۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے کچھ دنوں سے لکھنے کی طرف توجہ تھوڑی کم ہو گئی جس کو آج دیکھے گئے ڈرامے نے تحریک بخشی۔ مجھے کسی نے بتایا کہ اگر آپ ڈرامہ دیکھنا پسند کرتی ہیں تو ہاشم ندیم کا ”پری زاد“ ایک اچھا ڈرامہ ہے۔ ہاشم ندیم میرے لئے ایک شناسا نام تھا اور وہ ایسے کہ میں نے ان کے ناول ”عبداللہ“ اور ”بچپن کا دسمبر“ کا ذکر اپنے گھر ہی میں سنا ہوا تھا۔ میں نے یہ ناول پڑھے تو نہیں لیکن ان کے لکھنے والے سے میرا تعارف ضرور تھا۔ یہ ادب کی دنیا کا بلا شبہ ایک بڑا نام ہیں لہٰذا سنتے ہی یہ ڈرامہ سیریل ”پری زاد“ دیکھنے بیٹھ گئے۔ ہفتے کا دن تھا۔ بابا کو بھی چھٹی تھی اور ہم نے بھی کافی دنوں سے کوئی تفریحی بریک نہیں لی تھی تو ایک ہی نشست میں ہم نے کوئی آٹھ سے دس اقساط اکٹھی ہی دیکھ لیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ڈرامے کا پلاٹ بہت مضبوط تھا جس نے پہلی قسط ہی سے ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر ہر قسط میں کہانی یوں آگے بڑھ رہی تھی کہ ہماری دلچسپی ڈرامے میں بڑھ رہی تھی۔
میں نے کسی قسط کا ایک ڈائیلاگ ”تمہاری شکل و صورت تو دنیا سے تمہارا پہلا تعارف ہے، دوسرا تعارف تمہارے الفاظ ہیں ؛ اس کو اتنا مضبوط کر لو کہ دنیا تمہیں جھک کر سلام کرے یا ملے“ اپنی فیس بک پر لگا دیا جس نے بحث کا ایک سلسلہ چھیڑ دیا۔ لوگوں کو دنیا کو جھکانے کی نیت پر بڑا اعتراض ہوا جبکہ اس حقیقت کا کھلا اظہار ہمارے رویوں اور ہماری روزمرہ زندگی میں کب نہیں ہوتا۔ میرے اس موقف کے باوجود کہ لکھاری نے یہ الفاظ استعارے کے طور پر استعمال کیے ہیں، میرے قارئین نے دیکھا دیکھی دبے دبے لفظوں میں ناراضگی کا اظہار خوب کیا۔
عام شکل و صورت کے پری زاد نے جب دنیا سے اپنے دوسرے تعارف کو اپنی خدا داد صلاحیت سے مضبوط کیا ہی تھا کہ لکھاری نے اس شناخت کے ہمارے ظالم معاشرے کے ہاتھوں پرخچے اڑوانے کا بندوبست کر دیا۔ ایک ادھیڑ عمر گنجے امیر آدمی کو اس کی شاعری کا بیوپاری بنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا جس نے تنک کر کہا کہ دنیا میں ہر چیز بکاؤ ہے اور شرط یہ ہے کہ صحیح قیمت لگانے والا ہونا چاہیے بس۔ میں یہاں لکھنے والے کے خیالات سے مؤدبانہ اختلاف کرتی ہوں کہ اس دنیا میں چیزیں اس وقت نہیں بکتی جب ان کی قیمت اچھی لگ جائے بلکہ اس وقت بکتی ہیں جب یا تو انسان کی ضروریات اس کے ہنر سے زیادہ طاقتور ہو جائیں یا پھر اس کا لالچ۔
اس بات کا ثبوت خود لکھنے والے نے بھی آگے چل کر اس وقت دیا جب پری زاد نے اپنی شاعری کی فقط پانچ لاکھ روپے قیمت مانگ کر یہ کہا کہ میں نے صرف پانچ لاکھ مانگے ہیں کیونکہ مجھے اتنی ہی ضرورت تھی اور ہاں میں نے صرف لفظ بیچے ہیں ایمان نہیں تو گویا لفظ، خیالات اور سوچ کا سودا ہمارے محترم ڈرامہ رائٹر کی نظر میں جائز ہے۔
ابھی ہم لوگ ڈرامے کی اس قسط تک پہنچ گئے ہیں جہاں دولت کا ہما پری زاد کے سر پر بغیر کچھ کیے بیٹھ جاتا ہے اور محبت کی دیوی مختلف شکلوں میں اس کے سامنے وقت بے وقت نمودار ہونے لگتی ہے۔ میں ڈرامے کی مزید اقساط دیکھنے میں اس لئے دلچسپی کھو بیٹھی ہوں کہ سر ہاشم ندیم نے دیکھنے والوں کو کیا عجب درس دیا ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ بس یونہی مل جاتا ہے اور بیٹھے بٹھائے آپ کی چاندی ہو جاتی ہے یا یہ کہ آپ کو انڈر ورلڈ کا رخ کر کے گرو بننے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔
دونوں ہی باتیں کافی مضحکہ خیز ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ برے کاموں سے حاصل پیسے اور طاقت سے اچھے کام کرنے کا تاثر ہمارے معاشرے میں اس قدر راسخ ہے کہ یہاں مافیاز عوام کو لوٹتے اور پھر غریبوں کے لئے دسترخوان بچھاتے اور عمرہ ٹکٹ دان کرتے ہیں۔ میری لکھنے والوں سے انتہائی ادب سے درخواست ہے خدارا قلم کی سمت کو درست رکھیں۔ ادب برائے محض چسکا والوں کو نان سٹاپ انٹرٹینمنٹ میں ایک اور اضافہ مبارک ہو۔
_
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر