مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آوازوں کی کھڑکیاں|یاسر جواد

پیچھے قریب ہی بنچ پر بیٹھے دو آدمیوں میں سے ایک نے اونچی آواز میں میرا نام پکارا۔ یاد کی کھڑکی میں اندھیرا تھا۔ پہچان نہ پایا، لیکن مروتاً کہا کہ ابھی ریکارڈنگ کے بعد آتا ہوں تو بیٹھتے ہیں۔

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب بیس بائیس سالہ نوجوان جب اخبار میں نوکری کرتے تھے تو بہت غریب تھے۔ بعد میں کچھ ایک دوست بھی بن گئے۔ پانچ روپے کا پٹرول ڈلواتے، کھانا کھلانے کی ذمہ داری اُس پر ہوتی جس کے پاس بیس تیس روپے نکل آتے۔ ایسے میں ایک نیم گنجا سب ایڈیٹر بھی کبھی کبھی نظر آ جاتا تھا۔ سانولا رنگ، اُڑتے ہوئے رنگ والی نسواری پینٹ، سہمی ہوئی شخصیت۔
پچیس سال پرانی کھڑکی چند روز پہلے کھلی جب ایکسپریس کے دفتر میں ریکارڈنگ کے لیے وقار احمد نے بلایا۔ میں راہداری میں تھا تو ایک دوست کا پوچھا جو وہاں شفٹ انچارج تھا۔ وقار نے کسی لڑکے کو کہا کہ فلاں کو پیغام دے دے کہ یاسر جواد آیا ہے۔ پیچھے قریب ہی بنچ پر بیٹھے دو آدمیوں میں سے ایک نے اونچی آواز میں میرا نام پکارا۔ یاد کی کھڑکی میں اندھیرا تھا۔ پہچان نہ پایا، لیکن مروتاً کہا کہ ابھی ریکارڈنگ کے بعد آتا ہوں تو بیٹھتے ہیں۔
ریکارڈنگ ہو گئی، باہر آیا، جس دوست کو پیغام بھجوایا تھا وہ ملنے آ گیا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ ابھی کسی نے آواز دی تھی، اُس کا حلیہ یہ تھا، وہ کون ہے؟ اُس نے بتایا، ’’خلیل مغل۔‘‘ پتا کروانے پر پتا چلا کہ وہ اب دفتر میں نہیں ہے۔ ملاقات نہ ہو سکی۔
آج اُس کی وفات ہو گئی ہے۔ آوازیں ایسی جگہوں سے کھڑکیاں کھولتی ہیں جہاں ان کی موجودگی کا ہمیں علم ہی نہیں ہوتا۔
وفات ناموں میں RiP اور اس کے دیگر متبادل کیا لکھنا۔ یاد کا ٹیگ کافی ہے
نجد میں مجنوں نے کانٹے بوئے ہیں
خیمۂ لیلیٰ کہاں اِستاد ہو
لوک رِیت کے مطابق اگر کسی کے گھر کے پاس یا صحن میں سیہہ کے کانٹے پھینک دیے جائیں یا زمین میں دبا دیے جائیں تو وہاں ہر وقت جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ میرے گھر کی دیوار کے ساتھ سیہہ کے بہت سے کانٹے تین چار دن سے پڑے ہیں۔ پچھلے پلاٹ میں ایک سیہہ رہتی ہے۔ لگتا ہے کسی نے اُسے مار ڈالا ہے اور اسی کشمکش میں یہ کانٹے بکھر گئے۔
الحمد للہ کوئی فساد نہیں ہوا ابھی تک گھر میں۔ اگر آپ لوک رِیت پر یقین رکھتے ہوں تو ہر جگہ پر مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ نظرِ بد، بددعا، بچے کو کنگھی سے مارنا، کالی بلی، وغیرہ سب ہمارے ’’کلچر‘‘ کا حصہ ہیں۔ کلچر ہمیشہ ہی قابلِ فخر نہیں ہوتا۔ بلکہ کلچر کا زیادہ تر حصہ مکروہ اور فرسودہ ہوتا ہے جسے کوشش کر کے اپنے اندر سے کھرچنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: