گزشتہ روز وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینٹ کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے معاملے پہ یوسف رضا گیلانی کے بارے میں چل رہی بحث کے تناظر میں اپنی تقریر میں جو الفاظ استعمال کیے، ایک دن آئے گا جب انہیں پچھتاوا ہوگا لیکن تاریخ میں وہ سستی جذباتیت کے شکار اپنے سیاسی حریف بارے “کم ظرف” سیاست دان کے طور پہ یاد رکھے جائيں گے۔
شاہ محمود قریشی سید یوسف رضا گیلانی کے بارے میں احساس کمتری ، حسد، جلن اور رقابت جیسے نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں ۔ اور یہ عوارض ان کی شخصیت کا مستقل حصّہ بنتے جارہے ہیں۔ وہ یہ بھلا نہیں پاتے کہ پی پی پی نے انہیں وزیراعظم بنانے کی بجائے یوسف رضا کو کیوں بنایا؟ پھر یوسف رضا کو پاکستان کے سیاست دانوں میں کٹر جمہوریت پسند، پارٹی کا وفادار، وضع دار، شریف اور تجربہ کار سیاست دان کے طور پہ سمجھا جانا اور ان کے مقابلے میں ملتان گیلانی کے حوالے سے زیادہ جانے جانا بھی ان کی نفسیاتی گرہ کو اور الجھا دیتا ہے۔ وہ اپنے اوپر چڑھائے سینجدہ سیاست دان کے نقاب کو اتار پھینکتے ہیں اور پھر بوکھلاہٹ میں ایسے بولتے چلے جاتے ہیں جس سے وہ اپنا “نفسیاتی عارضہ” چھپا نہیں پاتے۔
سینٹ میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل پاس کرانے کے لیے حکومت نے بہت چالاکی سے کام لیا۔ جمعہ کی رات کو ڈیڑھ بجے سینٹ اجلاس کا ایجنڈا اراکین سینٹ کی اسلام آباد میں واقع رہائش گاہوں تک بھیجا گیا۔ ایک ایسے وقت میں سینٹ کا اجلاس طلب کیا گیا جب حکومت کو پتا تھا کہ اپوزیشن کے قریب قریب 11 اراکین سینٹ سے غیر حاضر ہوں گے۔ آزاد اپوزیشن اراکین کو پہلے ہی رام کرلیا گیا تھا۔ حکومت کی خفیہ کوشش کے باوجود بل پہ رائے شماری کے وقت دونوں اطراف کے ووٹ برابر ہوئے تو چیئرمین سینٹ نے اپنا ووٹ بل کے حق میں دےے کر بل کو منظور ہونے دیا۔
بل کے پاس ہوجانے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک اور سوچھا سمجھا بیان داغا،”بلاول، گیلانی اور پیپلزپارٹی کا شکریہ انھوں نے بل منظور کرانے میں مدد کی” اس کے بعد پی ٹی آئی کے کئی ایک وزراء نے اسی لائن کی مطابقت میں بیانات داغے جن کا مطلب یہ بنتا تھا کہ یہ بل یوسف رضا گیلانی کے سینٹ سے غیر حاضر ہونے کی وجہ سے پاس ہوا اور یہ غیر حاضری جان بوجھ کر کی گئی تھی ۔
مسلم لیگ نواز کے سینٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے اسی روز ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ گیلانی صاحب کو سینٹ میں حاضر رہنا چاہئیے تھا۔
پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے ایسے اینکرز اور تجزیہ نگار جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کے میڈیا سیل کا غیر اعلانیہ حصّہ ہیں ۔ ان کے تجزیے معروضی حقیقت کی مطابقت کی بجائے ملنے والے اسکرپٹ کی روشنی میں لکھے جاتے ہیں، انھوں نے بھی سید یوسف رضا گیلانی کو نشانے پہ رکھا اور سینٹ میں مذکورہ بل کی منظوری کی ساری ذمہ داری گیلانی صاحب پر ڈال دی۔ یہاں تک کہ پی پی پی کے رہنما سابق سینٹر مصطفی کھوکھر جو بلاول بھٹو کے ترجمان بھی رہے ہیں انھوں نے بھی ایک ٹی وی پروگرام پہ یوسف رضا گیلانی کوبل کی منظوری کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
وہ زمانہ جب یوسف رضا اپنے چچا حامد رضا گیلانی کے زیر سایہ اور شاہ محمود اپنے والد گورنر سجاد قریشی کے زیر سایہ جنرل ضیاء الحق کے کیمپ میں تھے – گیلانی جب چچا کے اثر سے آزاد ہوئے تو وہ اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے لگے اور یہ جرآت قریشی کبھی نہ کرسکے
سوشل میڈیا پہ پی پی پی کے کئی کارکنوں اور ہمدردوں نے بھی گیلانی صاحب پہ شدید تنقید کی ۔
جب گیلانی صاحب کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا تھا، اس دوران مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ایک اور خبر گردش کرنے لگی ۔ خبر کے مطابق سینٹ میں بل پہ رائے شماری کے وقت پی پی پی کے دو، مسلم لیگ نواز کے تین،مینگل گروپ کے دو، جے یو آئی ایف کے دو، اچکزئی کی پارٹی کے دو اراکین غیر حاضر تھے بلکہ اے این پی کے ایک سینٹر کے بارے میں تو پتا چلا کہ وہ عین رائے شماری کے وقت ایوان سے باہر چلے گئے۔ اس خبر کو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پہ وہ اہمیت تو نہ ملی جو گیلانی کی غیر حاضری کو مل رہی تھی لیکن اس خبر نے یہ سوال ضرور پیدا کیا کہ جب پی پی پی کے دو اور پی ڈی ایم کے سات اور اے این پی کے دو سینٹرز غیر حاضر تھے تو نشانہ گیلانی کیوں بنے؟ اس سے یہ ایک مرتبہ پھر یہ تاثر عام ہوا کہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں ہائبرڈ رجیم کی جڑیں خدشات سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جمہوریت پسندی کو تین سے چار دنوں میں پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں زبردست مہم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس صورت حال کا ملتان میں ان کے سب سے بڑے حریف وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پورا فائدہ اٹھایا۔ ان کے میڈیا مینجر عمران گردیزی نے ملتان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سیاسی بیٹ کرنے والے رپورٹرز کو خصوصی طور پہ مدعو کیا اور ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انھوں نے پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پہ تابڑتوڑ حملے کیے۔ ان کی جمہوریت پسندی، اسٹبلشمنٹ مخالفت کے تاثر پہ سوال اٹھائے۔ انھوں نے پی پی پی کے سرائیکی صوبہ کاز سے اخلاص پہ بھی سوال اٹھایا۔ شاہ محمود قریشی سینٹ میں سرائیکی صوبے پہ ان کی تقریر کے جواب میں گیلانی کی بھرپور تقریر اور پی ٹی آئی پہ تنقید کو شاید بھلا نہیں پائے۔ اس سے پہلے 2008ء میں جب زرداری نے ان پہ گیلانی کو ترجیح دی تھی اسے بھی وہ بھلا نہیں پائے۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھوں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جانا بھی ان کے ذہن سے جاتا نہیں ہوگا۔ لیکن کیا اس سیاسی پوائنٹ اسکورننگ سے سید یوسف رضا گیلانی کے سیاسی کرئیر پہ کوئی خاطر خواہ اثر مرتب ہوگا؟ میرے خیال میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کردار کشی کی اس مہم میں سرخرو ہوکر نکلے ہیں- انھوں نے سینٹ میں حزب اختلاف کے قائد کے عہدے سے استعفا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو پیش کیا۔ جنھوں نے اس استعفا کو نامنظور کرتے ہوئے پاکستان کے آئین، جمہوریت، عوام اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا اور ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ سینٹ کے اجلاس کے دوران جس طرح نواز لیگ کی سینٹر سعدیہ عباسی نے گیلانی صاحب سے معذرت کی اور ان کو نشانہ بنانے والوں کی مذمت کی اس نے بھی حکومت کی چال کو الٹا کر رکھ دیا ہے۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی 1988ء میں باقاعدہ طور پہ پاکستان پیپلزپارٹی کا حصّہ بنے۔ آج پیپلزپارٹی سے ان کی وابستگی 34 ویں سال میں داخل ہوگئی ہے۔ انھوں نے ریلوے منسٹر اور اسپیکر قومی اسمبلی کے طور پر پاکستان عوام کو جو نوکریاں دیں ان کی پاداش میں انھوں نے جیل کاٹی ۔ اور آج کل وہ وزیراعظم کے طور پہ عوام کو نوکریاں دینے کی پاداش میں نیب کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ انھوں نے نواز شریف کے انتقام اور عتاب کے شدید ترین ادوار(90 اور97) میں پی پی پی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ پھر انہیں جنرل مشرف نے لالچ اور دھونس سے 8 سال تک پارٹی چھوڑنے پہ مجبور کیا ۔ ان کو قید کی سزا ہوئی ۔ مگر وہ پی پی پی کے ساتھ کھڑے رہے۔ 2008ء سے 2012ء تک کے وزرات عظمی کے دور میں ان شدید ترین دباؤ کا سامنا رہا۔ میمو گیٹ کیس میں ان پہ دباؤ پڑا۔ لیکن گیلانی نے قومی اسمبلی کے فلور پہ اپنی تقریر میں کہا،” وہ ریاست کے اندر ریاست نہیں چلنے دیں گے” ، امریکیوں کو ويزے جاری کیے جانے پہ تنقید ہوئی تو انہوں نے ایک بار پھر قومی اسمبلی کے فلور پہ بطور وزیراعظم سوال اٹھایا،”اسامہ بن لادن کون سے ویزے پہ پاکستان آیا تھا؟” کیا شاہ محمود قریشی کے سیاسی کیرئر میں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے قومی اسمبلی کے فلور سے ایسے سوالات کبھی سنئے گئے؟ ہاں ان کے پاس پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی خارجہ پالیسی میں مداخلت بارے سچ بولنے کا میموگیٹ کیس کے وقت آیا تھا مگر اس دور میں انہوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کیس بارے اب سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ نے اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن شاہ محمود قریشی اس وقت بھی سویلین حکومت کو مورد الزام ٹھہرارہے تھے۔ انھوں نے پی پی پی کی حکومت پہ قومی سلامتی کا سودا کرنے کا الزام تک لگادیا تھا اور پھر وہ ایک ایسی سیاسی جماعت میں چلے گئے جس پہ سلیکٹرز کی اشیر باد کا الزام ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی سرائیکی وسیب کے مقدمے کے حوالے سے بھی شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ مقدمہ بطور وزیراعظم اور اب بطور اپوزیشن لیڈر بھی بہت اچھے سے لڑا ہے۔ حال ہی میں سینٹ میں انھوں نے اپنی تقریر میں جنوبی پنجاب کو بتدریج اختیارات کی منتقلی کی سوچ کو نوآبادیاتی سوچ قرار دیا اور کہا کہ سرائیکی وسیب کے لوگ رعایا نہیں ہیں ۔ ان کی اس تقریر نے ایک بار پھر سید یوسف رضا گیلانی کی سیاسی قامت کو بڑا کیا۔ یوسف رضا گیلانی کی سیاست تاریخ میں زندہ رہنے کی سیاست ہے اور شاہ محمود کی سیاس اخبارات کی سرخیوں میں زندہ رہنے کی لگتی ہے کیونکہ وہ جمہوریت پسندوں سے زیادہ طالع آزماؤں کی مرضی کی تابع سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر