مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان پیپلز پارٹی کی سالگرہ۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقسیم کے بعد بھی غریب کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ تعلیم، صحت، روزگار کے مسائل جوں کے توں رہے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک میں مارشل لاء اور آئے روز کی ڈکٹیٹر شپ نے اہل پاکستان کی خوشیاں مایوسی میں بدل دیں۔ لوگ مسائل کا حل چاہتے تھے اور غریب چاہتے تھے کہ کوئی ایسی قیادت آئے جو اُن کے دکھوں کی بات کرے۔ اسی اثناء میں ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ بھٹو شہید کے منشور کو دیکھ کر مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہوتے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بڑے بڑے جلسے کئے۔ غربت کے خاتمے کی بات کی۔ غریب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ ملک میں پائی جانیوالی پسماندگی اور غریب و امیر کے درمیان بڑھنے والے فرق کا ذکر کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے جلسے سمندر کی شکل اختیار کرتے گئے اور یہ بھی سچ ہے کہ غریب، کسان، مزدور پیپلز پارٹی کا حصہ بنے۔ سیاست محلات سے نکل کر گلی، محلے اور جھونپڑیوں میں آگئی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد ہی ایک خوبصورت تبدیلی تھی۔ پسے ہوئے ۔ کچلے ہوئے ،ننگے پاوں اور پھٹے ہوئے لباس والوں کو حوصلہ اور طاقت ملی۔ تاریخ میں پہلی بارپیپلزپارٹی کے جلسوں میں سرمایہ داری مردہ باد کے نعرے لگے۔ حالات کے تیور دیکھ کر جاگیردار اور سرمایہ دار بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے کے مطابق غربت تو ختم نہ ہوئی البتہ بھٹو کو ختم کر دیا گیا۔ اگر ہم نصف صدی پیچھے جائیں تو غریب امیر ایک محلے میںرہتے تھے جہاں زمینداراورجاگیردار کا محل تھا، غریبوں کی جھونپڑیاںبھی وہیں تھیں۔ مگر موجودہ سرمایہ داری نظام نے سب کچھ الٹ کر دیا ہے اب شہروں کے سرمایہ دار محلہ داری چھوڑ کر ایسے پوش علاقوں میں جا بسے ہیںجہاں کی رہائش کا غریب تصور بھی نہیںکر سکتا ۔دیہاتوں کے جاگیرداربھی شہروں کے پوش علاقوں میں چلے گئے اور غریبوں کی بستیوںسے الگ اپنے محلا ت اور ڈیرے بنا لئے۔ یہ تفاوت آئندہ کے لئے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ بھٹونے جو نظریہ دیا تھا اس کے بر عکس موجودہ قیادت الٹ چل رہی ہے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے صرف محلات نہیں بلکہ اندرون اور بیرون ملک سلطنتیں وجود میں آرہی ہیں۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا، مکان کانعرہ دیا تھا غریب کو نہ روٹی ملی نہ کپڑا نہ مکان البتہ بڑے شہروں میں بڑی بڑی ہائوسنگ سکیموں نے غریبوں اور امیروں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے جو کہ انسانی تباہی کہ مترادف ہے۔ جاگیردار سیاستدانوں نے بھٹو کے نظریے کو ناکام کیا۔ بھٹو کی پارٹی کی موجودہ قیادت کو بھٹو کے نظریات کی تکمیل کرنی چاہئے لیکن یہ بھی دیکھئے کہ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری ہمارے وسیب کے نواب زادہ نصراللہ خان کی طرح جوڑ توڑ کی سیاست آتی ہے حکومتیں بنوانے او رحکومتیں تڑوانے کے سارے گر آتے ہیںمگر ان کوغربت کے خاتمے کی طرف انہوں نے کبھی توجہ نہیںدی غربت کیا ہے؟غریبوں کی ضروریات کیا ہے، غریب آدمی کی مسائل کیا ہیں،آج کی مادہ پرستی کے دور میں ا نسان کن مشکلات کا شکا رہے؟ان مشکلا ت کا حل کیا ہے، انسانی اقدار کیا ہیں، انسانی ترقی کیا ہوتی ہے؟ان تمام باتوں کے بارے میں بھٹو کے آج کے جانشین کچھ نہیں جانتے۔ مجھے مستقبل میں حالات سنگین نظر آرہے ہیں۔ غربت اور عمارت کے درمیان پیدا ہونیوالے فرق کے خطرات کو کوئی نہیں سمجھ رہا۔ اگر ہم روس کے انقلاب کا مطالعہ کریں تو وہاں بھی اس طرح کا سرمایہ داری نظام پیدا ہو چکا تھا۔ جب روس میں انقلاب آرہا تھا تو یورپ میں بھی اسی طرح کا سرمایہ داری نظام تھا مگر یورپ نے خطرے کو بھانپ لیا اور یہ کیا کہ یورپ نے اپنی ریاستوں کو فلاحی ریاست میں تبدیل کیا اور عام آدمی کو تعلیم، صحت اور روزگار دینے کے فلاحی منصوبے بنائے۔ اسی بناء پر آج اُن ریاستوں کو فلاحی ریاستیں قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو بھی فلاحی ریاست بنانے کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے قائد کے نظریے اور پارٹی منشور کے مطابق عام آدمی کی بہتری اور بھلائی کیلئے اقدامات کرے۔ پیپلز پارٹی کی سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اجتماعات میں بھٹو کی قربانیوں کو دہرایا جا رہا ہے۔ 4 اپریل کو بھٹو کی برسی کے موقع پر کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت مضبوط اور مستحکم تھی۔ آج تو پاکستان کا وزیر خارجہ بھی نہیں، لیکن ہمارے دور میں بہترین خارجہ پالیسی کی بدولت چین کے ساتھ سی پیک منصوبے کے لیے آبرومندانہ مذاکرات ہوئے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے لائحہ عمل تیار ہوا، دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ پیپلز پارٹی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور دہشت گردی ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہیں جبکہ آج کی حکمران جماعت کا لائحہ عمل ہمیشہ اس کے برعکس رہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی کو کام نہ کرنے دیا گیا، میڈیا کی طرف سے یکطرفہ کردار کشی مہم شروع کی گئی، وہ عدلیہ جسے ہم نے بحال کیا اس نے پیپلز پارٹی کو آخری وقت تک سانس نہ لینے دیا۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ہمارے مخالفوں کے خلاف کبھی فیصلہ نہیں آیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹ کر سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے اور مجھے گھر بھیج دیا جاتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے حریف جتنا بڑا جرم کریں ان سے ڈیل کرکے ان کو باہر بھیج دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج آصف زرداری انہیں کے اتحادی ہیں جن کے بارے میں پیپلز پارٹی اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہی ہے اور جیالیوں کو یہ بات گولی کی طرح لگتی ہے۔ بھٹو کیلئے سرائیکی وسیب سب کچھ تھا مگر آج پیپلز پارٹی وسیب کو بھول چکی ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: