مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجیب محفوظ کا تعلق مصر سے تھا۔ وہ عرب دنیا کے واحد ادیب ہیں جنھیں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ لیکن انھیں اپنے ملک میں نفرت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مسلمانوں کی عادت ہے کہ اپنے نوبیل انعام یافتگان سے نفرت کرتے ہیں، بلکہ ہر اس شخص سے، جس کی دنیا عزت کرتی ہے۔
نجیب محفوظ سے نفرت اور ان کے خلاف فتوؤں کا سبب ان کا ناول اولاد حارتنا بنا۔ یہ قصہ 1959 میں مصر کے اخبار الاہرام میں قسط وار چھپا اور 1967 میں ناول کی صورت میں شائع کیا گیا۔ اس کے دو انگریزی ترجمے کیے جاچکے ہیں۔ ایک 1981 میں چلڈرن آف جبلاوی کے عنوان سے اور دوسرا 1996 میں چلڈرن آف اَور ایلی کے نام سے۔ اب دوسرا ہی ملتا ہے۔ پہلا نایاب ہے۔
کہانی کے مرکزی کرداروں میں خدا، آدم، موسیٰ، مسیح اور محمد شامل ہیں جن کے نام جبلاوی، ادھم، جبل، رفاعہ اور قاسم رکھے گئے ہیں۔ ہابیل قابیل اور شیطان بھی ہیں اور آخری باب میں عرفہ توجہ کا مرکز ہے جسے تینوں انبیا کی قومیں اپنا قرار دیتی ہیں لیکن دراصل یہ جدید سائنس کا استعارہ ہے۔
ناول چھپنے پر علمائے مذہب، جیسا کہ ان کا وتیرہ ہے، شدید ناراض ہوئے اور مصنف کے خلاف قتل کے فتوے جاری کیے گئے۔ 1994 میں ایک جنونی شخص کو موقع مل گیا جس نے نجیب محفوظ پر خنجر سے وار کیے اور ان کی گردن پر زخم آئے۔ اگرچہ وہ زندہ بچ گئے لیکن باقی زندگی اس حملے کے اثرات سے متاثر رہے۔
نجیب محفوظ کو 1988 میں نوبیل انعام ملا تھا۔ یہ وہی سال تھا، بلکہ اتفاق سے وہی دن تھے جب سلمان رشدی کا ناول شیطانی آیات شائع ہوا۔ اس کے بعد سلمان رشدی کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو نجیب محفوظ نے بھگتا۔ برسوں سخت سیکورٹی میں رہے۔ آج ایک جنونی نے نیویارک میں ان پر خنجر سے حملہ کیا اور ان کی بھی گردن پر شدید زخم آئے ہیں۔
سلمان رشدی کا متنازع ناول دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، سوائے اردو کے۔ میں نے ایک ویب سائٹ پر صرف پہلے باب کا ترجمہ دیکھا تھا۔ عربی اور فارسی کے تراجم مختلف ویب سائٹس پر عام دستیاب ہیں۔
آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے خلاف فتوی دیا تھا لیکن یاد رہے کہ ایرانی حکومت 1988 میں اس فتوے کی حمایت سے دستبردار ہوگئی تھی۔ ویسے بھی اہل تشیع کے مراجع جب انتقال کرجاتے ہیں تو ان کی تقلید واجب نہیں رہتی۔
میں متنازع لوگوں سے ملنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ یہ جان سکوں کہ ان کے بارے میں کہانیاں اور الزامات کس حد تک درست ہیں۔ ایسے بیشتر لوگوں کو ذہین اور خوش اخلاق پایا ہے۔ سلمان رشدی سے بھی ایک ملاقات ہوئی جب ان کے آخری ناول کے سلسلے میں تقریب ہوئی تھی۔ ان سے دو ناولوں پر دستخط کرواتے ہوئے مختصر گفتگو کی تو انھوں نے دریافت کیا، آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ میں نے بتایا کہ زندگی کا بڑا حصہ کراچی میں گزرا ہے تو انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ میں نے اس تقریب کی رپورٹ وائس آف امریکا پر شائع کی تھی۔
میں دو خبروں کے عکس پیش کررہا ہوں۔ ایک 1994 کی ہے جب نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ دوسری 1998 میں شہ سرخی بنی جب محمد خاتمی کی ایرانی حکومت نے سلمان رشدی کے خلاف فتوے اور انعام سے دستبراری کا اعلان کیا تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر