۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادی رائے کا اظہار آپ کی جان بھی لے سکتا ہے قارئین کی قوت برداشت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اپنی رائے کا اظہار کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ، البتہ اگر اپنےشعور کے مطابق کھلم کھلا اپنی رائے کا اظہار کرنے کی کوشش کی جائے تو ممکن ہے کہ نہ صرف آپ کی آواز کو دبا دیا جائے بلکہ عین ممکن ہے کہ آپ کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دبا دیا جائے گا لہذاموقع و ماحول کی مناسبت سے رائے کا اظہار کرنے والے حضرات جانی و مالی طور پر شریفوں کے شر سے محفوظ رہتے ہیں ۔
ملک خداداد پاکستان جو کہ جمہوری ملک کے نام سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے ، لیکن جمہوریت جمہورا کی شکل میں نظر آتی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ جمہورا کی شکل آپ پسند ہو یا نہیں ، اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں نہ ہی ہوگی۔پاکستان کے جھنڈے پر سفید توں نمایاں انداز میں دکھائی دیتا ہے لیکن آج بھی اقلیتوں کو بنیادی حقوق صرف کاغذوں میں دئیے جا رہے ،چولستان میں زمینوں کی الارٹمنٹ کی کہانی روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔شدت پسند سوچ کے حامل افراد عبادت گاہوں کو منہدم کرکے لوڈ اسپیکرز پر امن و آشتی کا درس دیتے ہوئے ملیں گے۔
صحافت کو ملک کا چوتھا ستون آج بھی اخباروں کی شہ سرخیوں میں تصور کیاجاتا ہے ، لیکن آج تک مجھے نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ باقی تین ستون کون سے ہیں ؟عالیہ و عظمیٰ سے میرا تو کبھی واسطہ نہیں پڑا البتہ جن کا واسطہ رہا ہے انکا کہنا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے انگریز کی زد میں تھے اوراب انگریزی کی زد میں ہیں ۔
اخبارات کے پیڈ کالم نگار ، اگر ادارہ ہذا کی پالیسی کےبرعکس حقائق پر مبنی کوئی تحریر لکھتے ہیں تو انہیں یہ ڈر رہتا ہے کہ شاید وظیفہ بند نہ کر دیا جائے ،وظیفہ خور وں سے حقائق کی امید رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔مجھ جیسے سیاہ فام کی تحریریں ، پاکستان کے مایہ ناز اخبار ات کا پیٹ بھرنے کی بجائے ،ردی کی ٹوکری کی زینت بن جاتی ہیں۔
اسی طرح نیوز چینلز کے اینکر حضرات بھی سکرپٹ سے ہٹ کر اگر کوئی ایک لائن بھی ایڈ کرتے ہیں تو انہیں نہ صرف آف ائیر کر دیا جاتا ہے بلکہ کوئی بھی ادارہ انہیں اپنانے کو تیار نہیں ، سوشل میڈیا کے دانشوروں کی اگر بات کی جائے تو سوشل میڈیا دانشور حضرات بھاری معاوضہ لے کر بَبانْگِ دُہل کہتے ہیں کہ دنیا میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ، ویوز کے چکر میں نوجوانوں کا برین واش کیا جا رہا ہے ، کتابوں کے ٹائٹلز دل کو چھو لینے والے لکھ دئیے جاتے ہیں ، زندگی بدل دینے والی کتاب صرف 800میں ، پڑھنے والے کی زندگی بدلے نہ بدلے لیکن ناشرو پبلشر کی قسمت یقینا بدل جاتی ہے ۔اگر کاتب قارئین کی خواہشات کوملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے تحریریں لکھنا شروع کر دیں تو یقین جانیئے کہ انکی کتابوں کی ویلو آج کے دور میں ایسے ہوگی جیسےآج دور جدید میں انگلش ڈکیشنری چھاپہ خانوں میں کوڑیوں کے دام باآسانی میسر آ جاتی ہے ۔
ماں کی گود کو پہلی درسگاہ تصور کیا جاتا ہے لیکن صد افسوس آج بھی جب بچہ رونے لگتا ہے تو ماں کی جانب سے اسے ڈرا یا دھمکیا جاتا ہے جس کے باعث ابتدائی دنوں سے ہی بچے کے دل و دماغ میں ڈر بیٹھ جاتا ہے اور وہی بچہ جب مسجد یا مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتا ہے تو انہیں اللہ تعالیٰ کا تعارف رحمان و رحیم کی بجائے ، جبار و قہار کے نام سے کروایا جاتا ہے ، اسلام کوامن و آشتی ، حسن و خلق کی بجائے ڈرسے پھیلایا جارہاہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے محبت کی بجائے ڈر کو مد نظر رکھتے ہوئے مساجد میں سر باسجود دکھائی دیتا ہے لیکن ذہنی طور عبادت کے لیے آمادگی نہ ہونے کی وجہ سے قیاس ذہنوں میں گردش کرتے نظر آتے ہیں ،مساجد میں اجتماعی نماز کی ادائیگی کے لیے جانے کا اگر کبھی اتفاق ہو جائے تو اول صف میں ہمیشہ آپ کو ہی لو گ نظر آئیں جو کہ معاشرے میں ناسور تصور کیے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ پیش امام کی جانب سے کبھی انکے کالے کرتوتوں کے حوالے سے کوئی بات کی گئی ، بھلا وہ کیوں بات کریں کیونکہ انکے بھی وظیفے کے پیسے انہیں لوگوں کی جیبوں سے نکل کر آتے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی موقع و محل کی مناسبت سے بہتر ہے اور سچ بات عوام کو پہنچانے اور سمجھنے کے لیےقارئین کا حقائق کو جاننے کے لیے ذہنی طورپر آمادہ ہونا از حد ضروری ہے اگر قارئین ذہنی طور پر حقائق سے آشناں ہونا ہی نہیں چاہیتے تو انہیں کسی صورت بھی دلیل دے کر انہیں حقائق پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ سچ کو جھوٹ کے غلاف زیادہ عرصہ تک نہیں اڑے جاسکتے ہیں کیونکہ ہماری نوجوان نسل اب الحمداللہ ذہنی طور میچور ہو چکی ہے اور حقائق کی متلاشی ہے ۔
اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے حضرات خراج تحسین کے مستحق ہیں ، ہر دور حکومت میں حکمران طبقہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اقلیتوں کے تہواروں میں شامل ہو ا جائے اور انہیں احسان محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔ البتہ چولستان کے حوالے سے جو بات میں ابتداء میں کر چکا ہوں وہی بات دوبارہ دوہرانا چاہوں گا کہ چولستان کے رہائشیوں کا بنیادی حق ہے کہ انہیں زمینیں الاٹ کی جائے نہ کہ اپر پنجاب کے لوگوں کو الاٹ منٹ کرکے نیا فساد برپا کیا جائے ۔
یقینا صحافت ملک کا چوتھا ستون ہے ، البتہ آئے روز آزادی صحافت پر ہونے والے حملے قابل مذمت ہیں حکومت وقت کو چاہئیے کہ صحافیوں کو جانی و مالی تحفظ فراہم کیا جائے ۔تاکہ اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں ۔ارشد شریف قتل کیس سمیت ایسے تمام صحافیوں اور سوشل ایکٹیویسٹ حضرات کے کیسسز کو فلفور حل کیا جائےجو کسی بھی وجہ سے التوا کا شکار ہیں ۔ تاکہ عام شہریوں کو دیئے جانے والا تاثر برقرار رکھا جا سکے کہ آئین و قانون سے بالا تر کوئی نہیں ۔البتہ سرکاری دفتر میں پاکستان کی قومی زبا ن کو بھی رائج کرنے کے حوالے سے عملی اقدامات کیے جائیں ۔
نام نہاد کالم نگار حضرات کو چاہیئے کہ کسی بھی ادارے کو جوائن کرنےسے پہلے اس ادارے کے ساتھ کھل کر معاملات طے کیے جائیں کہ کالم نگارکا ادارہ ہذا کی پالیسی کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہ ہوگا ، تاکہ عوام کو حقائق پہنچانے میں انہیں کسی قسم کی روکاٹ پیش نہ آئے ۔البتہ اداریہ کے صفحہ پر ظاہری طورلکھ دیا جاتا ہے کہ (کالم نگار کا ادارہ ہذا کی پالیسی کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں)نئے لکھاری حضرات کو بھی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ نوجوان حضرات بھی اپنی صلاحتیوں میں نکھار پیدا کرسکیں اور ملک و قوم کا نام روشن کر سکیں ۔
سوشل میڈیا کے دانشوروں کو بھی چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے کوئی ایسا میکانیرم تیار کیا جائے کہ نوجوان نسل کی مثبت انداز میں تربیت کی جا سکے۔ابتدائی درس گاہوں میں نوجوانوں کی بہتر انداز میں اگرتربیت کی جائے تو اس سے مثبت نتائج مرتب ہونگےاور وہی نوجوان کل ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کر سکیں گے ۔ یقینا مہذہب معاشروں میں لوگوں کو آزادی رائے کا حق حاصل ہوتا ہے اور خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار بھی انہی ملکوںمیں ہوتا ہے جہاں لوگوں کو آزادی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے ، البتہ ایک مخصوص شدت پسند سوچ کے حامل طبقہ کو اجتماعی حیثیت میں تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی