نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمال احسانی سے محبت ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال احسانی سے محبت کی میرے پاس کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جون ایلیا کے مجاز تھے۔ یعنی جس طرح جوش صاحب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے مجاز لکھنوی کو خراب کیا، جون صاحب پر جمال احسانی کو خراب کرنے کا الزام رہا۔ جوش اور جون نے شراب پی۔ مجاز اور جمال کو شراب نے پیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بڑے شعرا اپنے دلداروں کو شراب کے ساتھ آب خضر بھی پلاتے ہیں۔ پھر یہ خسارے کا سودا نہ ہوا۔
جمال احسانی جون صاحب کی پرچھائیں بن کر ان کے ساتھ رہے لیکن شاعری اپنی کی۔ وسعت اللہ خان کے الفاظ میں آج کل کے نوجوانوں کی طرح جونیے نہ ہوئے۔
دوسری وجہ جمال احسانی سے قلبی تعلق کی یہ بنی کہ وہ سسپنس ڈائجسٹ کے ایڈیٹر رہے۔ بعدازاں میں نے بھی کچھ عرصہ اس ادارے میں کام کیا لیکن ان کے جانے کے بعد۔ سسپنس کے بعد انھوں نے اپنا ڈائجسٹ رازدار کے نام سے نکالا۔ وہ چند شماروں کے بعد بند ہوگیا۔ اگر جمال صاحب کی طبیعت میں قرار اور سرمایہ میسر ہوتا تو اس ڈائجسٹ کا شمار سب رنگ کے بعد ہوا کرتا۔ میں نے بہت سال رازدار کے پرچے سنبھال کر رکھے لیکن افسوس کہ بار بار گھر اور شہر اور ملک بدلنے میں کھو بیٹھا۔ کاش کہیں سے مل سکیں۔
تیسرا سبب جمال احسانی کا پرستار ہونے کا سب سے اہم ہے، یعنی ان کی شاعری۔ پتا نہیں انھوں نے نظم کہی یا نہیں۔ میں نے نہیں پڑھی۔ شاید انھوں نے صرف غزلیں ہی کہی ہیں۔ جدیدیے کہیں گے کہ غزل پرانی ہوئی۔ محبت، ہجر، وصال، چراغ، رات، شراب، یاد، بیمار، دوا جیسی باتیں کب تک کی جائیں گی۔ لیکن یہی غزل کی خوبی ہے۔ یہی جمال احسانی کی خوبی ہے۔ بظاہر مضامین پرانے ہیں لیکن لہجہ منفرد ہے۔ سب سے اچھی بات کہ ان کے مطلعے جاندار ہیں،
ایک قدم خشکی پر ہے اور دوسرا پانی میں
ساری عمر بسر کردی ہے نقل مکانی میں
جہاں بدلنے کا وہ بھی گمان رکھتے ہیں
جو گھر کے نقشے میں پہلے دکان رکھتے ہیں
اک قرض ہے اتار رہے ہیں کسی طرح
اس عمر کو گزار رہے ہیں کسی طرح
گھر بھی عزیز شوق بھی دل میں سفر کا ہے
یہ روگ ایک پل کا نہیں عمر بھر کا ہے
کل رات میں شکست ستم گر سے خوش ہوا
وہ رو پڑا تو دل مرا اندر سے خوش ہوا
تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے
ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے
قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا
وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا
جمال اب تو یہی رہ گیا پتا اس کا
بھلی سی شکل تھی اچھا سا نام تھا اس کا
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
رہنا نہیں اگرچہ گوارا زمین پر
لیکن اک آدمی ہے ہمارا زمین پر
مدتوں بعد شب ماہ اسے دیکھا تھا
پر کسی اور کے ہمراہ اسے دیکھا تھا
خدا نے خوش مجھے اوقات سے زیادہ کیا
کہ ہاتھ تنگ رکھا اور دل کشادہ کیا
نہ حال پوچھتا ہے اور نہ کام پوچھتا ہے
یہ عشق اپنے مریضوں کا نام پوچھتا ہے
اے شاہ حسن عرض ہے یہ احترام سے
اتنا گریز اچھا نہیں ہے غلام سے
کسی کا حل کسی کا مسئلہ ہے
محبت اپنا اپنا تجربہ ہے
جمال احسانی کے کئی شعر بہت مشہور ہوئے اور لکھنے پڑھنے والوں نے کہیں نہ کہیں سنے ہوں گے،
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
آگاہ میں چراغ جلاتے ہی ہوگیا
دنیا مرے حساب سے بڑھ کر خراب ہے
کمال اس نے کیا اور میں نے حد کردی
کہ خود بدل گیا اس کی نظر بدلنے تک
یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
کچھ تو مشکل ہے بہت کار محبت اور کچھ
یار لوگوں سے مشقت نہیں کی جاسکتی
جمال احسانی کو ایک ایسا کمال حاصل تھا جو بہت سے شعرا کو نصیب نہیں ہوتا۔ یعنی شعر میں تصویر دکھانے کا کمال۔ دوسرے شاعر جو قصہ پوری نظم میں نہیں سنا پاتے، وہ جمال احسانی کے دو مصروں میں آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے،
اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
سحر تک کوئی آیا نہ ساتھ کے گھر میں
برآمدے میں کوئی رات بھر ٹہلتا رہا
اسی مقام پر کل مجھ کو دیکھ کر تنہا
بہت اداس ہوئے پھول بیچنے والے
ہاتھ ہوا میں لہرائے
گاڑی جانے والی ہے
مائیں دروازوں پر ہیں
بارش ہونے والی ہے
میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا
رزق کا ڈر رفو گروں کو ہوا
اس نے زخموں کی جب سلائی کی
چھو کے بھاگی تھی اس کو باد نسیم
میں نے گلشن میں جا لڑائی کی
جمال احسانی کے ان شعروں کی تعریف دوسرے شعرا اور نقاد بھی کیے بغیر نہ رہ سکے،
یہ ہجر کون جانے یہ بات کون سمجھے
میں اپنے گھر میں خوش ہوں وہ اپنے گھر میں خوش ہے
منہ اندھیرے نظر آتے ہیں جو کچھ لوگ یہاں
یہ سحر خیز ہیں یا رات کے جاگے ہوئے ہیں
میری باتیں اوروں سے وہ کرتا پھرتا ہے
میری ڈاک ہے لیکن میرے نام نہیں آتی
ہونٹوں سے ہونٹ مل گئے دل سے ملا نہ دل
یہ بات بھول جاؤ اگر گھر چلانا ہے
بچھڑا تو اک جہان تعلق اجڑ گیا
جس جس سے رابطے تھے اسی کے سبب سے تھے
اگر پڑجائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا
اب کسی آنکھ کا جادو نہیں چلتا مجھ پر
وہ نظر بھول گئی ہے مجھے پتھر کرکے
اس قدر عیش محبت پہ نہ ہو خوش کہ تجھے
دوسرے عشق میں نقصان اٹھانا پڑ جائے
یوں نہ ہو بول پڑوں میں تری خاموشی پر
اور تجھے بزم سے مہمان اٹھانا پڑ جائے
خود اس سے تعلق ہی کوئی جب نہیں رکھا
پھر میں نے بھی اس شخص سے مطلب نہیں رکھا
کچھ باپ کا سایہ بھی بہت جلد اٹھا تھا
کچھ گردش دوراں نے مہذب نہیں رکھا
نہ وہ حسین نہ میں خوب رو مگر اک ساتھ
ہمیں جو دیکھ لے وہ دیکھتا ہی رہ جائے
جو آئے پوچھتا ہے عمر میری
عجب تیمار داری ہورہی ہے
جمال احسانی رند بلانوش تھے لیکن اندر کہیں ایک نعت گو بھی چھپا ہوا تھا جو بہت کم سامنے آیا۔ ان کی نعت کے ایک مصرع میں پچھتر سال کا المیہ چھپا ہے،
ویسے تو ہر زمانے کو حاجت ہے آپ کی
پر ان دنوں زیادہ ضرورت ہے آپ کی
اپنی طرف سے چھوڑی نہیں ہم نے کچھ کسر
یہ ملک چل رہا ہے تو رحمت ہے آپ کی
میں نے شروع میں عرض کیا کہ جمال احسانی جون صاحب کے ساتھ رہے۔ انھوں نے ایک غزل بھی جون صاحب کی نذر کی،
خدا سے ہیں بہت مایوس ہم لوگ
اب اس سے آگے کوئی راستہ نئیں
کوئی تو بات اس کم رو میں ہوگی
یونہی یہ شہر دیوانہ ہوا نئیں
لوگ بعد میں جون صاحب کے دیوانے ہوئے۔ جمال احسانی اولین لوگوں میں سے ہوں گے۔ بے شک ان کی شاعری کا رنگ اور لہجہ ان کا اپنا ہے لیکن جون صاحب کے اثر سے بھلا وہ کیسے بچتے۔ ان کی ایک غزل ایسی ہے کہ جون صاحب سے نسبت نہ ہوتی تو نہ کہہ پاتے۔ بلکہ میں نے سیکڑوں شیعہ شعرا کو پڑھا ہے، ایسے انوکھے مضمون نظر نہیں آتے،
ہجوم دل فگاراں کا عجب عالم کیا اس نے
کل اک بزم عزاداراں میں جب ماتم کیا اس نے
سپرد آب کرنے سے ذرا پہلے کا قصہ ہے
خود اپنے اشکوں سے میرا عریضہ نم کیا اس نے
دوست جانتے ہیں کہ میں کتابوں پر ادیبوں شاعروں کے دستخط لیتا پھرتا ہوں۔ جو لوگ پہلے گزر گئے یا جن سے ملاقات نہیں ہوئی، ان کی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر خریدیں اور قیمتی دستخط پائے۔ لیکن جمال احسانی کے دستخط کہیں نہیں ملتے تھے۔
ایک دن شکیل عادل زادہ صاحب نے طلب فرمایا۔ جنگ کراچی کی گلی میں پریس چیمبرز نام کی بلڈنگ میں سب رنگ مرحوم کا دفتر تھا۔ ڈائجسٹ ختم ہوچکا تھا لیکن اس دفتر میں ہر ہفتے شکیل صاحب کے محبوں کی محفل جمتی تھی۔ میں بھی آخر آخر میں وہاں شریک ہونے والے گنے چنے لوگوں میں شامل تھا۔ شکیل صاحب نے طلب کیا تو دفتر قریب ہی تھا۔ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ دفتر بلکہ پوری عمارت کسی نے خرید لی ہے۔ دفتر خالی کرنا ہے جہاں سیکڑوں کتابیں اور رسالے موجود ہیں۔ شکیل صاحب نے کہا، میاں تم کتابیں جمع کرتے ہو۔ جتنی کتابیں اٹھانی ہیں، آج اٹھالو، باقی دوسرے لوگ لے جائیں گے یا لائبریری کو چلی جائیں گی۔ پہلے میرے ہاتھ پاؤں پھولے، اور پھر کتابیں اٹھا اٹھاکر اور زینے چڑھ اتر کے سانس پھولا۔ جو کچھ لاد کے اپنی گاڑی تک لے جاسکتا تھا، لے گیا۔
اس ذخیرے میں جمال احسانی کی کئی ذاتی کتابیں ملیں جن پر انھوں نے اپنا نام لکھا ہوا تھا۔ اس دن میں مور کی طرح ناچا۔
آج میں نے جمال احسانی کی کلیات کتب خانے میں اپ لوڈ کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author