ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"محبت” انسان کو پیدائشی طور پر ودیعت نہیں ہوتی شاید اسی لیے یہ اب تک جینیات میں دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کا سبق ہمیں بچپن سے پڑھایا جاتا ہے، خدا سے محبت سے لے کر انسان سے محبت تک، جانوروں سے محبت سے لے کر مٹی سے محبت تک۔ جنسی عمل جاندار کی جبلت ہے اور کشش و لگاؤ مامالیائی صفت۔ جبلت اور صفت مل کر اس سبق پر عمل پیرا ہونے کا وصف بنتا ہے جس کی تبلیغ و تشہیر میں سارے ہی ذرائع، سماج سے ابلاغ تک، شعوری طور پر ہمہ تن مصروف ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ محبت کا رواج ثقافت کی دین ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
ماہرین نفسیات محبت میں مبتلا ہونے کے ضمن میں دو نکات کا خصوصی ذکر کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر انسان نفسیات کے حوالے سے مختلف نہ ہوتے جس طرح جانور جبلت اور ضرورت کے تحت ایک سے ہوتے ہیں تو کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص سے محبت نہ کر سکتا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ محبت اصل میں نفرت کا عکس معکوس ہے۔ محبت سے پہلے نفرت کا ہونا ضروری ہے۔ ہر انسان اصل میں نامکمل ہے۔ دوسرے شخص میں اپنی شخصیت کے معدوم اجزاء یا صفات کو دیکھ یا آنک کر حسد کا جذبہ سر اٹھاتا ہے اور اگر اس شخص تک رسائی ہو جائے تو حسد رشک میں ڈھل کر ان صفات کے آگے سر نیہوڑا دیتا ہے پھر محبت پر اکتفا کرکے اپنی ذات کی تکمیل کا نہ پورا ہونے والا خواب اس میں دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اپنی ذات کے بارے میں عدم اطمینان، نامکمل ہونے کا شعور، ناستلجیا یا تنہائی کا احساس اور ضرورت کی خواہش یہ سب مل کر محبت کے سراب کی رغبت کا باعث بنتے ہیں۔
اکثر لوگوں میں یہ بے چینی لاشعوری ہوتی ہے مگر بعض لوگوں میں اس کا شعور معمولی سے اضطراب، جوہڑ کی سی ساکت بے اطمینانی یا بلاوجہ پریشان ہونے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ان مطالبوں کو پورا نہ کرنے کی پیشیمانی ہوتی ہے جن کا تقاضا انسان کی ذات خود سے کرتی ہے۔ اپنے آپ کو یا دوسروں کو اس کے بارے میں چاہے جو بھی جواز پیش کیے جائیں لیکن یہ کیفیت اصل میں ذاتی نااہلیت یا ذاتی ناکافی پن کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔
اگر ہم اپنے آپ سے دیانت دار ہیں (جو ہم کبھی نہیں ہو سکتے) تو ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اپنے آپ سے کبھی کبھار ہی مطمئن ہو پاتے ہیں۔ ہمیں اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں سے پورا فائدہ اٹھانے کی مکمل صلاحیت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ہم زندگی میں حاصل کردہ مقام سے از بس خوش ہیں۔
علاوہ ازیں ہمارے ذہنوں میں اپنے بارے میں جو وجدان ہے وہ درحقیقت اس شخصیت کا عکس ہوتا ہے جو ہمیں واقعی ہونا چاہیے۔ جب ہم کبھی کبھار سنجیدگی سے اپنی ذات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پچھڑا ہونے کا احساس اپنے لیے ہی ترس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس تصور کو نفسیات کی اصطلاح میں "انا پسندی” یعنی Ego ideal کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح فرائڈ کی اصطلاح "مافوق الانا” یعنی Superego سے زیادہ مناسب ہے اگرچہ دونوں اصطلاحوں کا مطلب تقریبا” ایک ہے لیکن محبت کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اول الذکر اصطلاح کم تجریدی محسوس ہوگی۔ اس اصطلاح کو فرائڈ کی اصطلاح کی طرح جگہ جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ہم اپنی اس ذات سے جو کہ وہ ہونی چاہیے یعنی پسندیدگی "انا”، جسے آپ چاہیں تو پسندیدہ انا کہہ لیں، کئی طرح سے پیش آتے ہیں۔ بعض اوقات اس کے خلاف بغاوت بھی کرتے ہیں مگر اکثر اوقات خصوصا” عالم جوانی میں ہم اس کے معترف ہی رہتے ہیں اور اس کو انتہائی قیمتی جانتے ہوئے اسے خفیہ خزینے کی طرح محفوظ رکھتے ہیں۔ ہماری تعریف کے برعکس ہماری ذات ہماری جانب سرد مہری اور بعض اوقات ناپسندیدگی کے ساتھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ بمشکل ہی ایسا ہوتا ہوگا کہ ہماری ذات ہم سے مطمئن ہو اور وہ بھی لمحاتی طور پر۔ ذات ہم پر ملامت ہی کرتی رہتی ہے۔ کبھی کبھار ہم جھوٹ موٹ تصور کر لیتے ہیں کہ ہماری ذات وہی ہے جس کی ہم نے تصویر کشی کی ہوئی ہے اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ جو ہمیں ہونا چاہیے ہم اس سے قطعی طور پر مماثل نہیں ہیں۔ ذات کا یہ بڑھایا چڑھایا ہوا تصور یعنی Ego ideal نہ تو عورت ہوتا ہے اور نہ مرد۔ بس یہ وہ ہوتا ہے جو ہم ہونا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنی ایک تصویر بناتا ہے جو حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔ اپنی ذات کے آئینے میں ہمیں اپنا حقیقی عکس پسند نہیں ہوتا اس لیے اس میں ہم اپنی مرضی کے رنگ بھر لیتے ہیں۔ یہ نقلی تصویر ہم بس خود کو دکھاتے ہیں۔ یہ تصویر دوستوں کو اس لیے نہیں دکھا سکتے کیونکہ ہم شرمسار ہوتے ہیں۔ اس میں ہم سے ملتی جلتی بات اصل میں کم ہی ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ تصویر ذات ہمارے آخری بچپنے کا ایک نفسیاتی اظہار ہوتی ہے جس کے دوران ہمیں اپنی ذات کی عدم تکمیل کا شعور ہونے لگتا ہے۔
بچے کو بچپن کے اوائل میں وہ تضاد معلوم ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ والدین بالخصوص ماں کا کہا ماننے کی کوشش کرتا ہے لیکن بچے کے اپنے شوق اور خوشیاں ہوتی ہیں۔ وقت گذرتا ہے ہم پسندیدہ انا کا گاہے بگاہے بالکل بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ بعض اوقات اس سے بغاوت کرنے کی سعی بھی کرتے ہیں لیکن اس کوشش میں کم ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ ساری عمر ہمارے ساتھ رہتی ہے اور ہمیں ملامت کرتی رہتی ہے کہ جس طرح کا تمہیں ہونا چاہیے تھا تم ویسے نہیں ہو تاہم بڑھاپا آنے کے بعد اس کے تقاضے کم ضرور ہو جاتے ہیں۔ بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کے ہم سے مطالبے بےجا اور حد سے زیادہ تھے اور یہ کہ ان کی تکمیل کا اب وقت ہی نہیں رہا اور ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھتے ہیں یعنی محبت میں مبتلا ہونے سے گریز کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔
پر شخص کی شخصیت کا تعین اس کی اصل ذات اور پسندیدہ ذات یعنی Ego ideal اور ان دونوں کے درمیان کی خلیج کی جانب اس کے رویوں سے ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی تصور "تصور محض” نہیں ہے کیونکہ تصور خلاء سے جنم نہیں لیتا۔ تصور اصل زندگی سے ہی ابھرتے ہیں۔ پسندیدہ ذات کی بنت بھی حقیقی زندگی کے کرداروں کے پسندیدہ اجزاء سے ہوتی ہے۔ ان کرداروں میں والدین، اساتذہ، مرد اور عورت سب شریک ہوتے ہیں جن میں سے کچھ کی ہم عمر بھر تعریف کرتے ہیں۔ بچپن میں پسندیدہ ذات کی تصویر مرتب کرنے میں بھائیوں، بہنوں، دوسرے بچوں، اجنبی لوگوں، کتابوں، تصویروں میں موجود کرداروں کے اچھے اور پسندیدہ اوصاف شامل ہوتے ہیں جنہیں ہم تعصب بھرے رشک سے دیکھتے ہیں اور شک میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم ایسے کبھی نہیں ہو سکتے۔ ہم ان کے سامنے شرمساری محسوس کرتے ہیں۔ بڑے ہونے پر ان کے اوصاف ہمارے لیے زندگی کے مختلف شعبوں میں جگہ بنانے کے لیے مثالی بن جاتے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن میں ذات کے ماڈل (Ego Model) پوری عمر ہمارے لیے اہم رہتے ہیں۔ ہم جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہوئے اپنے پسندیدہ افراد کے بہتر اجزائے صفات کی خود میں تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن یہ ایک ایسی خلیج ہے جو پاٹے جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس طرح عدم اطمینان اور عدم تکمیل کا احساس جنم لیتا ہے اور محبت کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تاکہ کسی اور کے ذہنی و جسمانی اختلاط سے ذات کی تکمیل کیے جانے کا چارہ ہو اور اطمینان مل پائے۔ محبت بعض اوقات اس لیے بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ "پسندیدہ ذات” کی تکمیل کا احساس انسان کو اطمینان سے ہمکنار کرتا ہے اگرچہ وہ محبت کی صورت میں یکسر عارضی نوعیت کا ہوتا ہے کیونکہ ذات کی تکمیل کی صدا مسلسل اٹھتی رہتی ہے اگر یہ آواز بند کی جا سکتی تو شاید لوگ محبت سے پاک ایک خوش باش زندگی بسر کرتے۔
ایسا ہونا انسانی سماج میں ناممکن ہے۔ محبت تکمیل ذات یعنی پسندیدہ ذات میں ڈھلنے کے احساس کا متبادل ہے۔ سچ کہا جائے تو یہ خود سے محبت سے زیادہ خود سے نفرت ہے۔ پسندیدہ ذات کے حصول کی خاطر محبت کی جاتی ہے جو کبھی خود مکمل نہیں ہوگی۔ محبوب سامنے آ کر عارضی طور پر پسندیدہ ذات کی جگہ لے لیتا ہے دوسرے لفظوں میں محبت کا مطلب پسندیدہ ذات کا اس بیرونی معروض سے تبادلہ ہوتا ہے جس میں ان تمام صفات کا اجماع محسوس ہوتا ہے جو خود ہم میں مفقود ہوتی ہیں۔ محبت کرکے ہم یہ بوجھ اتار کر دوسرے کے کندھے پر ڈال دیتے ہیں اور سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے ہم اپنی پسندیدہ ذات کی تصویر کسی دوسرے کی شخصیت پر منعکس کر دیں، اس انعکاس سے وہ نفسیاتی تشنج دور ہو جاتا ہے جس کے کرب سے ہم مضمحل ہوتے ہیں۔ مگر یہ اندرونی انتشار عارضی طور پر رفع ہوتا ہے اور پھر عود کر آتا ہے جس کے باعث انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ ایک شخص کسی مقصد کے حصول میں جان کھپاتا ہے تو دوسرا محبت کے گڑھے میں گر کر عارضی استراحت کو فوقیت دیتا ہے کیونکہ یہ بھی تو ایک نفسیاتی قصد ہی ہے۔
محبت کی پہلی شے (Love object) رنگ بھری انا ہے یعنی ذات کا وہ بھوت جس کا عکس ہم نے جاگتی انکھوں کے خوابوں میں وضع کیا تھا اور اس کی مار میں آنے والا دوسرا شخص اس عکس کی حقیقی تعبیر کے مترادف تھا کیونکہ تصور باہر کے افراد کی صفات سے مرعوب ہو کر مرتب کیا گیا تھا۔ یہ محبت اپنے بچپن میں تیار کردہ رنگ بھری تصویر کے تشخص کی جانب مراجعت ہے اور اس کے بعد ہونے والی ہر محبت پرانی تصویر کا ہی ایک مختلف اظہار ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر