حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمدللہ عمران خان صحت یاب ہوگئے، ڈاکٹروں نے بھی سیاسی سرگرمیوں کے لئے گرین سگنل دے دیا ہے۔ صحت یابی کے بعد پہلے دن انہوں نے اپنا جو تازہ کلام سنایا اس میں ارشاد ہوا، ” میں بات کرنے کو تیار ہوں لیکن اب کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا تو میں کیا کروں۔ لگتا ہے آرمی چیف مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ ہی نہیں کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔ میری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں۔ جنہوں نے میری حفاظت کرنی ہے ان سے ہی جان کو خطرہ ہے۔ روس کے خلاف تقریر کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا ابھی فیصلہ کرلیا تو قتل عام ہوجائے گا۔ جہاز سے اسلام آباد اس لئے نہیں گیا کہ ’’وہ‘‘ مجھے گرفتار کرکے بلوچستان لے جانا چاہتے تھے” ایک مصرعے میں یہ بھی کہا کہ "جنرل باجوہ نے میرے پیٹ میں چھرا گھونپا۔ یہ بھی کہا کہ گھٹنے نہیں ٹیکوں گا” ۔
فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹرز نے خان صاحب کے مشورے سے صحت یابی کا اعلان کیا اور خان صاحب نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے متاثر ہوکر۔ لگتا ہے کہ صدر مملکت نے بھی اپنی جماعت کے سربراہ کو ” کچھ ” بتاسمجھادیا ہے۔ کیا بتایا سمجھایا ہے اس بارے فقیر راحموں کے پاس دو تین خبریں ہیں لیکن اس سے پوچھنے کا فائدہ کوئی نہیں۔
ویسے حالیہ کلام سے لگتا ہے کہ ان تک پانچ کے ٹولے کی ایک پرانی ملاقات میں دیا گیا پیغام پہنچادیا گیا ہے کس نے کیا پیغام پہنچایا سانوں کی۔ بہرحال "شاعرِ امت” کے تازہ کلام پر فقیر راحموں کا جوابی شعر ہے۔
’’نی ٹرکاں والے ٹُر جان گے، لبھدے فیرو گے انصاف تسیں‘‘۔
ٹرکوں کا کیا چکر ہے اسے چھوڑیں آپ خان کے تازہ کلام سے لطف لیجئے۔ انقلاب اور تبدیلی کے راستے میں ہاتھوں سے گرائی چٹانیں انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے ہٹانے کا ارادہ کرلیاہے ۔
دو تین باتیں البتہ سمجھنا چاہتا ہوں بابر اعوان کہتے ہیں ایک غیرملکی ایجنسی عمران خان کو قتل کرنا چاہتی ہے۔ فواد چودھری کے بقول حملے کی منصوبہ بندی ہوچکی۔ اعوان کے بقول سنائپر خودکش حملے میں نشانہ بنانے کی سازش ہورہی ہے۔ خان خود کہتے ہیں جنہیں حفاظت کرنی ہے ان سے ہی جان کا خطرہ ہے۔ یہ تین باتیں ہیں۔
پہلی یہ کہ غیرملکی ایجنسی دوسری سنائپر خودکش حملہ، تیسری محافظوں سے یہ جان کو خطرہ۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ کسی تاخیر کے بغیر ایک جے آئی ٹی بناکر سپریم کورٹ سے نگران جج مقرر کروائے اور تحقیقات کروالے ماضی میں بھی نگران جج لگانے کا تجربہ تو ہوا ہی تھا ۔
یہ خالصتاً بددیانتی اور غیرذمہ داری ہوئی کہ جس عظیم شخصیت نے ایران و سعودی عرب وغیرہ وغیرہ کے ساتھ امریکہ چین اختلافات کو طے کرانا ہو اسے بے یارومددگار چھوڑدیا جائے۔ ایسی صورتحال میں تو بالکل بھی نہیں چھوڑنا چاہیے جب فیض و کرم کے سلسلے بھی بند ہوچکے ہوں۔
خان صاحب کے تازہ کلام میں بتایا گیا کہ جنرل باجوہ نے ان کے پیٹ میں چھرا گھونپا لیکن وزیرآباد والے مبینہ حملے میں تو ان کی ٹانگ ’’زخمی‘‘ ہوئی تھی۔ ان کے چند مخالف کہتے پھرتے ہیں کہ وہ اصل میں پلستر سے 126دن کے دھرنے کا ریکارڈ توڑنا چاہتے تھے۔
دھرنے کے خاتمے کے لئے سہولت کاری راحیل شریف نے کروائی تھی اور پلستر اتروانے کے لئے؟ ارے نہ بھئی جو "وہ” لوگ کہتے ہیں ہم نہیں لکھ سکتے کون پیشیاں بھگتتا پھرے۔ آجکل تو ڈن ہل خریدتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، و کیل کو فیس کہاں سے ادا کریں گے۔
یہ جنرل باجوہ کے کورٹ مارشل والا آپشن بطور وزیراعظم انہوں نے استعمال کرنے سے خود کیوں گریز کیا۔ اچھا ویسے وہ کسی دن وزیراعظم ہائوس میں اپنی آخری نصف شب کا پورا قصہ بھی سنادیں تو بہت سوں کا بھلا ہوجائے گا۔
ہم باجوہ کے کورٹ مارشل کے مطالبہ پر بات کررہے تھے۔ یہاں پھر ایک سوال ہے وہ یہ کہ یہ کارروائی 2018ء کے الیکشن مینجمنٹ سے کیوں نہ شروع کی جائے۔ فقیر راحموں تو اکتوبر 2011ء سے کارروائی کا آغاز کرنے کو کہتا ہے لیکن اس کی بات سنی ان سنی کردیتے ہیں۔
خان صاحب نے چند دن قبل ایک امریکی وفد سے بھی ملاقات کی ہے۔ امریکی سفیر سے تو قیام بنی گالہ کے دوران ہی دو ملاقاتیں پھڑکاچکے تھے۔ ان کی ہمشیرہ علیمہ خان ان کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے آج کل امریکہ کے دورہ پر ہیں اور سینئر حکومتی حکام اور پارلیمانی نمائندوں سے ملاقاتیں کررہی ہیں۔
اس پر یاد آیا کہ وہ پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ اپوزیشن والوں کا غیرملکی سفارتی حکام سے ملنا صریحاً غلط ہے اپوزیشن اور امریکی حکام کی ملاقاتوں پر وہ کہا کرتے تھے سازشی ٹولہ آقا سے ہدایات لینے جاتا ہے۔
موروثی سیاست کے وہ بدترین مخالف ہیں اس لئے اپنی ہمشیرہ کو خصوصی ایلچی بناکر امریکہ بھیجا ہے۔ یہ کام وہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے بھی لے سکتے تھے لیکن خیر چھوڑیں مخدوم ابھی تازہ تازہ جیل سے رہا ہوئے ہیں چند دن وہ اپنی دیرینہ بیماری کا علاج کروالیں ان کی سیاست اور ہماری باتیں تو چلتی رہیں گی۔
کالم یہاں تک پہنچا تو فقیر راحموں نے ایک بار پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا، یار شاہ تم ہر وقت عمران خان کے پیچھے پڑے رہتے ہوں۔ وہ کل پرسوں جو تمہاری محبوب پیپلزپارٹی کی اتحادی مسلم لیگ (ن) والی مریم نواز نے اپنا تازہ کلام سنایا ہے کچھ اس پر بولو لکھو ہر وقت ایک ہی پارٹی اور شخص کے خلاف لکھنا صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔
بات فقیر راحموں کی پھینکنے والی نہیں۔ مریم نواز کا پھٹے توڑ کلام بھی دلچسپ ہے۔ گوجرانوالہ میں انہوں نے جو کلام سنایا اس پر (ن) لیگی سر دھن رہے ہیں۔ ہمارے ایک لیگی دوست کہہ رہے تھے ’’ویکھیا فیر بائو جی دی کڑی نے خان تے سہولت کاراں نال کنج ستھری کیتی اے‘‘۔
مریم کے تازہ کلام کے چند نمونے بھی حاضر ہیں۔ وہ کہتی ہیں "عدالتی فیصلہ آتے ہی ٹانگ کا پلستر اتر گیا۔ عمران انجام کو پہنچ چکا۔ سہولت کار بتائیں وہ اب کیوں حمایت کررہے ہیں۔ امریکی سازش کا رونا رونے والا اب امریکیوں کے پائوں پکڑ رہا ہے” ۔
کہتی ہیں "میں سہولت کاروں کے نام لیتی ہوں تو میرے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے لگ جاتے ہیں” ۔
ان کے کلام کا ایک مصرعہ میں اس کے باوجود یہاں نقل نہیں کرسکتا کہ اخبارات نے اس مصرعے کو صفحہ اول پر شائع کیا ہے۔ ایک بات ہے خان جس معیار کی سیاسی گفتگو کرتاہے اسے اسی معیارمیں جواب مریم نواز شریف ہی دے سکتی ہے۔ ویسے بہتر ہوگا کہ دونوں غیرسنجیدہ شُرلیوں کی بجائے سنجیدہ گفتگو کیا کریں اگر کرسکتے ہوں ۔
ویسے خدا لگتی بات ہے انسداد دہشت گردی کی اسلام آبادی عدالت کے جج صاحب نے گزشتہ روز جو کلام بھری عدالت میں سنایا وہ بھی داد کا حقدار ہے۔ انہوں نے ارشاد کیا
’’برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں، نام انصاف کا لیتے ہیں ساتھ غنڈے اور بدمعاش لے آتے ہیں کمرہ عدالت میں نعرے لگواتے ہیں ایک سال میں دو سال کی پیشیںاں لے لیں۔ میرے پاس جوڈیشل کمپلیکس حملہ کی تمام فوٹیج موجود ہیں۔ خود عدالت کا احترام نہیں کرتے اور مثالیں برطانیہ کی دیتے ہیں‘‘۔
معاف کیجئے گا یہ بات کدھر کی کدھر نکل گئی اس کا ذمہ دار صرف فقیر راحموں ہے۔ ہم صرف "شاعر امت” کے تازہ کلام پر بات آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب کو صحت یابی مبارک ہو۔ مبینہ قاتلانہ حملے میں گولیاں لگنے سے ان کی ٹانگ کی جو ہڈی ٹوٹ گئی تھی وہ 2014ء والے دھرنے کا ریکارڈ توڑ کر درست ہوگئی۔
ان کی جان کو خطرہ ہے تو ان کی حفاظت کے لئے مناسب انتظامات ہونے چاہئیں۔ خان صاحب بھارت، ترکی، امریکہ یا روس اور اسرائیل کسی بھی ملک سے حفاظتی عملہ منگوانا چاہتے ہیں تو حکومت تین قدم آگے بڑھ کر یہ عملہ منگوادے۔ وہ امت مسلمہ کی آخری امید ہیں۔ ہر فن مولا بھی ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، مغربی نظام ریاست مدینہ اور پرانے چوروں کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا نہ ہی نویں چوروں کو بُکل میں چھپانے کے ان کے تجربے کو کوئی مات دے سکتا ہے۔
انہوں نے کل بھی پی ڈی ایم حکومت کو چیلنج دیا ہے کہ وہ ان کی اور ان کی تیسری اہلیہ کی کرپشن کا ایک بھی ثبوت لاکر دیکھائے۔ حکومت کو چاہیے اس چیلنج کو فوری طور پر قبول کرلے اور ثبوت لائے ماننا نہ ماننا خان صاحب اور ان کے فین کلب کی مرضی ہے۔
پیارے قارئین کچھ اور سیاسی، مذہبی، قوم پرست اور پپلے شعراء کا کلام بھی ہے لیکن یہ پھر کسی وقت آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ فی الوقت یہ سن پڑھ لیجئے کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اگلے روز پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے لاہور میں واقع مرکزی دفتر مخدوم ہائوس کا دورہ کیا۔ اس موقع پر مخدوم احمد محمود گیلانی اور ان کے چند سینئر ملازمین بھی موجود تھے۔ امید ہے کہ بلاول نے جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کریا کرم کے انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر