عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیوہار مذھبی عقیدت اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے –
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں صبح سویرے مساجد میں قرآن خوانی ہوتی ہے-
جلسوں کا انعقاد اور پھر جلوس نکالنے کا عمل شروع ہوتا ہے –
برصغیر ہند میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتدریج یہاں کے کمپوزٹ کلچر(مشترکہ ثقافت) کا حصہ بننے والے تیوہاروں میں شامل ہوئی-
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ کی برصغیر ہند کے کلچر میں پہلی پہلی رونمائی اُن عرب تاجر مسلمانوں کے زریعے سے شروع ہوئی جن کو گجرات سمیت برصغیر ہند کے ساحلی علاقوں کا کنٹرول رکھنے والے راجے مہاراجوں نے باقاعدہ ایک کالونی کی شکل میں خاص علاقوں میں اپنی حویلیاں اور مال تجارت کے گودام بنانے کی اجازت دے دی تھی – بدایوں ایک ایسا ہی علاقہ تھا جہاں پر مسلمان عرب تاجروں کی بڑی تعداد آباد ہوئی – مقامی راجا نے انھیں وہاں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت بھی دی –
رومیلا تھاپر سمیت قرون وسطیٰ میں سنسکرت اور دیگر زبانوں میں موجود دریافت ہونے والی تحریروں کے تجزیے سے اس حقیقت کو بخوبی آشکار کیا ہے –
اسلام اور پیغمبر اسلام، اہل بیت اطہار اور اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین بارے مقامی زبانوں میں لکھی جانے والی یہ تحریریں اسلام کی طرف اُس زمانے کی مقامی اہل دانش کے رویے کو مثبت دکھاتی ہیں اور پیغمبر اسلام کا تصور ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتی ہیں –
اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ عرب تاجر مسلمانوں کی تجارت کو ان علاقوں میں ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا ناکہ معاندانہ طور پر –
عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیوہار کا برصغیر ہند کی ثقافت میں شمولیت کا ایک اور سراغ اُن عرب اور بلوچ قبائل کی آج کے سندھ اور بلوچستان میں آمد کے ساتھ ملتا ہے جو بنوامیہ کے جبروستم اور ظلم سے تنگ آکر یا اموی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہونے، قید میں جانے یا قتل ہونے سے بچنے کے لیے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی یا زمینی راستوں سے یہاں داخل ہوئے – انھیں بدھ مت، جین مت کے غلبے والے علاقوں میں پناہ ملی اور یہاں پر عید میلاد النبی اور عاشوراجیسے تیوہاروں کا مقامی ثقافت میں نفوذ کرنے کا عمل شروع ہوا –
علوی تحریکوں سے وابستہ بہت سارے گروہ آج کے سندھ، بلوچستان، سرائیکی بیلٹ میں آکر آباد ہوئے – اور یہ سلسلہ واقعہ کربلاء کے بعد تو شدت پکڑ گیا تھا-
تاجروں اور اموی ملوکیت کے ستائے مجبور و محکوم گروہوں کی برصغیر ہند میں آمد کو یہاں حکمرانی کرنے والے مقامی حکمرانوں اور اُن کی رعایا نے کسی قبضہ گیری، حملہ آوری کی شروعات خیال نہیں کیا تھا بلکہ مقامی آبادی کے لیے تجارت اور جلاوطنی کے راستے سے اسلام کا تعارف آج کی مروجہ اصطلاح میں اسلام کے ایک ترقی پسند، روشن خیال اور مذھبی آزادی والے چہرے سے تعارف تھا –
زرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو برصغیر ہند کی مقامی آبادی نے اسلام کے ایسے ماننے والوں کی قسم دیکھی جو "صُلح کُل” یعنی "سب کے لیے امن” کے داعی تھے اور "تکثریت” کو ثقافت کا اہم اور بنیادی جزو خیال کرتے تھے –
برطانوی نوآبادیاتی دور میں چاہے ترقی پسند، روشن خیالی سے جُڑے ماہرین تاریخ ہوں ( نمایاں نام پروفیسر حبیب، اطہر علی رضوی وغیرہ کی ہے ان میں ہندؤ، سکھ ترقی پسند مورخین بھی شامل ہیں) یا اصلاح پسند /ریفارمسٹ ماہرین تاریخ ہوں ( سرسید، شبلی نعمانی، سلمان ندوی) یا احیاء اسلام پسند ماہرین تاریخ(مولانا ابوالکلام آزاد ان سب کے پیش رو ہیں) ہوں ان سب نے برصغیر ہند میں "صلح کلیت” یا نوآبادیاتی دور میں سامنے آنے والی اصطلاح "سیکولر نیشنل ازم” دونوں کی اصل، آغاز کو مغلیہ دور میں اکبر بادشاہ سے جوڑا اور اسی طرح سے غلط طور پر انھوں نے نوآبادیاتی دور میں سامنے آنے والے کمیونل سوال اور اسی طرح سے خود مسلمانوں میں فرقہ واریت کو شیخ احمد سرہندی اور اورنگ زیب عالمگیر سے جوڑ کر دیکھا اور اسی تنگ دائرے میں رہ کر اپنے خیالات پیش کیے –
جبکہ صلح کلیت کے پیش رو ہندوستان میں اگر کوئی تھے تو وہ اولین عرب تاجر مسلمان اور اموی حکومت کے جبر کا شکار ہوکر ہندوستان آنے والے جلاوطن یا مہاجرین تھے –
جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام کے نام پر پروٹو کمیونل ازم، پروٹو فرقہ پرست، کٹھ ملائیت، ملک گیری اور تبدیلی مذھب یا برصغیر ہند میں زبردستی (اس میں لالچ، مفادات، حکمرانوں سے گٹھ جوڑ سب ہی عناصر شامل ہیں) مذھبی کایا کلپ کو متعارف کرانے کے پیش رو کوئی بنتے ہیں تو وہ بنوامیہ کے حکمران تھے جو ہوس ملک گیری، لوٹ مار کے لیے (مال غنیمت) اور اپنے سیاسی مخالفین کے برصغیر ہند میں اجتماع کو ایک بلقوہ خطرے (پوٹینشل تھریٹ) کے طور پر رکھ کر واقعہ کربلاء کے بعد سے ہند پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنارہے تھے –
وہ غلبہ اسلام کی سامراجی تعبیر کیا کرتے تھے جسے اقبال نے عرب سامراجیت کا نام بھی دیا ہے- اور اسلام کے دفاعی پہلو کے معنی لیے تصور جنگ کو جہاد اسلامی کا نام دے رہے تھے –
اسی لیے امویوں کی مکران، بلوچستان، سندھ کو فتح کرنے کی ناکام فوجی مہمات اور پھر حجاج بن یوسف کے سندھ کے خلاف ایک نئے فوجی منصوبے کا مقصد اسی طرز کا پیش خیمہ تھا-
یہ برصغیر ہند میں پہلے سے موجود اسلام کی روایت سے یکسر ہٹ کر اسلام اور مسلمانوں کا وہ چہرہ متعارف کرانے کا مرحلہ تھا جس سے مسلمانوں اور مقامی آبادی کے درمیان ابتک صلح کلیت کا جو رشتہ تھا اُس میں بڑا رخنہ ڈالنے والا تھا –
کم از کم سندھ کی حد تک جہاں پر مقامی آبادی اور مقامی حکومتیں مسلمانوں کو پُرامن گروہ خیال کرتی تھیں اُس خیال کو ریورس کرنے کی کوشش تھا-
لیکن 712ء میں محمد بن قاسم کی سرکردگی میں ہونے والا عرب اموی حملے کے خلاف صلح کلیت کی مزاحمت نے برصغیر ہند کی مقامی کمپوزٹ کلچر کی روایت کو مرنے نہ دیا –
عرب ہوں، ترک ہوں، منگول ہوں، افغان حکمرانوں کے زیر اثر عربی اور فارسی تواریخ ہوں ان سب نے سندھ سمیت برصغیر ہند کے دیگر علاقوں پر مختلف اقوام کی طرف سے ہونے والے حملوں کو اسلام کی کفر اور شرک پر فتح سے تعبیر کیا اور مقامی حکمرانوں اور اُن کا ساتھ دینے والوں کو اخلاق باختہ ثابت کرنے کی کوشش کی –
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ، توزک بابری، ہمایوں نامہ، آئین اکبری، توزک جہانگیری وغیرہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مغلوں نے ہندوستان میں اپنا اقتدار مقامی طاقتور قبائل کی مدد سے مضبوط کیا اور چند ایک کو چھوڑ کر سب کے سب نے زبردستی ٹرانفارمیشن کی کوشش نہیں کی –
نوآبادیاتی دور نے ماقبل نوآبادیاتی دور کی تاریخ کی تشکیل نو کی جس کا ایک جزو اسلام اور مسلمانوں بارے دوسری مذھبی برادریوں کو بدیشی ہونے کا تصور پختہ کیا بلکہ خود مسلمانوں کے اندر بھی غیر ملکی اور اس سرزمین کو مفتوحہ سمجھنے کی ترغیب دی – اور وہ تعلق جو عرب تاجر مسلمانوں اور عرب ملوکیت کے منحرفین کی آمد سے پیدا ہوا تھا اور اس کا اثر تھا جس نے حملہ آوری، قبضہ گیری کو پیچھے کیا اور صلح کلیت کو عوام میں مقبول کیا –
نوآبادیاتی دور میں ماقبل نوآبادیاتی دور کی کچھ مذھبی شخصیات کو نوآبادیاتی زمان و مکان میں رکھ کر اُن کی شخصیت، اور اُن کے حکومت اور سماج پر اثر کو بہت بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا –
جیسے شیخ احمد سرہندی ہیں انھیں نہ صرف اصلاح پسندوں اور احیاء پسندوں نے چاہے وہ ان کے ممدوح مسلمان اصلاح پسند یا احیاء پسند ہوں یا اُن کے مخالف بنکر سامنے آنے والے سیکولر، لبرل اور بائیں بازو کے لوگ ہوں یا ان کو لیکر پوری مسلم برادری کو اس کے سارے تنوع کو ختم کرکے انھیں بن قاسم، شہاب الدین غوری، محمود غزنوی کے ساتھ جوڑ کر انھیں بدیشی سمجھنے والے ہندؤ فرقہ پرست ہوں یہ سب کے سب شیخ احمد سرہندی کو نوآبادیاتی دور میں کمیونل ایشو سے بننے والی فضا میں رکھ کر دیکھتے ہیں – اور تو اور مسلمانوں کے اندر فرقہ پرست بھی شیخ احمد سرہندی کو نوآبادیاتی دور میں پیدا ہونے والی فرقہ واریت کے زمرے میں رکھ کر دیکھتے ہیں –
حالانکہ شیخ احمد سرہندی کا سُنی – شیعہ فرقہ پرستانہ تناظر میں جو رسالہ ہے وہ اُن کا کم عمری میں لکھا ایک رسالہ تھا اور اُس کے بعد اُن کے صوفیانہ باطنی سفر میں اولین دور کی فرقہ پرستی بہت کہیں دور رہ گئی تھی – اُن کے ہاں شطیحات /حالت جذب و سُکر میں صوفی کے منہ سے نکلے کلمات بے بہا ہیں اور اُن پر جہانگیر کے زمانے میں کافی لے دے ہوئی – اُن کی وفات کے بعد علمائے اورنگ آباد نے متفقہ طور پر اُن کے مکتوبات کی درجنوں عبارات کو یہاں تک کہ بلاسفیمی کے زمرے میں گردانا- حالانکہ انھوں نے اپنے باطنی سفر میں ان عبارات کو اپنا کشف کہا تھا ناکہ اُس کو بطور تعبیر و تاویل کے پیش کیا تھا –
شیخ احمد سرہندی کو "صلح کلیت” کا سب سے بڑا مخالف اور علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ مقدمہ تشکیل دیا کہ وہ برصغیر ہند میں مسلم قومیت اور مسلمانوں اور ہندؤں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ تہذیب و ثقافت کے مالک بتانے والے پہلے شخص تھے –
کمپوزٹ کلچر کا انھیں دشمن بناکر پیش کیا گیا- اور یہ بھی کہنے کی کوشش کی گئی کہ انھوں نے اکبربادشاہ کے مفروضہ ‘دین اللہی’ کے پروجیکٹ کو ناکام بنایا –
اس معاملے میں فرائیڈ مین یوحنان نے شیخ احمد سرہندی کے حالات زندگی اور راہ تصوف میں اُن کے ارتقائی سفر اور مکتوبات کی کرانیکل اسٹڈی سے ہمیں یہ باور کرایا کہ شیخ احمد سرہندی کی شخصیت اور ان کے نظری فکری رجحانات اور اُن کا سلوک کے راستے میں سفر اور اُن کے معاصرین کی روش کیسے انھیں نوآبادیاتی دور میں قائم ہونے والے اُن کے امیج سے کس قدر مختلف تھی اور اُن کا اثر کہیں محدود تھا جتنا بڑا پھیلاکر اسے نوآبادیاتی دور میں پیش کیا گیا –
اورنگ زیب عالمگیر جسے شیخ احمد سرہندی کا بہت بڑا معتقد بناکر پیش کیا گیا تھا اُس نے شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات کی ترسیل و اشاعت پر پابندی لگائی اور وہ بھی بلاسفیمی کا الزام دے کر –
صلح کلیت کی جڑیں محض اکبر کے مختصر سے دور میں اکبر کے دربار سے وابستہ اشرافیہ کے ایک بڑے سکیشن میں. قبول دکھائی گئی اور اُن میں بھی بہت ساروں کو شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات سے دوبارہ راہ راست پر آنے کی کہانیاں گھڑ کر واپس آتے دکھایا گیا –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر