمسٹری کی استاد اور سندھ یونورسٹی لیکچررز ایسوسی ایشن کی سابق سربراہ عرفانہ ملاح نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنی وال پر جیکب آباد میں شیعہ خواتین کے جلوس میں لگی سبیل حسین پر خودکش حملے کے حوالے سے اپنے ایک اپ ڈیٹ سٹیٹس پر لکھا ہے
Last year it was Shikarpure and this year Jacababad was targeted and who know what would be next because north Sindh is now safe heaven for jihadi out fits of all kind. Soon it will be worse then FATA, and where are Security agencies, police, ranger and army, who will take responsibility of law and order? Seems jihadi and sectarian organisation are on their agenda?
پچھلے سال شکار پور اور اس سال جیکب آباد کو نشانہ بنایا گیا اور کون جانے کہ اگلا نشانہ کون ہوگا ؟ کیوںکہ شمالی سندھ اب ہر قسم کے جہادی ہرکاروں کے لئے محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے – بہت جلد یہ فاٹا سے بھی بدتر ہوگا ، اور سیکورٹی ایجنسیاں ، پولیس ، رینجرز ، فوج کہاں ہیں ؟ اور امن و امان کی زمہ داری کس کی ہے ؟ کیا فرقہ پرست اور جہادی تنطیمیں ان کے ایجنڈے پر ہیں
عرفانہ ملاح نے مزید لکھا
Last year I meet with many Sindhi talibs in mudersa’ in Abadbad and they informed that two hindered of them are only in that city who knows many more sindhies are training there? When I asked their political affiliation all 200 of Abatabad were associated with JUI Fazal Rahman group.
گزشتہ سال میں کئی سندھی طالب سے ابد آباد مدسے کے کئی سندھی طالب سے ملی اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ان میں سے دو سو طالب علم ہیں جو اس شہر میں ہیں اور کون جانتا ہے کہ اور کتنے سندھی ہوں گے جو وہآں تربیت پارہے ہوں گے ؟ جب میں نے ان سے ان کی سیاسی وابستگی پوچھی تو ابدآباد کے ان سب طالب علموں نے یک زبان ہوکر اپنی وابستگی جے یوآئی فضل الرحمان گروپ سے بتلائی
عرفانہ ملاح نے جیسے ہی اپنی فیس بک پر یہ سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا تو کئی ایک نے سندھ کے دیہی علاقوں میں ” سندھی طالب کی موجودگی اور سندھ کی طالبنائزیشن ” کی عدم موجودگی کا دعوی کرنا شروع کردیا
عرفانہ ملاح نے اس دوران کومنٹس میں اپنے خیالات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا
As I meet to group accidentally I went to visit a historical masque there and group of young boys where chating in courtyard. From there outlook they were like Pathan in typical shawar Upto knees and long kurta , when I cam to near them they were SINDHI speaking. It arouse my interest and engaged in chatting with them for half and hour. All ten plus group were from kandhkot and others were from near by areas. It was I interesting chat and I surprised to see them in such huge no.
میں ایک تاریخی مسجد کا دورہ کررہی تھی جب میں حادثاتی طور پر اس گروپ سے ملی تھی – نوجوان لزگزں کا ایک گروپ مسجد کے صحن میں موجود تھا – اپنک وضع قطح کے اعتبار سے وہ پٹھان لگ رہے تھے کہ ان کی شلواریں ٹخنوں سے اونچی اور کرتے لمبے تھے ، میں جب ان کے قریب آئی تو وہ سندھی بول رہے تھے – اس نے مجھ میں تجسس پیدا کیا اور میں ان سے آدھے گھنٹے بات چیت میں مصروف رہی – دس سے زائد کا یہ گروپ کندھ کوٹ سے آیا تھا اور دوسرے نزديکی علاقوں سے تھے – یہ دلچسپ بات چیت تھی اور میں اتنی بڑی تعداد ميں ان کو دیکھ حیران تھی
عرفانہ ملاح نے اپنی بات کی وضاحت میں ایک کومنٹ یہ بھی کیا
I am not talking on muhram specific incident but reflecting on rise of sectarianism in north and rural Sindh which traditionally believe in pluralism.
we have no issue with seminaries but most of seminaries are nurseries of sectarianism. No seminary is sect less, they are educate student in particular Sect which dangerous thing. Next I do agree that only Pathan has no monopoly over this we sindhies are also in competition. Sindh is historically a multi religious and land people here believe in pluralism which has been threaten by these sectarian orgnizations.
میں محرم سے وابستہ ایک ” حادثہ ” کو خاص کرکے یہ بات نہیں کررہی ہوں بلکہ یہ بات شمالی دیہی سندھ میں ” فرقہ پرستی ” کے ابھار کی عکاسی کے لئے کررہی ہوں جوکہ روائتی طور پر ” تکثریت ” پر یقین رکھنے والا علاقہ رہا ہے
ہمیں مدرسوں کے ساتھ کوئی ایشو نہیں ہے لیکن اکثر مدرسے ” فرقہ پرستی ” کی نرسریاں ہیں – کوئی مدرسہ ” فرقہ ” سے ماوراء نہیں ہے ، اور وہ طالب علموں کو خاص ” فرقہ ” کی تعلیم دیتے ہیں جوکہ خطرناک ہے – نیز میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ صرف پٹھان ہی اس ( طالبنائزیشن ) پر اجارہ رکھتے ہیں بلکہ سندھی بھی اس مقابلے میں شریک ہیں – سندھ جو تاریخی اعتبار سے کثیر المذھبی رہا ہے اور ایسی دھرتی رہا ہے جہاں لوگ ” تکثیریت ” پر یقین رکھتے آئے ہیں ان کو ان فرقہ پرست تنظیموں سے خطرہ ہے
گزشتہ سال میں ” اندرون سندھ ” گيا اور میں نے شمالی سندھ کے کئی اضلاع کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے بعد میں نے سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھی بولنے والی آبادی کے اندر ” تکفیری دیوبندی فاشزم ” کے ابھار اور سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھی آبادی میں ” نیو دیوبندی ازم ” سے متاثر مدارس کی تشکیل اور ان میں ” تکفیری فاشزم ” کے پنپنے کا زکر کیا تھا اور میں نے خصوصی طور پر یہ بھی بتایا تھا کہ سندھ میں جمعیت العلمائے اسلام ( مولانا فضل الرحمان گروپ ) کا سیاسی کیڈر بڑی تبدیلی سے گزرا ہے ، اب اس کا کارکن ایک طرف تو جے یو آئی سے وابستہ ہے تو ساتھ ساتھ وہ اہلسنت والجماعت جیسی تکفیری فسطائی جماعت سے بھی وابستہ ہے اور میں نے سندھ کے بلوچستان سے ملحق علاقوں میں بلوچستان سے سفر کرنے والی تکفیری آئیڈیالوجی سے مسلح شفیق مینگل ، رمضان مینگل اور ظہور شاہوانی کے اہلسنت والجماعت کے گروپوں کے کیڈرز کی آمد اور جیکب آباد ، کشمور ، دادو ، خیرپور میں ان کے مراکز بارے بھی تفصیل سے خبر دی تھی
میں نے جب کئی ایک سندھی قوم پرست اور بائیں بازو کے سیکولر دانشوروں سے اس حوالے سے سندھ میں مکالمہ کیا تھا تو ان میں ایک نوجوان صحافی جو خود بھی خیر پور سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی میں ” دی نیشن ” اور ” نیوز لائن ” میں اس ٹاپک پر بہت کچھ لکھ چکے فہیم رضا اور سندھ یونیورسٹی جامشورو حیدرآباد سندھ میں شعبہ فلسفہ کی سربراہ ” امر سندھو ” نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ سندھی دیہی سماج میں ” جہادی ، تکفیری اور کالعدم تنظیموں ” کا اثر تیزی سے پھیل رہا ہے اور جے یو آئی (ف ) کی سیاست بھی بدل رہی ہے
میں نے یہ بات اس وقت کی تھی جب سندھی قوم پرستوں اور بائیں بازو کے بہت سے دوست سندھ میں طالبنائزیشن میں ” سندھیوں کی شرکت ” کو ناممکن قرار دے رہا تھے اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس کی وجہ ” خیبرپختون خوا ” اور فاٹا سے فوجی آپریشنوں کے بعد اور افغانستان پر امریکیوں کے حملے کے بعد ” پشتونوں ” کی بڑے پیمانے پر سندھ میں نقل پیمانی ہے اور وہ اہلسنت والجماعت سمیت دیکر فرقہ پرست جماعتوں کے کارکنوں کی یک نسلی شناخت پر بھی زر دیتے نظر آتے تھے
پاکستان کا مین سٹریم میڈیا اور کراچی بیسڈ بہت سے جریدے بھی ” سندھ میں تکفیری فاشزم میں سندھی بولنے والے تکفیری فسطائیوں ” کی حصّہ داری کی نفی کرنے میں لگا ہوا تھا اور وہ یہ بات تسلیم کرنے سے عاری تھا کہ سندھ میں دیوبندی مدارس ، جے یوآئی ( فضل الرحمان گروپ ) بنیادی ماہیت قلبی سے گزررہا ہے –
اندرون سندھ میں جمعیت العلمائے اسلام ( فضل الرحمان گروپ ) کی سربراہی مولانا ڈاکٹر خالد سومرو کے پاس تھی اور ڈاکٹر خالد سومرو 80ء کی دھائی میں آیم آرڈی کے زمانے ميں چونکہ ایک جمہوریت پسند ، ضیاء آمریت کے مخالف اور سندھی قوم پرستی کے قریب ترین رہے تھے اور وہ اپنی نظریاتی خوراک ” جمعیت العلمائے ہند ” کے سامراج دشمن سندھی نیشنلسٹ علماء سے لیتے نظر آتے تھے اور ” کالا باغ ڈیم ” کے خلاف انہوں نے زبردست کردار بھی ادا کیا تھا تو سندھ کا انگریزی سیکولر پریس ان کی ” تعریف ” میں رطب اللسان رہتا تھا اور وہ زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کررہا تھا – افغانستان میں طالبان کی آمد ، ان کی حکومت ، سعودیہ عرب سے ” دیوبندی مدارس اور جے یوآئی ایف کی قیادت کی بڑھتی قربیتیں ” اور سعودی عرب کی جانب سے ” دیوبندی مذھبی قیادت ” کو خطے میں اپنی سٹریٹجک مفادات اور دلچسپیوں مين اہم ترین سٹریٹجک پارٹنر بنانے کی وجہ سے سندھ میں میں ” نیو دیوبندی ازم ” کی پرورش بڑی تیزی سے ہوئی اور آج سندھ میں جے یو آئی ایف کے اکثر مدارس ” اہلسنت والجماعت ” یعنی کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان ” سمیت کئی جہادی تکفیری تنظیموں سے بھی ہمدردی رکھنے والے ثابت ہوئے ہيں اور آج کی جے یو آئی ایف ک کردار میں بڑی ہی بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور یہ ماضی کی نیشنلسٹ ، صلح کل دیوبندیت کی بجائے فرقہ پرست پین اسلامسٹ گلوبل جہادی سعودی نواز رجحان سے مغلوب ” نیودیوبندیت ” سے متاثر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر خالد سومرو نے اپنی زندگی میں دیہی سندھ کے اندر ” اہلسنت والجماعت ” ، جیش محمد ، حرکۃ الجہاد الاسلامی ، طالبان اور اب داعش ” کے بڑھتے ہوئے اثرات اور ان کے دیوبندی مدارس میں ” پھیلاؤ اور اپنے سیاسی کارکنوں کے اندر ان کے نفوز کو روکنے اور اس کے آگے بند باندھنے کی زرا کوشش نہیں کی بلکہ ان کی جماعت ” مجلس علماء اسلام ” کا حصہ بنی جو 26 دیوبندی تنظیموں کا اتحاد تھا اور اس کی سربراہی فرقہ پرست ” مجلس احرار اسلام ” کے صدر کو دی گئی جبکہ اس کی سپریم کونسل کی سربراہی ” جامعہ بنوریہ العالمی ” کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کو دی گئی تھی اور یہ اتحاد ” نیشنل ایکشن پلان ” سے ” مذھبی دھشت گردی ” کے لفظ کو نکلوانے اور مدارس کے خلاف ” سرچ آپریشن ” کو رکوانے کے لئے وجود میں آیا تھا ، ڈاکٹر خالد سومرو کا جب قتل ہوا تو اس وقت بھی ” ہیرالڈ ” سمیت کئی ایک موقر سیکولر ، لبرل انگریزی جریدوں نے ڈاکٹر خالد سومرو کو ایک ” ماڈریٹ ، سندھی پروگریسو نیشنلسٹ مولوی ” کے طور پر پیش کیا اور یہی راگ بہت سے سندھی قوم پرست سیاسی رہنماؤں نے بھی الاپا تھا
پاکستان پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری آغاز کار سے ہی ” جے یو آئی (ایف ) کی سیاست کے بارے میں اس کے 80ء کی دھائی میں ” ایم آرڈی ” تحریک کے دور کے کردار سے مغلوب نظر آئے اور انہوں نے سندھ کے اندر اس جماعت کی سیاست کے ” جہادی و فرقہ پرست رجحان ” کے اگے سرنگوں ہوجانے کا جائزہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی اور اس پارٹی کو انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں بہت ہی نوازا – پہلے وہ سعودی عرب اور جے یوآئی (ف) کی طرف سے ” حامد سعید کاظمی ” کے خلاف بنائے جانے والے محاذ اور اس دوران اعظم سواتی کے جارحانہ کردار کے سامنے ڈھے گئے اور انہوں نے ” خورشید شاہ ” کو وزرات مذھبی امور دی اور مولانآ شیرانی کو ” اسلامی نظریاتی کونسل ” کا چئیرمین بناڈالا اور ظاہر اشرفی بھی اسی زمانے ميں کونسل کے چئیرمین بنے ، حیرت انگیز طور پر آصف علی زرداری ” حامد سعید کاظمی ” کے معاملے ميں فوج پر تو بہت بولے لیکن انہوں نے کسی ایک مقام پر بھی ” جے یوآئی ایف ” کے محاذ کو چیلنچ نہ کیا ، اس کے بعد جب وہ اقتدار سے محروم ہوئے تو سندھ میں ان کی پارٹی جے یوآئی (ایف ) کے ساتھ اتحاد میں آگئی اور انہوں نے ایک طرح سے ڈاکٹر خالد سومرو کو مین سٹریم میں آنے میں مدد فراہم کی اور یہ راشد سومرو ہیں فرزند ڈاکٹر خالد سومرو جنہوں نے پی پی پی سے اپنا اتحاد توڑ دیا اور وہ اب سندھی قوم پرستوں ، فنکشنل لیگ اور زوالفقار مرزا سے اتحاد بنانے کا سوچ رہے ہیں
امر سندھو جو کہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں شعبہ فلسفہ کی استاد ہیں انہوں نے ” حال ہی میں مری فیس بک پر ایک پوسٹ کے نیچے کومنٹس کرتے ہوئے یہ انکشآف کیا ہے کہ سندھ میں یہ ” آغا سراج درانی ” ہیں جو اپنے سیاسی مخالف ” جتوئیوں ” کو نیچا دکھانے کے لئے ” تکفیری دھشت گردوں ” کو گود لئے ہوئے ہیں اور انہوں نے واقعی پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ میں موقعہ پرستانہ سیاست کا بدترین مظاہرہ کرنے کی ایک جھلک ہمیں دکھائی ہے
جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ” خورشید شاہ ” گزشتہ سال ” جھنگ ” میں اہلسنت والجماعت کے سربراہ ” محمد احمد لدھیانوی ” کے ساتھ بیٹھے ایک تصویر میں ہمیں نظر آئے تھے اور ان کے ” مدرسہ منزل گاہ ” سکھر اور سندھ میں اہلسنت والجماعت کی قیادت سے تعلقات پر بھی کافی ” لے دے ” ہوئی تھی
پاکستان پیپلزپارٹی کی اس موقعہ پرستانہ سیاست اور تکفیری قوتوں کے ہمدردوں سے تعلقات پر سندھی دانشوروں کی جانب سے شدید تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے ، عرفانہ ملاح نے بالکل درست کہا ہے کہ ” طالبانائزیشن ” پر پشتونوں ، پنجابیوں کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ سندھی میں اس ” مسابقت ” میں کسی سے کم نہیں ہے
لیکن میں یہاں ” غلام بنی چنّا ” کی اس بات کی تائید کروں گا کہ دیہی سندھ کی سیاست میں ” جے یوآئی ایف ” کی مصنوعی انٹری کی مخالفت کرنی چاہئیے بلکہ یہ ” نیو دیوبندی ازم ” کو سندھ کے تکثیریت پسند دیہی سماج میں فیصلہ کن حثیت دینے کی ایک سازش ہے جس کی طرف سے سندھ حکومت اور آصف علی زرداری نے آنکھیں بند کررکھی ہیں اور سندھ میں ” نیو دیوبندی تکفیری فاشسٹ ” جو سندھی طالب شمالی سندھ میں تیار کررہے ہیں وہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سیاسی کارکنوں ، قیادت ، سندھی سیکولر ، آزاد خیال دانشوروں ، شاعروں ، ادیبوں ، صوفی سنّی، شیعہ اور ہندؤ برادریوں کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو خیبرپختون خواہ اور چھے قبائلی ایجنسیوں میں عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت ، کارکنوں اور شاعروں ، ادیبوں کا ہوا
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر