نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیغامِ عاشورہ ||حیدر جاوید سید

ہمارے چار اور، اور بالخصوص پاکستان میں آج جو حالات ہیں یہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم مقصد قیام امام حسینؑ کو شعوری طور پر سمجھنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ ریگزار کربلا میں قربان ہونے والے محبوبانِ خدا کی پیروی کرتے ہوئے عدم مساوات، انصاف کی فروخت، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور طبقاتی امتیازات کے خلاف اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کریں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عاشور،کربلا اور قیام امام حسینؑ انسانی تاریخ کی وہ زندہ حقیقتیں ہیں جن سے بلاامتیاز رنگ ونسل اور مذہب ہر حریت پسند اپنی جدو جہد کے لئے ولولہ تازہ حاصل کرتا ہے، لبِ فرات ریگزار کربلا میں اترے

محبوبانِ خدا کے قافلے نے جس کی قیادت سرکار دوعالم آقائے صادق احمد مرسلؐ کے نواسے فرزند امام علیؑ وسیدہ فاطمۃ الزہراؑ امام حسینؑ کر رہے تھے اپنی استقامت، فکری پختگی اور رضائے الٰہی میں سب کچھ نچھاور کرکے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ حق آگہی کا درس اول یہ ہے کہ جب حق کو ضرورت پڑے تو اعلائے کلمتہ الحق کرتے ہوئے تعداد نہیں یقین کی اہمیت ہوتی ہے،

ہر سال محرم الحر ام کی 10 تاریخ کو دنیائے اسلام میں خصوصاً اور پوری دنیا میں بالعموم امام حسینؑ اور آپ کے باوفا جانثاروں شہدائے کربلا کی یاد میں مجالس وجلوس اور ذکر آلِ رسولؐ کی مناسبت سے اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے،

آج روز عاشور ہے، یہ دن کرہ ارض پر بسنے والے آز ادی پسندوں اور مساوات کے علمبرداروں کو یہ یاد دلاتا ہے کہ کیسے کربلا کے میدان میں 72نفوس پر مشتمل ایک مختصر قافلے نے خود سے ہزار ہا گنا بڑے لشکر کے مقابلہ میں شجاعت وثابت قدمی کے

جوہر دکھائے کہ تاریخ کا دامن ان روشن کرداروں کے بھر گیا، عاشور، کربلا اور امام حسینؑ، محض روایتی داستان نہیں بلکہ یہ حریت فکر، ثابت قدمی، ایثار و وفا کی ایک ایسی زندہ داستان ہے جسے سنتے پڑھتے ہوئے آج بھی ہر خاص وعام کی زبان سے پہلا کلمہ یہی نکلتا ہے کہ

’’اے کاش ہم بھی اس زمانے میں ہوتے اور نصرت امام حسینؑ میں اپنی جان نچھاور کرتے”،

کربلا اور امام حسینؑ ہر دور میں اپنی زندہ فکر کی بدولت ان حق پرستوں کے لئے مشعل راہ ہیں جو انسانی سماج میں تعصبات، ظلم وجبر، ناانصافی اور خودپسندوں کے قائم کردہ طبقاتی امتیازات کی جگہ مساوات، انصاف، ایثار، محبت، برابری اور سماجی وحدت کو مقصد زندگی سمجھتے ہیں،

عاشور کا پیغام فقط یہی ہے کہ کرہ ارض پر زندہ وموجود ہر شخص کو جبر واستحصال کے خلاف اپنے حصے کی آواز بلند کرنا چاہئے، عاشور فقط یہ نہیں کہ ذکر شہیداں و شاہِ شہیداںؑ کر لیا اور غم گساری ہوگئی ،

عاشور دعوت فکر وعمل ہے ہر عہد کے زندہ ضمیر لوگوں کے لئے عاشور نے قیام حسینؑ کی استقامت اور یذیدیت کے جبر وستم کو آشکار کر دیا،

روز عاشور بظاہر شاہ شہیداںؑ کے 72 ہمراہیوں اور اس وقت کی جابر حکومت کے پہروں اور جبر وستم سے لڑتے بھڑتے کربلا میں امام حسینؑ کی نیابت کرتے ہوئے قربان ہو جانے والوں پر حکومت وقت کے لشکر کی فتح ہے مگر حقیقت میں عاشور مظلوموں اور بے یارومددگار قافلہ حسینؑ کے شہداء کی جبر وستم پر ابدی فتح کا دن ہے۔

عاشور کا پیغام برحق یہی ہے کہ عدو کا لشکر اور حامیوں کی تعداد خوا کتنی بھی کیوں نہ ہو مقابلتاً چند حق پرست فکری استقامت سے ڈٹ جائیں تو فتح مبین حق پرستوں کا مقدر ہی بنتی ہے،

دنیائے اسلام کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال شاہ شہیداں امام حسینؑ اور آپ کے جانثاروں کی قربانیوں کی یاد منائی جاتی ہے، آج ذکر شاہ شہیداںؑ کرتے ہوئے ہم میں سے ہر شخص کو احتساب ذات پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے،

ملت اسلامیہ پاکستان کے ہر فرد کو اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ کیا وہ اپنی زندگی کو حقِ عاشور کے طور پر بسر کر رہا ہے یا پھر ہمارا حال بھی ان لوگوں جیسا ہے جن کے دل امام حسینؑ کے ساتھ اور تلواریں یزیدی حکومت کی ہمنوا تھیں،

ہم آج بھی حق عاشور ادا کرسکتے ہیں، مظلوموں، بے کسوں بے نوائوں اور محروم طبقات کی دست گیری کرکے، حق عاشور اس طور پر ہی ادا ہوسکتا ہے کہ ہم رنگ ونسل ذات پات اور مسلکی تقسیم سے بالاتر ہو کر ایک ایسے نظام کے قیام کے لئے جدو جہد کریں

جو اس ملک کے زیردست طبقات کو شرف انسانی کے اعلیٰ معیار سے ہمکنار کردے، حق عاشور یہی ہے کہ غلط کو غلط اور درست کو درست کہا جائے، جبرو ستم اور استحصال کو ٹھوکروں سے اڑا دیا جائے،

کربلا میں سرکار دوعالم حضرت محمدؐ کے عالی مرتبت نواسے امام حسینؑ نے خود اپنی زبان مبارک سے دوٹوک انداز میں واضع کر دیا تھا کہ

’’اعلائے کلمتہ الحق ہمارا فرض ہے، طبقاتی تقسیم انقلاب محمدؐ کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے، اسلام وحدت، امن اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے‘‘

ہمارے چار اور، اور بالخصوص پاکستان میں آج جو حالات ہیں یہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہم مقصد قیام امام حسینؑ کو شعوری طور پر سمجھنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ ریگزار کربلا میں قربان ہونے والے محبوبانِ خدا کی پیروی کرتے ہوئے عدم مساوات، انصاف کی فروخت، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور طبقاتی امتیازات کے خلاف اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کریں،

یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم مخصوص سیاسی مقاصد کے لئے کسی کو حسینی اور یزیدی قرار دینے کی بجائے اپنے عصری شعور سے اس ابدی سچائی کو تسلیم کریں کہ طبقاتی امتیازات، عدم مساوات، سرکاری وسائل پر چند سو یا ہزار خاندانوں کی اجارہ داری، طبقاتی انصاف، جبر وستم اور استحصال نے یزیدیت سے جنم لیا ہے،

مقابلتاً، محبت وایثار، سماجی وحدت، بلاامتیاز انصاف،مساوات اور شرف آدمیت پیغام حسینیتؑ ہے، آج کے دن جہاں ہمیں احتساب ذات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے وہیں اس امر پر بھی غور وفکر کرنا چاہئے کہ کہیں ہم یاد شاہ شہیداںؑ مناتے ہوئے پیغام شاہ شہیداںؑ کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے؟

اس سوال کا جواب ہی ہماری انفرادی واجتماعی جدوجہد میں رہنمائی کا باعث بنے گا، اور جواب ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ حق بندگی ادا کرنا ہی اصل حسینیتؑ ہے، حسینیتؑ یہی ہے کہ اپنے حصے کا سچ وقت پر بولا جائے اور اپنے عہد کے ظالموں اور استحصالی نظام کے خلاف فکری استقامت کے ساتھ قیام کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author