مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیا سال نئی امیدیں||ظہور دھریجہ

ملتان کیلئے کینسر ہسپتال کا اعلان ہوا مگر ہسپتال تو کیا بننا تھا، نشتر کے کینسر وارڈ میں بھی سہولتیں میسر نہیں۔ بھکر میں میڈیکل کالج کا اعلان ہوا جو اب تک نہ بن سکا۔

رواں سال (2021ئ) نئی امیدوں کے ساتھ شروع ہوا، مگر مایوسیوں کے سائے چھوڑ گیا۔ اس پر ماتم کرنے کی بجائے نیو ایئر نائٹ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، اسی کا نام ذہنی پسماندگی ہے۔ رواں سال کا سب سے المناک حادثہ سانحہ سیالکوٹ تھا۔ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی نے پورے سال میں غریب طبقے کو سر نہیں اُٹھانے دیا۔ آٹے اور چینی کے بعد کھاد کا بحران عذاب کی صورت میں موجود ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سال اغواء برائے تعاون، چوری اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں میں اضافہ اوربھکاریوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کے ساتھ ساتھ خود کشیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا، اس کی وجہ غربت، تنگدستی اور بیروزگاری بتائی گئی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین اور اقلیتوں کو حقوق نہ مل سکے اور طلاق کی شرح میں اضافہ کیساتھ منشیات کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔
اس پر قابو پانے کی بجائے حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر بھنگ کی فیکٹریاں قائم کی جا رہی ہیں۔ اینٹی کرپشن اور نیب اداروں کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود ملک میں کرپشن کی شرح زیادہ رہی اور تو اور صرف پانی چوری پر بھی قابو نہ پایا جا سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ تبدیلی کے نعرے نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف جس مینڈیٹ پر برسراقتدار آئی تھی اُس کا بھرم نہیں رکھا جا سکا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ عمران خان پانچویں سال مہنگائی ختم کر دیں گے۔
’’مخلوق مر جائے گی تو انصاف کرو گے‘‘ کے مصداق، دیکھنا یہ ہے کہ پانچویں سال غریب میں کتنی سکت باقی ہو گی کہ وہ اپنے پائوں پر چل کر پولنگ اسٹیشن تک پہنچے گا اور عمران خان کے بلے کو ووٹ دے گا؟ عمران خان نے وسیب سے سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا، صوبہ تو کیا بننا تھا صوبہ کمیٹی بھی نہ بنائی جا سکی اور نہ ہی صوبہ بنانے کے حوالے سے کوئی کوشش کی گئی۔
تحریک انصاف کے مقامی لوگ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان آنیوالے کل یعنی آخری کے سال صوبہ بنا دیں گے لیکن کل کس نے دیکھی ہے۔ صوبے کے مقابلے میں ’’جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ‘‘ قائم کیا گیا۔ تین سال گزرنے کے باوجود وہ اب بھی بے اختیار ہے۔ سیکرٹریٹ کبھی بھی صوبے کا متبادل نہیں ہوتا۔ دوسرا مذاق یہ کیا گیا کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے آدھا تیتر، آدھا بٹیر بنایا گیا۔ مزید یہ کہ وسیب کے بہت سے اضلاع اس میں شامل نہیں یعنی صوبہ بننے سے پہلے وسیب کو لولہا لنگڑا کرنے کے ساتھ جنوبی پنجاب کے نام سے وسیب کی شناخت کو مسخ کیا گیا ہے۔
وسیب کی ترقی کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے ہوئے، کہا گیا کہ بجٹ اور ملازمتوں کا کوٹہ الگ کر دیا گیا ہے، اب کسی کام کیلئے لاہو رجانے کی ضرورت نہیں، مگر نہ بجٹ الگ ہوا نہ ملازمتوں کا کوٹہ۔ وسیب کے لوگوں کو پہلے لاہو رکے دھکے کھانا پڑتے تھے۔ اب ملتان اور بہاولپور کے دھکے اس کے علاوہ ہیں۔ پہلے تو کام ہوتا نہیں اگر کسی خوش نصیب کا ہوتا بھی ہے تو وہ لاہور سے ہوتا ہے۔
وسیب کے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہوا مگر اسلام آباد کی آبادی ضلع مظفرگڑھ کی آبادی سے نصف ہونے کے باوجود وہاں 33 یونیورسٹیاں ہیں اور مظفرگڑھ میں ایک بھی نہیں۔ راجن پور یونیورسٹی کا اعلان ہوا مگر زمین پر اس کا کوئی وجود نہیں۔ ملتان انجینئرنگ یونیورسٹی سالہاسال سے دھکے کھا رہی ہے جبکہ چک 5 فیض ملتان میں اس کا رقبہ موجود ہے۔ وسیب کو ٹیکسٹائل پر مشتمل ٹیکس فری انڈسٹریل زون کیساتھ ٹیکسٹائل یونیورسٹی کی ضرورت ہے مگر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔
وسیب کے ہر ڈویژن میں انڈسٹریل زون اس لیے ضروری ہے کہ وسیب میں خام مال اور افرادی قوت موجود ہے۔ تھل کے شہر چوبارہ میں ایک انڈسٹریل زون کا اعلان ہوا مگر وہ بھی چیونٹی کی چال چل رہا ہے۔ تحریک انصاف نے برسراقتدار آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وسیب میں نئے ہسپتال بنائے جائیں گے۔ نشتر ٹو ملتان اور شیخ زید ٹو رحیم یار خان کا اعلان ہوا ۔
تین سالوں میں رحیم یار خان کا سنگ بنیاد بھی نہیں رکھا جا سکا۔ ملتان کارڈیالوجی کا توسیع منصوبہ پانچ سال سے دھکے کھا رہا ہے۔ وسیب کے ہر ڈسٹرکٹ اور ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی حالت نا گفتہ با ہے۔ ہسپتالوں میں اسپرین تک دستیاب نہیں۔ ملتان میں قدیم ڈسٹرکٹ ہسپتال کو ختم کیا گیا اور سالہا سال کے مطالبات کے بعد نئے ہسپتال کی عمارت گزشتہ دور میں تعمیر ہوئی۔ وہاں ہسپتال قائم کرنے کی بجائے سرکاری دفاتر قائم کر دیئے گئے ہیں۔
ملتان کیلئے کینسر ہسپتال کا اعلان ہوا مگر ہسپتال تو کیا بننا تھا، نشتر کے کینسر وارڈ میں بھی سہولتیں میسر نہیں۔ بھکر میں میڈیکل کالج کا اعلان ہوا جو اب تک نہ بن سکا۔ وسیب کے تمام اضلاع کے میڈیکل کالجوں کو ملا کر صرف ایک شہر کے برابر تعداد پوری نہیں ہوتی۔ کہا جاتا تھا کہ نوازشریف اور شہباز شریف وسیب کے دشمن تھے، وہ صرف لاہور کو فوکس کرتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ اب برسراقتدار عمران خان اور عثمان بزدار ہیں یا نوازشریف، شہباز شریف؟ موجودہ حکومت کے اعلان کردہ ان منصوبوں کا ذکر کر رہا ہوں جن کی تکمیل نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت نے انڈس ہائی وے کو موٹروے بنانے کا اعلان کیا اسی طرح تھل کے پانچ اضلاع سے گزرنے والی ایم ایم روڈ کو موٹروے بنانے کی بات کی گئی مگر موجودہ بجٹ میں صرف مرمت کیلئے فنڈ مختص ہوئے، اسے سرائیکی میں کہتے ہیں ’’پٹیا پہاڑ نکلیا چوہا، او وی موا‘‘
اسی طرح پورے وسیب میں سڑکوں کی حالت ابتر ہے مگر کوئی توجہ نہیں، خان پور کیڈٹ کالج کی 2 سال پہلے کلاسیں شروع ہونی تھیں اسی طرح ملتان و ڈی جی خان کیڈٹ کالج بھی کاغذوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ وسیب میں نئے اضلاع اور نئے ڈویژن بننے کی ضرورت نصف صدی سے محسوس کی جا رہی ہے۔ شہبازشریف دور میں تھل کو ڈویژن بنانے کی سکیم تیار ہوئی مگر موجودہ دور میں وہ منصوبہ بھی کاغذوں کی نذر ہو گیا۔ تھل ڈویژن کے ساتھ ساتھ چولستان میں بھی ایک نئے ڈویژن کی ضرورت ہے مگر ڈویژن تو کیا بننا تھا ، تھل اور چولستان کے لوگوں کو بنیادی انسانی ضرورتیں بھی میسر نہیں، پینے کا پانی تک دستیاب نہیں۔
لوگ آج بھی پیاس سے مر جاتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت نے چولستان کے بعد تھل میں بھی جیپ ریلیاں شروع کر ا دی ہیں جہاں جیپ ریلیوں کے نام پر عیاشیوں کے اڈے قائم کئے جاتے ہیں۔ ہفتہ بھر بگڑے شہزادوں کی خوب عیاشیاں ہوتی ہیں اور صحرا کے پیاسوں کے حصے میں شراب کی خالی بوتلیں و دیگر خرافات آتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ تھل اور چولستان کو بھی پاکستان سمجھا جائے اور ان علاقوں میں ہر طرح کی ناجائز الاٹمنٹیں و دیگر خرافات ختم کرکے وہاں کے قدیم باشندوں کو بنیادی انسانی سہولتیں میسر کی جائیں تاکہ وسیب کے لوگ آنیوالے نئے سال کو حقیقی امید کی صورت میں دیکھ سکیں۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: