نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست نے ہمیں کیا دیا؟۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سفر حیات کا 65واں سال ہے لیکن آج اس سفر کی داستان سنانا مقصود نہیں۔ اس انوکھے سوال پر بات کرنے کو جی چاہتا ہے جو کم از کم میں نصف صدی سے سنتا آرہا ہوں۔ اس سوال سے آپ کا بھی واسطہ پڑتا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ

’’آپ نے ریاست کو کیا دیا؟‘‘ یہ سوال عموماً حُب البرتنی کے مریض اس وقت اچھالتے ہیں جب ہم اور آپ استحصالی نظام اور طبقاتی خلیج پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ملک میں انصاف ہے نہ مساوات، جمہور کو حق حکمرانی حاصل ہے نہ ہی جمہوری اقدار پروان چڑھ پائیں۔

اعلانیہ بجٹ کے علاوہ بھی بھاری بھرکم رقم دفاع کے نام پر خرچ ہوتی ہے عام شہری کو صلاحیت کے مطابق اس کا حق نہیں ملتا۔ ریاست آخر تجربے کیوں کرتی رہتی ہے۔

یہ اور اسی طرح کی دوسری باتیں مثلاً میڈیا عوامی شعور بیدار کرنے کی بجائے طویل عرصہ تک ریاستی بھونپو رہا اب کمرشل ازم کے زیراثر مختلف شخصیات اور جماعتوں کی میڈیا مینجمنٹ کرتا ہے۔

آپ یہ سب کہہ کر دیکھ لیجئے، فوراً منہ پھاڑ کے کہا جائے گا، بہت کرلی تنقید اچھا یہ بتائو تم نے اس ملک کو کیا دیا؟

ارے بندگان خدا !

کیا کیا نہیں دیا اس ملک کو ماچس تک کی خریداری پر تو ٹیکس دیتے ہیں ۔ افغان جہادی پالیسیوں اور امریکہ نوازی میں ڈالر جرنیلوں اور جہادی تاجروں نے کمائے بچے اس ملک کے لوگوں کے مرے اور وہ بھی دو طرح سے اولاً جہادی تجارت کا رزق بن کر ثانیاً پالے پوسے گئے لشکروں کی دہشت گردی میں۔

چار مارشل لاء لگے۔ ساجھے کی حکومتیں الگ، آخر یہ سب کیا ہے۔ کیوں 75برسوں سے یہ ملک سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ بٹوارے کی نفرت نسل در نسل منتقل کرتے چلے جانے کا فائدہ کیا ہوا؟

اس عرصے میں اعلانیہ و غیراعلانیہ جتنی رقم دفاع کے نام پر خرچ ہوئی اس سے ڈی ایچ ایز اور عسکری ون ٹو تھری جیسی جدید بستیاں تو ضرور پھلی پھولیں عام آدمی کو کیا ملا؟

ستم یہ ہے کہ دفاعی پنشن سول بجٹ کا حصہ ہے۔ مشرف دور میں یہ ظلم کمایا گیا۔

اس وقت سوال اٹھایا گیا اگر دفاعی پنشن کو سول بجٹ کا حصہ بنانا ہے تو دفاعی بجٹ میں کٹوتی کیجئے۔ تب انجمن محبان جی ایچ کیو والے جان کو آگئے تھے ۔ ویسے ان میں سے زیادہ تر آجکل خود اپنے خالقوں اور پرانے مالکوں پر گرج برس رہے ہیں لیکن ہمیں اور آپ کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔

ہمارا دکھ یہ ہے کہ ہمارے قائدین بنے پھرتے لوگ پورا کیا آدھا یا چوتھائی سچ بھی نہیں بولتے۔ مثلاً کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوسکتے ہیں مگر بی ایل ایف وغیرہ سے نہیں۔ کسی دن ٹھنڈے دل سے غور کیجئے گا۔ کالعدم ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں نے علاقے میں تھانیداری کے شوق سے جنم لیا تھا ۔ بی ایل ایف وغیرہ نے محرومیوں کی کوکھ سے۔

بی ایل ایف کی کارروائیوں سے مجھے اتفاق نہیں لیکن اس کی بنیاد میں جو محرومیاں ہیں انہیں دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں کب ہوئیں؟

بات دور نکل گئی۔ اصل سوال یہ ہے کہ ماچس تک کی خریداری پر ٹیکس دینے والی رعایا کو ریاست نے کیا دیا؟ ریاست نے جو دیا اس کا حساب کرنے بیٹھیں تو چاند ماری شروع ہوجائے گی۔

وہ تو شکر ہے کہ ان دنوں عاشقانِ ریاست نئی ” محبتوں ” کے اسیر ہیں اور خود ریاست کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ورنہ دو لفظوں پر تکابوٹی کرنے پہنچ جاتے تھے۔

کسی دن ریاست حساب تو کرے کہ اس کی دشمن دار گھسی پٹی پالیسی نے کیا دیا اور افغان پالیسی نے کیا، لیکن حساب کرنے کا فائدہ کوئی نہیں ریاست نے کون سا اپنی اصلاح پر توجہ دینی ہے۔

بنیادی طور پر یہ کام سیاسی جاعتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے کیا کیا؟ کچھ نہ کچھ کیا ضرور مگر ان جماعتوں نے اپنے منشور کے مطابق جمہوریت کی بالادستی اور استحصال کے خاتمے کے حوالے سے ذمہ داری کیوں نہ پوری کی؟ ہم اور آپ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو آڑے ہاتھوں لے لیتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں لیکن اس اصل استحصالی طبقے بارے بات نہیں کرتے جسے پالتے پوستے ہماری کئی نسلیں کھیت ہوئیں۔

اس ملک میں جب بھی طبقاتی جمہوریت کے خلاف عوامی اجماع ہونے کے لئے فضا بنی ریاست نے ایک نیا تجربہ کرکے اس کی راہ کھوٹی کی۔

سیاسی جماعتیں اور قائدین غلطیوں سے مبرا نہیں مگر کیا سکیورٹی سٹیٹ کو جمہوری ریاست میں تبدیل کرنا ان کی ذمہ داری نہیں تھی۔ آج جو مسائل ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا صرف سیاسی جماعتیں؟

معاف کیجئے گا بالکل نہیں بہت زیادہ بھی کہہ لیں تو سیاسی جماعتیں 100میں سے 20فیصد ذمہ دار ہیں 80فیصد ذمہ داری دشمن داری اور بالادستی کی شوقین ریاست پر ہے۔

اسی لئے یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ یہ سوال ہی غلط ہے کہ ’’ہم نے ریاست کو کیا دیا ؟

سوال یہ ہے کہ ریاست نے ہمیں کیا دیا؟

یہ بھوک ننگ، طبقاتی خلیج، شدت پسندی، عدم برداشت یہ سارے تحفے ریاست نے دیئے۔ وہ لوگ جو ہمیں سوویت یونین کے تنکوں کی طرح بکھر جانے کی داستانیں سنایا کرتے تھے اب بھی تو یہ کہیں نہ کہ دشمن دار ریاست بھلے ایٹمی طاقت ہی کیوں نہ ہو اگر ا نصاف اور مساوات قائم نہیں کرپاتی تو تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہی ہم نصف صدی سے روتے آرہے ہیں۔ چپڑاسی تک کی ملازمت تو فروخت ہوتی ہے۔

کس ملک میں قانون ساز اداروں کے منتخب ممبران کو ترقیاتی بجٹ ملتا ہے؟ دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور بااختیار بنانے کا رواج ہے شہری ترقی اور سماجی بھلائی کے امور بلدیاتی اداروں کو ہی انجام دینا ہوتے ہیں۔

یہاں ایم این اے اور ایم پی اے نالیوں گٹروں اور گلیوں کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھتے ہیں اور افتتاح کرتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں بلدیاتی ادارے نہیں ’’بننے‘‘ دیتیں۔ نتیجتاً ایک ایسی مخلوق مسلط ہوجاتی ہے جو خدمت خلق سے زیادہ ساجھے داری کو زندگی کی حقیقت سمجھتی ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر واقعتاً اصلاح احوال کے لئے ’’کوئی‘‘ سنجیدہ ہے تو اس دشمن داری والی سوچ سے ہی نہیں علاقائی بالادستی کے شوق سے بھی نجات حاصل کرنا ہوگی۔ یہ اس طور ممکن ہے جب منتخب ادارے حقیقی کردار ادا کریں۔ پالیسیاں منتخب اداروں میں بنائی جائیں۔

انگریزوں کے گھوڑی پال مربعوں کی طرح ’’لشکر‘‘ پال سکیم کے شوق سے نجات حاصل کی جائے۔ طبقاتی خلیج کو کم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔ دو طرح کے پاکستان نہیں ہونے چاہئیں ایک میں ٹیکسوں کی بھرمار اور دوسرے میں ٹیکسوں کی رعایت۔

آبادی میں ہوتے خوفناک اضافے پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ’’پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو‘‘ کو گالی سمجھنے کی بجائے اس میں موجود کرب کو سمجھنا ہوگا۔ ’’امت‘‘ میں دھڑادھڑ اضافہ کرتے جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سوچنا ہوگا کہ ایک آدمی کے لئے موجود وسائل پر تین آدمی کیسے پل سکتے ہیں

ہمہ قسم کے تجربات کے شوق سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ لشکر پال سکیم والوں کے خلاف اس ملک کی بربادی کا مقدمہ چلانا ہوگا۔ دستور میں جو شہری، معاشی، سیاسی اور مذہبی حقوق درج ہیں وہ بلاچوں چراں فراہم کرنے کی پالیسی وضع کرنا ہوگی۔ بات پھر وہی ہے جہاں سے تحریر کا آغاز ہوا تھا، ہم سے یا کسی سے یہ کوئی نہ پوچھے کہ تم نے ملک کو کیا دیا۔

ہمیں یہ بتایا جائے کہ ملک نے ہمیں کیا دیا۔ ہمیں یہ بتایا جائے کہ اس ملک کا ایک عام شہری ایک لاکھ پچاس ہزار روپے فی کس کے حساب سے جو مقروض ہے، اس قرضے کا کتنا حصہ اس پر خرچ ہوا، کتنا دفاع اور اللوں تللوں پر؟

ہمیں بتایا جائے کہ ریاست نے تجربات کے شوق میں پچھلی دو نسلوں سمیت ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی زندگی اجیرن کرنے کا سامان کیوں کیا۔

انصاف طبقاتی بنیادوں پر کیوں ملتا ہے۔ مقدمہ کی اگلی پیشی کے لئے ریڈر کی مٹھی گرم کیوں کرنا پڑتی ہے۔ نظام تعلیم تک تو طبقاتی ہے بلکہ اب تو تین عشروں سے تعلیم تجارت بن چکی۔ سوالات اور بھی ہیں کچھ تلخ بھی گو کہ ان کا فائدہ کوئی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جواب دینے کی بجائے کالے ویگو ڈالے بیج دیئے جاتے ہیں۔

پھر بھی یہی عرض کروں گا سوال کیجئے، اس سے قبل کہ آپ سوال بن جائیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ یہ ملک بائیس تئیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے یہی اس کے حقیقی مالک ہیں ان پر اتنا ہی بوجھ ڈالیں جتنا اٹھاسکیں۔

یہ ملک صرف اور صرف جمہوریت پر قائم رہ سکتا ہے۔ عادلانہ نظام اور مساوات پر۔ سقوط مشرقی پاکستان جیسے المیوں کو دعوت نہ دیجئے۔ ہر سطح اور ہر شعبہ سے طبقاتی امتیازات ختم کرنا ہوں گے۔

قابل کاشت اراضی پر ہائوسنگ سکیمیں بنانے والوں کو سمجھنا ہوگا اجناس میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اور یہ کہ ملک ہم سے ہے ہم اس ملک سے نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author