مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتب خانے تو خیر کبھی بھی مکمل نہیں ہوتے۔ ان میں زندگی برقرار رکھنے کے لیے نئی کتابوں کی آمد برقرار رکھنا پڑتی ہے۔ لیکن پھر بھی، کچھ نام ایسے ہیں جن کے بغیر کتب خانہ ادھورا رہتا ہے۔ سعادت حسن منٹو ایسا ہی نام ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ میں نے کتب خانے والے گروپ میں منٹو کی کوئی کتاب پہلے اپ لوڈ نہیں کی۔ اردو کی سو بہترین کتابوں کے فولڈر میں منٹو کے افسانے شامل تھے۔ لیکن ابھی تک الگ سے کوئی فولڈر نہیں بنایا تھا۔ یہ کام باقی تھا۔ چند دن پہلے منٹو کے آخری حیات دوست جناب ابوالحسن نغمی کا انتقال ہوا تو اس کام کا دوبارہ خیال آیا۔ آج ایک فولڈر میں منٹو کے افسانوں، خاکوں، ڈراموں اور ترجموں کی کتابیں جمع کردی ہیں۔ منٹو کی تحریروں کے چند انتخاب بھی، کئی رسالوں کے منٹو نمبر بھی اور نقادوں کی منٹو پر کتابیں بھی۔ سب ملاکر 69 کتابیں ہیں۔
ان میں ربی سنکر بال کے ناول دوزخ نامہ کا ترجمہ بھی شامل ہے جو ہمارے بھائی انعام ندیم نے کیا ہے۔ معلوم نہیں وہ اس حرکت پر کتنے خفا ہوں گے۔ یہ ناول اس لیے شامل کیا ہے اس میں غالب اور منٹو دوزخ میں مکالمہ کررہے ہیں۔
میں نے منٹو کے افسانے بعد میں پڑھے، پہلے خاکوں کی کتاب گنجے فرشتے ہاتھ لگی تھی۔ پھر لاوڈ اسپیکر، جس میں دیوان سنگھ مفتون کا خاکہ تھا۔ منٹو صاحب اگر صحافی بن جاتے تو کمال کردیتے۔ خوشحالی پھر بھی نصیب نہ ہوتی لیکن زندگی بڑھ جاتی۔ پھر خاکے زیادہ لکھتے۔ شراب کم پیتے۔ رات دو ڈھائی بجے کاپی بھیجنے کے بعد شراب پینے کا زیادہ وقت نہ ملتا۔
میں نے سرمد کھوسٹ کی فلم منٹو کے پریمئر پر ایک تحریر لکھی تھی۔ کئی سال ہوگئے۔ آج منٹو کی کتابوں کے ساتھ وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔
منٹو سے میں اکثر چوری چُھپے ملتا رہتا ہوں۔ کبھی گھر کے صحن میں۔ کبھی مطالعے کے کمرے میں۔ کبھی ڈرائنگ روم میں۔ لیکن میں اُسے اپنی خواب گاہ سے دُور رکھتا ہوں۔ وہ خود بھی شرفا کے بیڈروم میں داخل ہونا پسند نہیں کرتا۔ وہ صرف تماش بینوں اور رنڈیوں کی خلوتوں میں جھانکتا ہے۔
معذرت چاہتا ہوں، میں نے کچھ بُرے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ میں اِن بُرے الفاظ کے متبادل نہیں ڈھونڈ سکا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ رنڈی کے لیے کون سا ایسا لفظ استعمال کروں کہ وہ باکردار نظر آئے۔
میں یہ بتارہا تھا کہ میرے سرہانے ٹھیلوں پر سب سے زیادہ بِکنے والی کتاب سہاگ کی پہلی رات پڑی رہتی ہے۔ تکیے کے نیچے پلے بوائے کا پرانا شمارہ دبا رہتا ہے۔ بستر کی چادر کے نیچے کاماسترا کے چھپن آسن باتصویر چُھپی رہتی ہے۔ لیکن خوش ونت سنگھ کی آپ بیتی کی طرح منٹو کی کتابیں بھی میں تالے میں بند رکھتا ہوں۔
میں کیا، پوری قوم کا یہی حال ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنھیں ننگے پن سے کوئی پریشانی نہیں، ننگا سچ بولنے والوں سے پریشانی ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ منٹو فحش نگار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ منہ پھٹ ہے۔
یہ مجھے منٹو کے خاکے پڑھ کر سمجھ آیا کہ منہ پھٹ اُسے کہتے ہیں جس کا منہ کُھلے اور مخاطب کا کچھ نہ کچھ پھٹ جائے۔
تو جب مجھے پتا چلا کہ منٹو سے اپنے گھر کے بجائے سینما گھر میں ملاقات ممکن ہے تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔
میں منٹو سے ملنے تنہا نہیں جانا چاہتا تھا اِس لیے میں نے دو دوستوں کو ساتھ چلنے پر راضی کیا۔ ایک محمد جنید، جو روزانہ میری لکھی ہوئی ہیڈلائن پڑھتا ہے۔ دوسرا واحد، جو روز میری لکھی ہوئی کہانی پڑھتا ہے۔ کبھی کبھی تو میری کہانی کے اندر بھی گھس جاتا ہے۔
منٹو ہمیں سینما کے دروازے پر ہی مل گیا۔ میں نے کہا، ’’منٹو! تم نے ہمیشہ دوسروں کو تماشا بنایا تھا۔ دیکھو، آج تم تماشا بن گئے ہو۔ یہ رہا تمھارے نام کا ٹکٹ۔‘‘
منٹو کی آنکھوں میں خون اُتر آٰیا۔ کہنے لگا، ’’بابو گوپی ناتھ کی قسم، اگر مجھ سے قلم چھین نہ لیا گیا ہوتا تو تمھارا سر مونڈ کے گنجے فرشتوں میں شامل کردیتا۔ یا اپنے قلم سے تمھاری حسرتوں کا ناڑا کاٹ کر رال ٹپکاتا افسانہ لکھتا۔‘‘
میں نے مضحکہ اڑایا، ’’منٹو! تم تو صرف رنڈیوں اور کنجروں کی کہانیاں لکھتے تھے ناں؟‘‘
منٹو نے کہا، ’’ہاں لیکن یاد کرو، میں نے کہا تھا کہ صحافت ادب کا کنجر خانہ ہے۔ تم اُسی کوٹھے پر روز دھمال ڈالتے ہو ناں؟‘‘
شو شروع ہونے والا تھا اِس لیے میں اُسے منہ چڑا کے اپنی نشست پر جابیٹھا۔ منٹو بھی اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ چند منٹ بعد معاشرے کی برائیوں سے پردہ اٹھانے والا منٹو سینما کے پردے پر نمودار ہوا۔
میرا خیال تھا کہ آج صرف منٹو سے ملاقات ہوگی۔ لیکن وہ اکیلا نہیں آیا تھا۔
منٹو کے ساتھ سوگندھی بھی تھی۔ وہی سوگندھی، جس کی سہیلی نے کہا تھا، ’’نیچے سے اِن بمب کے گولوں کو باندھ کے رکھا کر۔ انگیا پہنا کرے گی تو اِن کی سختائی ٹھیک رہے گی۔‘‘
منٹو کے ساتھ ایشر سنگھ بھی تھا۔ وہی ایشر سنگھ جس نے کلونت کور کو بتایا تھا کہ اُس نے پتے پھینٹنے کے بجائے جلدی سے اِکّا پھینکا تو کیا ہوا۔ جسے وہ میوہ سمجھا، وہ ٹھنڈا گوشت تھا۔
منٹو کے ساتھ سراج الدین بھی تھا۔ وہی سراج الدین جو فسادات میں کھوئی ہوئی اپنی بیٹی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ اور جب وہ ادھ موئی لڑکی ملی تو اُس کا حال دو لفظوں میں یوں پتا چلا کہ ڈاکٹر نے کھڑکی کی طرف اشارہ کرکے کہا، ’’کھول دو‘‘ اور لڑکی نے اپنا کمربند کھول دیا۔
منٹو کے ساتھ بشن سنگھ بھی تھا۔ وہی بشن سنگھ جو بات بات پر کہتا تھا، ’’اوپڑ دی گڑگڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ!‘‘
ہاں، منٹو اکیلا نہیں تھا۔ اُس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے۔ اُس کے ساتھ بہت سے کردار تھے۔ بہت سے کردار نبھانے والی نور جہاں بھی تھی۔ لیکن چار افراد ایسے تھے جن سے میں آنکھیں چار نہیں کرسکا۔ ایک منٹو کی بیوی صفیہ اور تین اُس کی ننھی بیٹیاں۔
خود پر فلم بننے کی خوشی میں منٹو نے ڈیڑھ گھنٹے میں اِتنی شراب پی کہ بیالیس تنتالیس سال کی زندگی میں نہیں پی ہوگی۔ اور خون کی اِتنی الٹیاں کیں کہ جتنی شراب نہیں پی ہوگی۔
مجھے خون کی الٹیوں پر سخت اعتراض ہے۔ منٹو نہیں، اُس کا قلم الٹیاں کرتا تھا۔ اُس کے اپنے منہ سے خون نہیں، آگ نکلتی تھی۔
فلم کے آخر میں منٹو کو مرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مجھے اِس پر بھی سخت اعتراض ہے۔ شاید پروڈیوسر کو فلم ختم کرنے کا کوئی اور بہانہ نہیں سوجھا۔
منٹو زندہ ہے اُن کرداروں کے ساتھ، جن کے افسانے اُس نے لکھے ہیں۔ منٹو زندہ ہے اُن گنجے فرشتوں کے ساتھ، جن کے خاکے اُس نے اڑائے ہیں۔ منٹو زندہ ہے اُن تحریروں میں، جنھیں پڑھ کر میں نے اور ہزاروں دوسرے لوگوں نے کہانی لکھنا سیکھی۔
کون بھڑوا کہتا ہے کہ منٹو مرگیا؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر