مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں جاسوسی ادب کا آغاز کرنے والوں میں دو نام لیے جاتے ہیں، یعنی ظفر عمر اور شیخ فیروز الدین مراد کے سر یہ سہرا باندھا جاتا ہے۔ دونوں نے طبع زاد ناول نہیں لکھے بلکہ تراجم کرتے رہے۔ ظفر عمر کا پہلا ناول نیلی چھتری 1916 میں شائع ہوا۔ یہ فرانسیسی ادیب مورس لیبلان کے ناول کا ترجمہ تھا۔ فیروز الدین مراد نے حکایات شرلاک ہومز کے نام سے جو ترجمہ کیا، وہ 1921 میں چھپا۔
لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ادبی مورخین درمیان میں ایک نام فراموش کرگئے۔ مہاشے نرائن نے بنگالی ادیب بابو پانچ کوڑے دے کا ناول قاتل کون ہے کا ترجمہ کیا تھا جو 1920 میں چھپا۔ ممکن ہے کہ مغربی ناول نہ ہونے کی وجہ سے ادبی مورخین کی نظر چوک گئی ہو۔ یہ صرف 60 صفحات کا ناول ہے۔
ان مترجموں کی تقلید میں منشی تیرتھ رام فیروزپوری، منشی ندیم صہبائی، خان محبوب طرازی، پنڈت کشور چند، طالب لکھنوی اور کئی دوسرے ادیبوں نے جاسوسی ناول ترجمہ کیے اور طبع زاد بھی لکھے۔ ابن صفی، مظہر کلیم اور اشتیاق احمد نے اس روایت کو عروج تک پہنچایا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر