آج جب 2015ء کا سال اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے اور کل پہلے سال کا پہلا دن ہوگا تو ایسے میں، میں نے سوچا تھا کہ حسب سابق اپنے دوستوں کے لئے جو گزرگئے اور جو ابھی مبتلائے زندگی ہیں سب کو یاد کرنے کے بہانے ایک نوٹ لکھوں گا مگر آج جب ایک بجا اور تاریخ بدلی تو مرے زھن کے پردے پر ایک پرانے واقعے کی فلم چلنا شروع ہوئی تو کی بورڈ پر انگلیاں خود بخود متحرک ہوگئیں اور یہ کہانی سامنے آگئی
اس میں دسمبر بھی ہے، دسمبر کی ستم ظریفی اور وہ cruelty بھی جس کا شکار ہم سب کہیں نہ کہیں ہوتے ہیں
آج کے دن میں نے خوش رہنے کی بہت کوشش بھی کی ہے، تھوڑی سی پوسٹوں میں boyish look بھی لانے کی کوشش کی ہے لیکن سچی بات ہے کہ irony اور cruelty دونوں جیت جاتی ہیں اور Happiness اور joy پھر کہیں دور رہ جاتے ہیں
آج کا دن بہت سے لوگوں کو یاد کرنے کا دن ہے اور سب سے بڑھ کر مجھے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے کربلا و نجف تک کا سفر پیدل چل کیا اور وہ ساری کثافت سے پاک ہونے کی دعا کرتا رہا اور اس نے کہا کہ تم نے اپریل میں عراق جانے کا پروگرام بنا رکھا ہے تو اس کا پیغام لیکر جانا، میں بہت حیران ہوا کہ وہ اب تک انسانوں سے اپنے تعلق کو ” کثافت ” خیال کرتا رہا، مذھب کے اندر ” دنیا داری ” کو کثافت اور گناہ سمجھنے کا جو فلسفہ ہے مری سمجھ میں آج تک نہیں آیا اور میں نے اسے کہا کہ
جس کے پاس مجھے جانے کا کہہ رہے ہو، اس سے میں ہمیشہ جڑا رہا ہوں اور مرا اس سے یہ تعلق کوئی ” نص ” یا ” فرض ” کی بنیاد پر نہیں ہے اور ایک ” جدلیاتی مادیت” پر یقین رکھنے والے شخص سے ” دعا ” کا مطالبہ عجیب شئے ہے، یہ میں نہیں کرسکوں گا، مرا دوست کہتا ہے وہ پانچ دن کے سفر کربلاء میں ظفر مند ہوکر لوٹا ہے مگر مرے نزدیک اس کا سفر اگر علی شریعتی کے سفر حج کی طرح ہوتا یا وہ بایزید بسطامی کی طرح طواف کعبہ کو جاتا اور کعبے کو مکہ کی بجائے بسطام میں پاتا اور ایسے کی نجف جاکر وہ علی کو وہاں کی بجائے اپنے شہر کی کے کسی درزی کے پاس پاتا تو میں سمجھتا واقعی وہ ظفر مند لوٹا ہے، ایسا تو ہوا نہیں بلکہ اس کے بقول اس سفر سے واپسی سے پہلے اسے رگ جاں کے قریب لوگوں سے منہ پھیرلینے کا اشارہ ہوا؟ عجیب بات ہے کہ
جوڑنے والے کب سے کاٹنے والے ہوگئے
ایسے باب علم سے تو میں کبھی ملا ہی نہیں
لوگ کہتے ہیں کہ میں استعاروں میں پھنس گیا ہوں، ٹھیک کہتے ہیں مجھے تو دیومالائی سچ اپنی ٹرانس سے باہر نہیں آنے دیتے اور میں ” زمان مسلسل ” میں جی رہا ہوں جس میں سب زمانے ایک ساتھ چل رہے ہیں، فلیش بیک میں ماضی اور موجود میں حال اور خواب میں مستقبل چل رہا ہے اور میں تینوں کو الگ کرنے سے قاصر ہوں
اس وقت یہ سطریں لکھتے ہوئے میں اپنے گھر سے دور ریلوے لائن کی پٹڑیوں کے ساتھ بیٹھا ہوں جس سے کچھ فاصلے پر ایک نہر رواں ہے اگرچہ سرد موسم میں پانی بھی ٹھٹھرا ہوا لگتا ہے اور اب سنہری ہلکی دھوپ کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے
آج دسمبر کی آخری رات دبے پاوں آنی ہے اور وہاں بہت دور کراچی کے قبرستان میں ہما علی قبر پر کسی نے نہیں آنا مگر میں نے ایک دوست کو کہا ہے وہاں جائے اور تازہ گلابوں کی چادر ضرور چڑھائے، باقی اس سے جو باتیں ہیں وہ میں یہیں بیٹھے کرلوں گا، مجھے وہاں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی
شہر بانو نے آج پرانے کلیسا کے سامنے آنے کا وعدہ کررکھا ہے پراگ میں سیکنہ علی زیدی نے مجھے آنے کا پابند کیا ہے اور میں نے تخیل کے ہوائی جہاز میں سیٹ بک کررکھی ہے جیسے ہی تاریخ بدلے گی میں وہاں ہوں گا اور اس مرتبہ سیکنہ بھی تھوڑی سی بورژوا ہوگئی ہے اور اس نے شمپئن کا انتظام کررکھا ہے ، ماسکو میں نتاشا ایک سٹریٹ میں نازک خیالوں کو اکٹھا کرنے والی ہے میں وہاں بھی شریک ہوں گا
خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت عرصہ سے سلسلہ کلام بند کردینے والا وقار اسلم بلوچ پھر سے بولنے لگا ہے اور اس کا فون آیا ہے کہ لاہور جاتا ہوا وہ کچھ دیر میں شہر آنے والا ہے رات وہ نہیں ہوگا مگر شام کچھ دیر رکے گا اور میں اس سے کہوں گا کہ
دل یزداں میں جو کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اس کا قصہ پھر سے سنائے
یہ سارے کام آج ہوجانے ہیں مگر ایک اور شخص ہے جس کے پاس جانے اور اس کا سامنا کرنے کا یارا مجھ میں نہیں ہے اور وہ، وہ شخص ہے جس نے مجھے کتابوں سے آشنا کرایا تھا، مجھے موسیقی کی پرکھ بخشی تھی جس کے طفیل میں نے ایذراپاونڈ سے لیکر ڈی ایچ لارنس و آئی اے رچرڈز اور نجانے کس کس بلا کو پڑھا تھا جس نے راگ راگنیوں پر گھنٹوں مرے سامنے باتیں کی تھیں اور فراق و حسن عسکری کی دنیا کی سیر مجھے کرائی تھی اور آج وہ ایک پاگل خانے میں داخل ہے لوگوں نے اس کی مہازھانت و دانش کو پاگل پن قرار دے ڈالا اور اسے پاگل خانے کی اونچی دیواروں کے پیچھے بھیج دیا، آپ کو بتاوں کہ اس کا قصور کیا تھا کہ اس نے مری طرح سے کئی سطحوں پہ جینے سے انکار کیا اور منافقت سے زندگی گزارنے سے انکار کرکے سیدھے سبھاو cruelty کو بیان کیا اور کہا
I can spite on irony
اس کے فیض سے مستفید ہونے والے آج کئی بت بھگوان بنے بیٹھے ہیں اور جو سب سے بڑا بھگوان تھا وہ پاگل خانے پہنچ گیا ہے
نئے سال کے آنے اور پرانے ہو چلے اس سال پر مجھے ایک اور ہستی کو بھی یاد کرنا ہے جس نے پہلی مرتبہ مجھے کہا تھا
حسینی! کہانی لکھا کرو تم میں تخیل کی جولانی ہے اور اگر نہ بھی لکھ پاو تو پھر بھی ہر مضمون کو فکشنلائز کردیا کرو اس سے چاشنی پڑھتی ہے اور بوریت کا خاتمہ ہوجاتا ہے، وہ ھستی نداء بنکر مری کہانیوں میں آکر بیٹھ گئی اور خود کو مجھ سے چھپا لیا، بھلا اپنے چاہنے والوں سے ایسا ظلم بھی کوئی کرتا ہے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر