مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عدم اعتماد کی سیاست اور پشاور میں دھماکہ||ظہور دھریجہ

سرائیکی وسیب میں جاگیردار سیاستدان انگریز دَور سے لے کر آج تک یہی کچھ کرتے آرہے ہیں، تحریک انصاف میں یہ ہوا ہے کہ جو لوگ بر قربانیاں دیتے آرہے تھے، آج اُن کو سائیڈ پر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ کل تحریک انصاف والوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے ، آج وہ لو وزیر ، مشیر بنے ہوئے ہیں ، یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلی اسی کا نام ہے؟

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی سیاست زوروں پر ہے، بلاول کا لانگ مارچ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، دوسری طرف مخدوم شاہ محمود قریشی کی طرف سے سندھ میں سندھ حقوق مارچ اس کا جواب ہے، ایک طرف حکومت اور اپوزیشن بر سرپیکار ہیں دوسری طرف پشاور کے قصہ خوانی کی جامع مسجد میں میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکہ ہوا ہے جس سے 60نمازی شہید جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔
اس واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، خود کش دھماکے کی حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے مذمت کی گئی ہے۔ ضیاء الحق دور میں جہاد افغانستان جسے عرف عام میں فساد افغانستان کا نام دیا جاتا تھا شروع ہونے والے عذاب بڑی مشکلوں سے کم ہوئے تھے کہ ایک بار پھر دہشت گردی کے عفریت نے سر اٹھا لیا ہے،حکومت فوری طور پر اس پر قابو پائے اور دہشت گرد جن کے تانے بانے افغانستان سے ہوتے ہوئے بھارت سے جا ملتے ہیں سے مذاکرات کی بجائے آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے۔
 خودکش دھماکے کی افسوسناک خبر آنے سے پہلے میں کالم لکھ چکا تھا اور میں نے واضح کیا کہ عدم اعتماد کامیاب بھی ہو سکتا ہے کہ سیاست میں لاوے تتر اور فصلی بٹیرے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرنے والے فصلی بٹیرے دنیا کے ہر خطے اور ہر علاقے میں موجود ہیں، پاکستان میں بھی کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں فصلی بٹیرے نہ پائے جاتے ہوں، آج ہم سیاسی منظر کو دیکھتے ہیں تو جو لوگ آج تحریک انصاف میں ہیں کل یہ (ن) لیگ میں تھے، پرسوں (ق) لیگ و پیپلز پارٹی اور اس سے پہلے نہ جانے کہاں کہاں؟
 سرائیکی وسیب میں جاگیردار سیاستدان انگریز دَور سے لے کر آج تک یہی کچھ کرتے آرہے ہیں، تحریک انصاف میں یہ ہوا ہے کہ جو لوگ بر قربانیاں دیتے آرہے تھے، آج اُن کو سائیڈ پر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ کل تحریک انصاف والوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے ، آج وہ لو وزیر ، مشیر بنے ہوئے ہیں ، یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلی اسی کا نام ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیرداری ختم کرنے کے نام پر ووٹ لئے مگر مضبوط ہوئے، ہم نے دیکھا کہ تمام جاگیردار پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور بھٹو کو بحفاظت تختہ دار تک پہنچانے کے بعد آرام سے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ جاگیرداری پاکستان تو کیا پوری دنیا کا مسئلہ ہے، یہ ٹھیک ہے کہ زرعی اصلاحات کے ذریعے دنیا کے اکثر ممالک میں جاگیرداریاں ختم کر دی گئیں، اس کے باوجود جاگیردار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، اب جاگیرداری ایک سوچ کا نام ہے، ہر ملک اور ہر علاقے کا اپنا اپنا رواج اور اپنی اپنی رسم ہے مگر جاگیردارانہ سوچ ہر جگہ ایک ہے، وطن وسیب مذہب اور قومیت اُن کے لئے یہ سب کچھ خانہ پری کیلئے ہے، کسی بھی وسیب کی تہذیب ، ثقافت اور آثار سے اُن کی کوئی دلچسپی نہیں، فوک، شاعری یا نثر سے بھی ان کا کوئی لینا دینا نہیں، البتہ بے وفائی، تم چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی، اقتدار، کرسی، اقتدار کے مراکز کا طواف ان کا پسندیدہ شغل ہے۔
 سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں نے وفاداریاں بدلنے میں پوری دنیا کے فصلی بٹیروں کو مات دے دی ہے، اگر ان کے سیاسی پس منظر پر غور کیا جائے تو یہ اور ان کے بزرگ اب تک درجنوں جماعتوں تبدیل کر چکے ہیں، بلی کے بارے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بچے دیتی ہے تو اپنے بچوں کو سات گھر پھراتی ہے، ویسے تو پرندے بھی گھونسلے بدلتے رہتے ہیں مگر وسیب میں جاگیرداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتنے پہناوے نہیں بدلتے جتنی پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں، لیکن اگر ان سے پوچھا جائے تو ان کا موقف یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی جماعت تبدیل نہیں کی۔
نئے جاگیردا رآباد کاروں کی شکل میں سامنے آئے ہیں اور یہ بھی پرانے جاگیرداروں کے نقش قدم پر ہیں۔ سابق صدر مملکت سردار فاروق خان لغاری کا پورے ملک میں ایک نام ہے، اُن کے صاحبزادے جمال لغاری اور اویس لغاری نے مسلم لیگ کے سربراہ میاں شہباز شریف کو دعوت دی تھی کہ وہ ڈیرہ غازیخان سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں، الیکشن لڑانا کوئی بری بات نہیں، آخر جاوید ہاشمی بھی لاہور سے الیکشن لڑتے رہے، لیکن جو بات قابل اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ انہی صاحبان نے میاں شہباز شریف کو جام پور سے الیکشن میں کامیاب کرایا تھا اور الیکشن کمپین کے دوران کہا گیا تھا کہ میاں شہباز شریف پنجاب اسمبلی کی قرارداد اور (ن) لیگ کے منشور کے مطابق سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے اقدامات کریں گے مگر جونہی میاں شہبازشریف جام پورسے کامیاب ہو کر لاہور پہنچے تو اُن کا پہلا بیان یہ تھا کہ ہم نے سرائیکی صوبہ تحریک کو دفن کر دیا ہے۔
 ہمارے وسیب کے ایک جاگیردار زادے کا نام ہے مخدوم خسرو بختیار ، انہوں نے الیکشن سے قبل صوبہ محاذ بنایا اور وسیب سے کامیاب ہو کر وفاقی وزیر بن گئے ہیں ،مخدوم خسرو بختیار کے والد مخدوم رکن الدین مرحوم بھی اسی حلقے سے سرائیکی صوبے کے نعرے پر کامیاب ہوئے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں سرائیکی کانفرنسیں بھی کرائی تھیں، لیکن اب کے یہ ہوا کہ مخدوم خسرو بختیار جنوبی پنجاب صوبے کی بات شروع کر دی، مخدوم خسرو بختیار نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا، پھر چند ہی دنوں بعد اپنے ہی ہاتھ سے بنائے صوبہ محاذ کو قتل کرکے تحریک انصاف میں پناہ لی، پھر اقتدار کے شوق میں اُن کو کچھ یاد نہ رہا کہ میں کل کیا کہتا رہا ہوں اور آج کیا کہہ رہا ہوں۔ ٭٭٭٭

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: