نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘: آزادی صحافت کی حقیقت؟ ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لائبریری سے باہر آڈیو لیکس کا موسم عروج پر ہے۔ چند دنوں بعد ویڈیو لیکس کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ موضوعات اور بھی ہیں مثلاً کامران ٹیسوری سندھ کے گورنر نامزد کردیئے گئے۔ ایم کیو ایم بہادر آباد نے گورنر کے منصب کے لئے جن رہنمائوں کے نام دیئے تھے ان میں محترمہ نسرین جلیل پہلی ترجیح تھیں۔

ان کے برادر خورد کا تعلق ایم کیوایم کے الطاف گروپ سے بتایا جارہا ہے صرف یہی نہیں راوی کے بقول خود محترمہ نسرین جلیل کے الطاف حسین سے ٹیلیفونک رابطوں کے ثبوت موجود ہیں۔ ’’باہمی مشاورت‘‘ سے کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ بنانے کا فیصلہ ہوا۔

اس باہمی مشاورت کے نتائج سے ڈاکٹر عشرت العباد یاد آگئے وہ جب گورنر بنائے گئے تھے ان پر بم دھماکوں سمیت متعدد مقدمات تھے۔ ان میں اہم ترین مقدمہ بغاوت کا تھا لیکن وہ 12 برس سے کچھ اوپر سندھ کے گورنر رہے۔ کامران ٹیسوری پر مقدمات ہیں تو کیا ہوا جسے پیا چاہے وہی ناچے آنگن میں۔

اسی آنگن میں جس کے مرکزی حصے میں جناب عمران خان پونے چار برس وزیراعظم رہے۔ اب وہ جو کہہ بول رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے زور بازو سے وزیراعظم ’’بنے‘‘ تھے۔

کامران ٹیسوری کو برداشت کیجئے۔ اس سے قبل عمران اسماعیل سندھ کے گورنر تھے تب بھی تو برداشت کیا تھا نا؟

لائبریری کے اندر آجکل مطالعہ کا موسم ہے پروفیسر آصف ظہوری ایم اے مطالعہ پاکستان کی کتاب ’’تاریخ تقسیم ہندوستان‘‘ پر ان سطور میں ’’نقدونظر‘‘ پر بہت سارے احباب ناراض ہوئے۔ طالب علم کی رائے اور تجزیہ کو اغلاط کی بھرمار قرار دیا۔ سقوط مشرقی پاکستان کا سارا ملبہ فوجی آمریت پر ڈالنے پر مُصر ہوئے۔ عرض کیا فوجی آمریت یقیناً ایک وجہ ہے لیکن بنیاد مقامیت اور بنگالی زبان کے انکار نے رکھی۔ اس سے آگے کی تلخ حقیقت عرض کرنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں وہ ہے غیر فطری تقسیم۔

اسی لئے تقسیم کو بٹوارہ کہتا لکھتا ہوں کہ بٹوارہ غیرفطری ہی ہوتا ہے۔ ہم اپنی درسی کتب، مطالعہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کی بھول بھلیوں میں جی رہی ہے۔ واہگہ کے اُس اور بھی یہی حالت ہے ۔ مودی کے ہندو توا اور آر ایس ایس پر اعتراضات اٹھانے والوں نے کبھی اپنے ہاں مسلم توا کی علمبردار شدت پسند تنظیموں پر بات کرنے کا حوصلہ نہیں کیا۔

ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے ہی نصاب تعلیم میں کبھی یہ بھی پڑھایا جاتا تھا کہ ’’پہلے ہندوستان ہمارا حصہ تھأ‘‘۔

خیر ہم آج کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ جناب خورشید کمال عزیز کی کتاب ’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘ زیرمطالعہ ہے۔ جھوٹ مکاری انحراف اور دولے شاہی کا اس سے شاندار پوسٹ مارٹم ممکن ہی نہیں۔ ضروری نہیں آپ مجھ طالب علم یا خورشید کمال عزیز سے اتفاق کریں۔

’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘ اپنے قارئین کو حاصل مطالعہ میں شریک کرنے کی شعوری خواہش کو رد کرنا طالب علم کے لئے ممکن نہیں۔

ہمیں پورا سچ تلاش کرنے کی جستجو کرتے رہنا چاہیے۔ کتاب پر بات کریں گے لیکن اس کالم میں، صاحب کتاب جناب خورشید کمال عزیز (کے کے عزیز) کے افکار عالیہ اور کچھ شکوئوں پر بات کرلیتے ہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ میں نے ’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘ درسی کتب کے جھوٹوں کو بے نقاب کرنے کے لئے اخباری کالموں میں جتنا کچھ لکھا اس پر توقع کرتا تھا کہ دیگر اخبارات کے کالم نویس اور بالخصوص اداریہ نویس صاحبان اس حساس اور اہم موضوع پر بات کو آگے بڑھائیں گے‘‘۔

ان کا دکھ بھرا شکوہ بجا طور پر درست ہے لیکن وہ اس امر کو مدنظر نہیں رکھ پائے کہ سکیورٹی سٹیٹ میں لکھنے پڑھنے کی بہت زیادہ آزادی نہیں ہوتی۔ جتنی ہو وہ زور بازو سے لینی پڑتی ہے۔

انگریزی اخبارات میں اظہار رائے کی آزادی اردو اخبارات و جرائد کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔ میں اسے بھی سکیورٹی سٹیٹ کی پالیسی کا حصہ سمجھتا ہوں۔

مالکان (سول و ملٹری اشرافیہ ویسے اصل میں ملٹری اشرافیہ ہی) یہ جانتے ہیں کہ انگریزی عالمگیر زبان ہے۔ انگریزی اخبارات و جرائد میں قدرے آزادی سے دنیا اور سفارتی حلقوں کے سامنے ہمارا اچھا تاثر جائے گا۔

خورشید کمال عزیز نے برسوں قبل انگریزی اخبار ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ لاہور میں اپنے سلسلہ وار مضامین میں درسی کتب کے جھوٹ جس طرح بے نقاب کئے اس طرح کا کڑوا سچ اردو اخبارات کے لئے ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔ اردو اخبارات

’’بندی خانے ‘‘ تھے اور ہیں۔

یہ ریاستی نظریہ سازی کی دکانیں، مذہبی قومیت، ناقابل تسخیر دفاعی نظام کے پرچارک بھی ، چند باتیں اور بھی ہیں لیکن وہ عرض کرنے سے ہم بھی پہلو بچالیتے ہیں یہی سلامتی اور روزی روٹی کی ضرورت ہے۔

صحافت کبھی نظریہ سازی شرف آدمیت، سماجی مساوات سے قارئین کو آگاہ کرنے کا ذریعہ ہوتی تھی مگر اب نہیں ہے۔ کب سے ؟ یہ سوال اور اس کا جواب دونوں گردن توڑ بخار جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں تو یہ لکھنے پڑھنے سے زیادہ صحافیوں کی روزی روٹی کے حقوق کے تحفظ کی بات ہوتی ہے۔

آزادی اظہار کا جو حقیقی مقصد نصف صدی کی قلم مزدوری کے سفر میں سمجھ سکا ہوں وہ مالکان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ دو اڑھائی درجن مثالیں نقد عرض کرسکتا ہوں لیکن فقط ایک بات سے تلخ حقیقت سمجھ لیجئے کارکن صحافیوں کی وہ ملک گیر تنظیم جسے کبھی جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے منظم تنظیم سمجھا جاتا تھا کیا ہوئی؟

پہلے پی ایف یو جے کے مقابلہ میں پریس کلبوں کو طاقتور بنوایا گیا جب یہ کام ہوچکا تو پھر پولیس کے ٹاوٹوں اور آئی بی کے مخبروں کو مسلط کیا گیا نتیجہ نصف درجن پی ایف یو جے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

معاف کیجئے بات کچھ دوسری طرف چلی گئی مگر یہ عرض کرنا ضروری تھا۔ خورشید کمال عزیز اداریہ نویسوں اور کالم نگاروں سے سب سے زیادہ شاکی ہوئے۔ بدقسمتی سے وہ نہیں جان پائے (تب جب وہ لکھ رہے تھے یا پھر اپنی انگریزی تصنیف کو اردو میں ڈھال رہے تھے) کہ ہمارے کالم نویسوں کی اکثریت سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی میڈیا منیجری کرتی ہے۔ کچھ ریاست کے راگ درباری پر رقص کرتے ہیں گو ہر دور میں چند ایک نے گریبانوں کا پرچم بنانے کا فرض ادا کیا لیکن پروپیگنڈے کے شور میں ان کی کون سنتا ہے۔

اب آیئے اداریہ نویس صاحبان کی طرف۔ پاکستان کے بڑے اردو اخبارات میں سے ایک دو میں ہی ایڈیٹوریل بورڈ ہیں98فیصد اخبارات میں سے 80فیصد میں ایک ہی اداریہ نویس ہوتا ہے تعطیلات کے علاوہ پورا سال اسے ہی اداریہ لکھنا ہوتا ہے۔ دفاع، بجٹ، سیاست، مذہب، علاقائی و عالمی صورتحال، ریاستی مفادات، نیوز آف ڈے پر ہی اداریہ لکھا جاتا ہے۔

درسی کتب میں شامل جھوٹ یا تاریخ کے نام پر تاریخ کو مسخ کرنے کے دھندے پر اداریہ نویس چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں لکھ سکتے۔

وجہ مالکان کے مفادات ہیں۔ مالکان کے مفادات ریاست کی چوبداری سے مشروط ہیں۔ ریاست کیا چاہتی ہے یہی کہ "ساون کے اندھوں کو ہر سمت ہریالی ہی دیکھائی دے”

چند برس ادھر میں نے اشتہاری کمپنیوں اور ریاست کے گٹھ جوڑ سے اطلاعاتی دنیا میں بنی صورتحال پر ایک کالم لکھا۔ جن دو اخبارات مشرق پشاور اور خبریں ملتان کے لئے میں اس وقت کالم لکھتا تھا دونوں کے ذمہ داران نے اس کالم کی اشاعت سے معذرت کرلی۔

معذرت کی وجہ یہی تھی کہ وہ اشتہاری کمپنیوں کو ناراض نہیں کرسکتے تھے۔ اسی طرح کے چند اور واقعات بھی ہیں۔ اس کے باوجود میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ جن اداروں سے منسلک ہوں میں ان کے ذریعے اپنی بات کہہ لیتا ہوں، یہی غنیمت ہے

 

درسی کتب کے ذریعے تاریخ کا قتل یقیناً اس پر اخبارات کو آواز اٹھانی چاہیے تھی لیکن اس کا کیا کیجئے کہ تاریخ کے قتل اور پھر ڈھول ڈھمکے کے ساتھ اس کے کریاکرم میں ہمارے اخبارات و جرائد نے ریاست کی خوشنودی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

وجہ مالکان کے مفادات ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کی میڈیا منیجری کا جادو مارشل لائوں کے ادوار میں سر چڑھ کر بولا۔ اسلام، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ یہاں ہمیشہ خطرے میں رہے۔ مجھ سمیت بہت سارے لوگ جتنا کچھ لکھ پاتے ہیں اس کی اشاعت پر شاداں ہوتے ہیں۔

اردو اخبارات کے اداریہ نویس جیسا کہ عرض کیا زیادہ تر یہ فرض ایک ہی شخص ادا کرتا ہے بڑی مشکل میں ہوتے ہیں انہیں ریاست و مالکان کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ توازن بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ سنجیدہ موضوعات سے فاصلے پر رہتے ہیں۔

اصولی طور پر خورشید کمال عزیز کی بات درست ہے کہ اداریہ نویس اگر تاریخ کے قتل میں شامل عناصر اور قوتوں کی نشاندہی میں حصہ ڈالیں تو اصلاح احوال کی صورت بن سکتی ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اداریہ پڑھنے والے قاری کتنے ہیں؟

کالم کے دامن میں گنجائش تمام ہوئی اگلے ایک دو کالموں میں خورشید کمال عزیز کی کتاب ’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘ میں درسی کتب کے پوسٹ مارٹم پر بات کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author