سپریم کورٹ ،ملازمین کی معلومات شہری کو فراہم کرنے کے حکم کے خلاف درخواست پر سماعت
آپکو کیوں معلومات چاہیے؟چیف جسٹس اطہر من اللہ کا درخواست گزار سے استفسار
بطور شہری سپریم کورٹ کے ملازمین کی معلومات چاہئیں، درخواست گزار
کیا وزارت قانون سپریم کورٹ کی کنٹرولنگ وزارت ہے?چیف جسٹس اطہر من اللہ
نہیں، کنٹرولنگ وزارت نہیں بلکہ متعلقہ وزارت ہے، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان
سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ادارے متاثرہ فریق نہیں ہو سکتے، چیف جسٹس
وزارت قانون اعلیٰ عدلیہ کے نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے اس لیے متعلقہ وزارت ہے، اٹارنی جنرل
کیا وزارت قانون نے سپریم کورٹ کی اجازت سے یہ درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ کا مطلب سپریم کورٹ ہے،
کیا فل بینچ نے اسکی اجازت دی؟ چیف جسٹس
رجسٹرار سپریم کورٹ سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ انہوں نے اجازت لی یا نہیں، اٹارنی جنرل
سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ادارے متاثرہ فریق نہیں ہو سکتے، چیف جسٹس
وزارت قانون اعلیٰ عدلیہ کے نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے اس لیے متعلقہ وزارت ہے، اٹارنی جنرل
کیا وزارت قانون نے سپریم کورٹ کی اجازت سے یہ درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ کا مطلب سپریم کورٹ ہے، کیا فل بینچ نے اسکی اجازت دی؟ چیف جسٹس
رجسٹرار سپریم کورٹ سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ انہوں نے اجازت لی یا نہیں، اٹارنی جنرل
انفارمیشن کمیشن نے فیصلہ دیا
اور رجسٹرار سپریم کورٹ متاثرہ فریق تھے، اٹارنی جنرل
پہلے یہ فرق سمجھ لیں کہ رجسٹرار سپریم کورٹ، سپریم کورٹ نہیں ہے، چیف جسٹس
اس ہائیکورٹ میں غیرقانونی بھرتیاں ہوئیں اور ہم نے انکے خلاف کارروائی کی، چیف جسٹس
کیا
ان بھرتیوں کا ذمہ دار رجسٹرار آفس ہو گا یا تمام ججز ذمہ دار ہونگے؟ چیف جسٹس
کوئی ریاستی ادارہ متاثرہ نہیں ہو سکتا رجسٹرار متاثرہ ہو سکتا ہے، چیف جسٹس
شہری نے سپریم کورٹ کی نہیں رجسٹرار آفس سے متعلق معلومات مانگی ہیں، چیف جسٹس
اس ہائیکورٹ نے رجسٹرار کو پرنسپل اکاؤنٹنٹ افسر مقرر کیا ، اور تمام چیزیں وہ دیکھتے ہیں، چیف جسٹس
شہری نے رجسٹرار آفس سے نہیں بلکہ سپریم کورٹ سے متعلق معلومات مانگی ہیں، اٹارنی جنرل
کیا اس ہائیکورٹ کا رجسٹرار ہائیکورٹ ہو سکتا ہے؟چیف جسٹس کا استفسار
ہائیکورٹ تو اس ہائیکورٹ کے ججز ہیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس
اس عدالت نے رجسٹرار کو پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر بنایا ہے کیونکہ کل آڈٹ ہو سکے، چیف جسٹس
رجسٹرار کی ذمہ داری بھی ہو گی تو کل احتساب بھی ہو سکے گا، چیف جسٹس
چیف جسٹس کسی بھرتی میں تو شامل نہیں ہو گا، چیف جسٹس اطہر من اللہ
اس شہری کے تو رجسٹرار سپریم کورٹ آفس سے متعلق معلومات مانگی ہیں، چیف جسٹس
آئینی عدالتوں سے متعلق معلومات قانون کے مطابق فراہم نہیں کی جا سکتیں، اٹارنی جنرل
یہ قانون معلومات کی فراہمی کے قانون سے متصادم کیسے ہو سکتا ہے، چیف جسٹس کا استفسار
قانون بنانے والوں اگر آئینی عدالتوں کو اس سے باہر رکھا ہے تو کیا غلط ہے، اٹارنی جنرل
اگر یہ عدالت وفاقی قانون کے تحت بنائی گئی ہو تو پارلیمنٹ کل تہس نہس کر دیگی، اٹارنی جنرل
نہیں نہیں، کوئی ایسا نہیں کر سکتا، چیف جسٹس اطہر من اللہ
آپ تک پہنچنے کیلئے کسی کو میرے اوپر سے گزرنا پڑیگا، اٹارنی جنرل
نہیں نہیں، ہم آپکو بیچ میں نہیں ڈالیں گے، چیف جسٹس اطہر من اللہ
سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور یہ ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں، اٹارنی جنرل
آئینی عدالتوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں، اٹارنی جنرل
یہ عدالت اگر فیصلہ دیتی ہے تو اسکے خلاف اپیل کہاں دائر ہو گی، چیف جسٹس کا استفسار
سپریم کورٹ تو خود درخواست گزار ہے وہ اپیل کیسے سن سکتے ہیں، چیف جسٹس
چھپانے کیلئے کچھ نہیں، عوام تک معلومات کیوں نہیں پہنچنی چاہیے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں ایسا کچھ نہیں جو چھپایا جائے، اٹارنی جنرل
آئینی عدالت کی معلومات کی فراہمی قانون کے مطابق نہیں کی جا سکتی، اٹارنی جنرل
آرٹیکل 19 کہاں روکتا ہے کہ آئینی اداروں کی معلومات نہیں فراہم کی جائے گی، چیف جسٹس
آرٹیکل 19 میں مناسب پابندیوں کا بھی ذکر ہے. اور یہ معلومات اس میں آتی ہے، اٹارنی جنرل
رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون کی درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
میں رجسٹرار سپریم کورٹ کی نمائندگی نہیں بلکہ عدالت کے نوٹس پر آیا ہوں، اٹارنی جنرل
آئین اور دیگر قانون دونوں ہی پارلیمنٹ بناتی ہے، درخواست گزار
باقی دنیا میں کیا پریکٹیس ہے ؟ چیف جسٹس کا درخواست گزار شہری سے استفسار
بھارت میں کیس پر جو فیصلہ ہوا تھا اس کی کاپی بھی عدالت دیں، چیف جسٹس کی ہدایت
کمیشن نے کورٹ کے بارے میں ایک آرڈر پاس کیا جسے چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، چیف جسٹس
اس عدالت نے رجسٹرار کو کہا کہ معلومات فراہم کی جائیں، چیف جسٹس اطہر من اللہ
مشکل یہ ہے کہ آپ اس عدالت کے پاس آئے ہیں کہ معلومات نہیں دینا چاہتے، چیف جسٹس
پاکستان میں پانچ ہائی کورٹس ہیں، یہ معاملہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اٹارنی جنرل
جب ججز کی تنخواہ قانون کے مطابق ہے تو کوئی بھی شہری اسکی معلومات لے سکتا ہے، چیف جسٹس
اگر اس متعلق قانون کی تشریح ہو جائے تو پھر ہو سکتا ہے، اٹارنی جنرل آف پاکستان
انفارمیشن کمیشن نے جو فیصلہ دیا وہ اس کا اختیار نہیں تھا، اٹارنی جنرل
جو معلومات مانگی گئی اس میں ایسا کچھ نہیں تھا جو چھپایا جاتا، اٹارنی جنرل
تو پھر معلومات دے دینی چاہیے تھی، چیف جسٹس اطہر من اللہ
اگر میں رجسٹرار ہوتا تو شاید معلومات دے دیتا، اٹارنی جنرل
آپ رجسٹرار سے معلومات لے کر شہری کو دیدیں، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ
شہری کو یہ نہیں لگنا چاہیے کہ اس سے کچھ چھپایا جا رہا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ شہری کا عدالت پر اعتماد سب سے زیادہ اہم ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ