نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قرارداد مقاصد سے ففتھ جنریشن وار تک۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ففتھ جنریشن وار تو ابھی کل کی بات ہے سوشل میڈیا اور خصوصاً ٹیوٹر پر اس ’’وار‘‘ کی آتما جیسے وقاص گورائیہ نے رولی اس پر تو ففتھ جنریشن وار والے بھا غفور کے بھی دانتوں کو پسینہ آگیا تھا۔

مجاہدین ففتھ جنریشن وار کے غول تھے سوشل میڈیا پر دندناتے، گالم گلوچ کے نذرانے پیش کرتے پھرتے تھے۔ عمران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔ دونوں پر تنقید شرک سے بھی بڑا جرم قرار دے دیا گیا۔

خود عمران خان نے ایک سے زائد بار کہا ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسے تیار کیا جیسے وہ پیغمبروں کو تیار کرتا ہے‘‘۔

وہ ریاست مدینہ کا اسلامی ٹچ بطور خاص استعمال کرتے بلکہ اب بھی کرتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار کے نام پر تیار ہوا لشکر آجکل اپنے ٹرینیز اور سابق مالکوں کا باغی ہے۔ وہ ان کی ’’مت‘‘ مارنے پر تلا ہوا ہے۔ عمران اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ بھاری بھرکم سرمایہ کاری سے تیار ہوا لشکر انہیں مفت میں میسر آگیا۔

اس وار کے ماسٹر مائنڈ وہی صاحب تھے جنہوں نے کابل کے ایک ہوٹل میں چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑ کر تصویر بنوائی پھر دو اطلاعاتی محکموں نے یہ تصویر اہتمام کے ساتھ ذرائع ابلاغ کو اشاعت کے لئے دی۔ یہ تصویر پاکستان کو کتنی مہنگی پڑی اس کا حساب یقیناً کوئی آزاد منش مورخ ضرور لکھے گا۔

دعا کیجئے اگر میں اگلے برس اس ملک سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگیا تو جتنا حساب معلوم ہے وہ ضرور لکھوں گا۔

اس جملہ معترضہ کے لئے معذرت ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ففتھ جنریشن وار کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ ایک سادہ سوال ہے بالکل جلیبی کی طرح سیدھا بھی اور سادہ بھی۔

ہم بات کہاں سے شروع کریں۔ بٹوارے کے پہلے دن سے جناح صاحب کے سانحہ ارتحال، لیاقت علی خان کی رضامندی سے منظور ہوئی قرارداد مقاصد سے جس نے اس ملک کو مذہبی ریاست کا تقدس دیا۔

مشرقی پاکستان کا بوجھ اتار پھینکنے کی ’’واردات‘‘ سے۔ بھٹو کے خلاف بنوائے گئے پاکستان قومی اتحاد سے۔ بھٹو کی پھانسی، فوجی حکومت کی متنازعہ قانون سازی سے جو بدقسمتی سے آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنادی گئی۔

ہم اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام سے بات کرسکتے ہیں۔ اس کے میڈیا سیل پر جو ماڈل ٹائون میں جناب نوازشریف کی اقامت گاہ پر قائم تھا اسلام پسند صحافیوں کے ساتھ آئی ایس پی آر کے تبیت یافتہ گوریلے بھی جلوہ افروز ہوتے تھے۔

یہ وہی مشہورِ زمانہ میڈیا سیل ہے جس کی سربراہی حسین حقانی نے کی۔ حسین حقانی کا تازہ تعارف یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد والے دور میں پاکستان کے امریکہ میں سفیر تھے اسی دور میں ان کی ایک اہلیہ فرح اصفہانی پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی۔

حسین حقانی کا خمیر اسلامی جمعیت طلبہ سے اٹھا وہ جمعیت کے امیدوار کے طور پر کراچی یونیورسٹی کی طلباء یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ آئی جے آئی کے میڈیا سیل کے سربراہ بنے۔ کچھ عرصہ وفاقی سیکرٹری اطلاعات رہے۔ سری لنکا میں سفیر بھی۔

1988ء سے 1999ء کے درمیان پیپلزپارٹی اور میاں نوازشریف کی دو دو حکومتیں کرپشن کے الزامات پر رخصت (برطرف) کی گئیں۔ ان چار حکومتوں کی برطرفی کی بنیاد بننے والی کرپشن کہانیاں ایجنسیوں کی فائلوں کا رزق تھیں۔

1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ قبضہ کیوں کیا تھا؟ اس سوال کا جواب تفصیلی سے جاننا چاہتے ہیں تو سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس والا فیصلہ پڑھ لیجئے۔

میرے سامنے تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ اس کے مطابق امریکہ بہادر دوبارہ افغانستان میں قدم رنجہ فرمانے کی تیاریوں میں تھا اس لئے ضروری تھا کہ پاکستان سے سول حکومت کو چلتا کرکے ون مین شو قائم کیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف اس ون مین شو کے مرکزی کردار تھے۔

ان کے دور اقتدار میں درجنوں دھانسو تحقیقاتی صحافی تخلیق ہوئے۔ کارندے ، سیاستدانوں کی کرپشن کہانیاں لے کر پھرتے تھے۔ یہ بالکل ویسا منظر تھا جیسے لاہور کے اردو بازار میں دن بھر کتابیں مرتب کرالو کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

عین اسی طرح جیسے ہمارے بچپن میں گلیوں سے آواز آیا کرتی تھی ’’منجھی پیڑھی ٹھکوالو‘‘۔ تمہید طویل ہوگئی۔

مختصراً یہ کہ 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد والا تجربہ بہت زیادہ پاور فل ثابت نہ ہوا گو پنجاب میں آئی جے آئی کی حکومت بنائی گئی لیکن تین صوبوں اور وفاق میں پیپلزپارٹی نے اتحادیوں کے ساتھ بعض شرائط مان کر حکومتیں بنالیں۔

آئی جے آئی بنانے والوں کو انتخابی نتائج سے بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے مستقلاً میڈیا مینجمنٹ سیل بنانے کا فیصلہ کیا۔ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کی چھتر چھایہ میں قائم اس میڈیا مینجمنٹ سیل نے دو کام کرنے تھے

ایک یہ کہ تحقیقاتی صحافیوں تک کرپشن کہانیاں پہنچانی تھیں ثانیاً حب الوطنی، نظریہ پاکستان اور اسلام کی محبتوں سے سرشار ایک نسل تیار کرنی تھی جو اٹھتے بیٹھتے جمہوریت، سیاستدانوں، عمرانی معاہدے (دستور) کو کوسے۔ قوم پرستی کی تحریکوں کو ’’را‘‘ کا ایڈونچر قرار دے۔ سیکولرازم کو مادر پدر آزادی۔

آپ سال 1988ء سے 1999ء کے درمیانی برسوں کے اخبارات کی فائلیں الٹ پلٹ کر دیکھ لیجئے۔ ہمارے بہت سارے مجاوران سول سپر میسی ان برسوں میں اسلام و نظریہ پاکستان اور حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کشتوں کے پشتے لگاتے دیکھائی دیں گے۔ اس عرصہ میں پی پی پی اور (ن) لیگ کے رہنمائوں کی کرپشن کہانیاں بیان کرنے والوں کے لئے عنایات کی برسات کہاں سے ہوتی تھی یہ کوئی قومی راز نہیں۔

اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف آگئے۔ باضابطہ مارشل لاء کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ عمومی تاثر یہ دیا گیا کہ ایک روشن خیال، لبرل مزاج محب وطن جرنیل نے اقتدار سنبھالا ہے۔

ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے نے ہمیں بتایا کہ اگر جنرل پرویز مشرف اقتدار نہ سنبھالتے تو ملک دیوالیہ ہونے والا تھا۔

ان کے دور میں ’’میڈیا مینجمنٹ سیل‘‘ بہت کھل کر کھیلا۔ جمہوری سیاست کو بدترین گالی بناکر پیش کیا گیا۔ پروپیگنڈے کی اس لہر بہر میں ’’جرنیلی جمہوریت‘‘ 2002ء کے انتخابات کے بعد کا دور شروع ہوا ۔

مشرف اٹھتے بیٹھتے ہمیں بتاتے تھے کہ بینظیر بھٹو اور نوازشریف ماضی کی کہانی ہوئے۔ ان کے دور میں ہی الیکٹرانک میڈیا لایا گیا۔ اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ چونکہ ٹی وی ہر گھر میں ہے لہٰذا ریاستی پروپیگنڈے کا زہر لوگوں کے دل و دماغ میں اتارنے میں آسانی رہے گی۔

یہاں ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ جنرل ضیاء سے جنرل پرویز مشرف کے دور تک ابھرنے والی نئی مڈل کلاس کی مذہب، پاکستان اور حب الوطنی کے حوالے سے بطور خاص ذہن سازی کی گئی۔ منہ ٹیڑھا کرکے جمہوریت کو کوستی یہ نسل صدارتی نظام اور گاہے اسلامی صدارتی نظام کے گیت گاتی الاپتی تھی۔

میڈیا مینجمنٹ اور مڈل کلاس دونوں وہ کامیابی حاصل نہ کرپائے جو ریاست کو ضرورت تھی۔ پھر ایک دیوتا تخلیق ہوا، پہلے اس کی جوانی کے قصے چٹخارے لے لے کر بیان ہوئے پھر توبہ کا دروازہ کھلا ہے والی متھ فروخت ہوئی۔

وہی متھ جو ہماری کتابوں میں چور سے قطب بننے کی روایات بیان کرتی ہے۔ آپ دوسرے مرحلہ میں پرنٹ میڈیا میں اکتوبر 1999ء سے 2007ء تک اور بعدازاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چلائی گئی یکساں کرپشن کہانیوں اور نجات دہندہ کی کردار سازی کا تجزیہ کیجئے۔

اسی ’’عرصہ‘‘ میں ہمارے یہاں سوشل میڈیا متعارف ہوا اس پر بھی ابتدا ہی سے مجاہدین ملک و ملت اور اسلام وغیرہ کا غلبہ رہا۔ یوں اگر ہم دیکھیں تو اسلام اور نظریہ پاکستان کےساتھ ناقابل تسخیر دفاع والی کہانیاں لگ بھگ 1948ء سے ہی شروع ہوگئی تھیں۔

آگے چل کر اس میں مزید آئٹم شامل ہوتے رہے۔ ایک منصوبے کے تحت ذہن سازی کی گئی کہ سیاستدان چور ہیں۔ جمہوریت آوارہ لوگوں کا شوق۔ اصل مقصد حیات اسلامی صدارتی نظام ہے۔ پاکستان صرف فوج کی وجہ سے بچا ہوا ہے ورنہ سیاستدان اسے بیچ کھاتے۔

درمیان میں کبھی کبھی ہمیں عراق، شام، لیبیا، لبنان والے ڈرائونے خواب بھی دیکھائے گئے۔ ہمارے پڑوسی اچھے نہیں ہیں یہ رام کہانی پہلے دن سے فروخت ہورہی تھی۔

اب جب اکتوبر 2011ء میں مختلف اقسام کے تیار شدہ لشکر تبدیلی کے نام پر میدان عمل میں اتارنے کا عمل شروع ہوا تو اس نئی لہر کو سیاسی عمل، جمہوریت وغیرہ کے لئے خطرہ قرار دینے والوں کا مکو ٹھپنے کے لئے ففتھ جنریشن وار کا لشکر بھی میدان میں اتارا گیا۔

تجربے اس سے قبل بھی ہوئے ان تجربوں پر بہت زیادہ لکھا گیا۔ یہ ففتھ جنریشن وار کا لشکر بھی ماضی کے لشکروں کی طرح اپنے مالکوں ٹرینیز اور سہولت کاروں کے گلے پڑگیا۔

اس لشکر کے مجاہدین کا خیال ہے جو ہمارے ساتھ نہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے

بہت ادب سے اس لشکر کی خدمت میں عرض ہے ابھی فلم شروع ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے محب وطنوں (بقول آپ کے) کا ایک گروپ ہر طرح سے تعاون کررہا تھا اور ہے۔

اس لئے ابھی سے فتوے دینے کی بجائے انتظار کیجئے اور اپنی ثابت قدمی بھی ثابت کیجئے۔

لیجئے کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہوئی باقی باتیں پھر سہی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author