نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کھانا اتنا منگوائیں جتنا کھا سکیں||حسنین جمال

جائیں اپنے فریج کا دروازہ کھولیں اور حساب لگائیں کہ جو بچے ہوئے کھانے پڑے ہیں وہ کہاں کہاں سے اور کب آئے تھے؟ وہ جب تک ختم نہیں ہوتے یا کسی کے پیٹ میں نہیں جاتے، تب تک اگلا کھانا باہر سے نہ منگوائیں یا جا کے مت کھائیں۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاد کریں آپ کبھی فیملی کے ساتھ ہوٹل گئے ہوں اور کھانا پورا ختم کرکے اٹھے ہوں؟

ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ہم لوگ جب بھی آرڈر کرتے ہیں تو پیچھے کہیں دماغ میں گھوم رہا ہوتا ہے کہ ’تھوڑا نہ پڑ جائے۔‘

شادی کی تقریب سے لے کے میت والے گھر تک کھانے میں بوٹیاں تھوڑی پڑنے کی فکر ہر ایک سنگل بندے کو ہوتی ہے۔

ہوٹل میں یا کسی بھی جگہ پر کھانا بندہ کتنا کھا سکتا ہے؟ دو تین روٹی یا وہی ایک دو سرونگز؟ تو اتنا ڈھیر سارا پھر منگایا کیوں جاتا ہے؟ مہمان پہ رعب ڈالنے کے لیے یا مہمان نوازی کے چکر میں؟

مہمان نوازی تو یہ ہے کہ آپ خود ہر ایک چیز پیش کریں، ان کے پانی والے گلاس اور روٹی چاول پہ نظر رکھیں، کم ہونے لگے تو بڑھ کے مزید کچھ ڈال دیں لیکن کھانوں کے مینار کھڑے کر دینا کہاں کی مہمان نوازی ہے؟ یہ ہمارا کلچر ہے! ’کھانا تھوڑا نہ پڑ جائے‘، یہ ہماری صدیوں کی بھوک ہے!

فاسٹ فوڈ ٹائپ مغربی کھانوں میں کیلکولیشن آسان ہوتی ہے۔ سینڈوچ، برگر، پیزا، بروسٹ، سٹیک قسم کی چیزیں آپ آسانی سے حساب لگا لیتے ہیں کہ فلاں بندہ ایک کھائے گا، وہ بہت بھوکا ہے تو وہ دو کھا لے گا اور یوں جمع تفریق کے بعد آرڈر ہو جاتا ہے جو اکثر پورا پڑتا ہے۔

سالن، روٹی، چاول، کڑاہی، قورمہ، کوفتے، زردہ، مغز ۔۔۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ میزبان حساب نہیں لگا سکتا۔ ذائقے پہ بات مُکتی ہے اور اسی کے ساتھ کھانے والے کے موڈ پر۔ عام حالات میں ایک انڈہ شامی برگر کھا کے چھ گھنٹے گزارنے والا بندہ جب کڑاہی گوشت یا مغز کے شوق میں بیٹھے گا تو کلو کڑاہی اکیلے کھا سکتا ہے اور روٹیوں کا بھی یہی حساب ہو گا۔

دوسرا پھر ایک سب سے اہم مسئلہ ناک کا ہے۔ میں نے چار بندے جمع کیے، انہیں کھانے پہ لے گیا، اب اگر میں کہوں گا کہ یار دو کلو کڑاہی گوشت لے آؤ تو سارے مجھے شوم سمجھیں گے۔ میں ساتھ بار بی کیو پلیٹر بھی منگاؤں گا،  فروٹ سیلڈ بھی اور ایک آدھی سجی بھی۔ سوال یہ ہے کہ جب مجھے پتہ ہے کہ وہ دو کلو کڑاہی ان چار بندوں نے آرام سے کھا لینی ہے تو میں کیوں اس طرح آرڈر نہیں کرتا کہ کھانا بچے نہ؟

کیا ایک کلو کڑاہی، ہاف سجی اور چھ سیخ کباب چار نارمل بندوں کے لیے کافی نہیں ہوں گے؟

پاکستان میں پتہ ہے سالانہ کتنی خوراک ضائع ہوتی ہے؟ چھتیس ملین ٹن! اسے کلوگرام میں جب کنورٹ کریں گے تو بس اتنا یاد رکھیں کہ ایک ٹن میں  تقریباً ہزار کلو گرام ہوتے ہیں اور ایک ملین کا مطلب ہے دس لاکھ!

اس چھتیس ملین ٹن کا چالیس فیصد حصہ آپ کی شادیاں، ہوٹل اور پارٹیاں ہیں۔

وہ ملک جہاں تینتالیس فیصد لوگ جب ایک رات کو سوئیں تو اگلی صبح روٹی کا انہیں آسرا نہ ہو اور اٹھارہ فیصد باقاعدہ غذائی قلت کا شکار ہوں، وہاں آپ کے حلق سے کھانا اتر کیسے سکتا ہے کجا آپ اس تعداد میں اسے ضائع کریں اور سوچیں کہ ’تھوڑا نہ پڑ جائے؟‘

رکیں تو، یہ مت سمجھیں کہ ضائع کرنے والوں میں آپ شامل نہیں۔ جو بندہ موبائل پر یہ تحریر دیکھ رہا ہے یا سن رہا ہے، کیا اس نے کبھی ہوٹلوں میں جا کے کھانا نہیں کھایا ہو گا یا گھر میں شادیاں نہیں بھگتائی ہوں گی؟

اس کا سادہ ترین حل پتہ ہے کیا ہے؟ جائیں اپنے فریج کا دروازہ کھولیں اور حساب لگائیں کہ جو بچے ہوئے کھانے پڑے ہیں وہ کہاں کہاں سے اور کب آئے تھے؟ وہ جب تک ختم نہیں ہوتے یا کسی کے پیٹ میں نہیں جاتے، تب تک اگلا کھانا باہر سے نہ منگوائیں یا جا کے مت کھائیں۔

ڈیپ فریزروں والے تو اور بادشاہ ہیں۔ یار سالوں پرانی بوٹیاں جو تہہ میں شاپر سمیت رکھی ہیں، وہ اسی وقت کسی کو کھانے کے لیے کیوں نہیں دے دیں؟ وہ جو کالے ہوئے کیلے فریز کر رکھے ہیں، دہی تک برف بنایا ہوا ہے، جو چھ مہینے بعد صفائی میں ضائع ہو جائے گا، کیوں کیا ایسا؟ کل کیا جنگ چھڑ جانی ہے؟ دہی نہیں ملنا، گوشت نہیں ملے گا یا کیلے بند ہو جائیں گے؟

چھوٹے فریج لیں، ڈیپ فریزر لینا چھوڑ دیں۔ جتنا ضرورت ہے اتنا پکائیں۔ اگلے دن کا آسرا مالک پہ چھوڑنا سیکھیں یا اتنا حساب لگائیں کہ ضرورت سے زیادہ مت پکے۔

کس چیز کا خوف ہے؟ فریزر گوشت سے بھرے ہیں، فریج کا نیچے والا خانہ تُن کے پھلوں سے فُل کیا ہوا ہے، مصالحے کتنے ایسے ہیں جو ایکسپائر ہو کے نکلتے ہیں کچن سے، آٹا ہر چوتھے دن خمیرا ہوتا ہے، پانچ دن کا باسی کھانا گھریلو ملازموں کو آخر کیوں عنایت فرماتے ہیں، پہلے دن کیوں نہیں دے دیتے؟

آپ کے دماغ میں ہو گا کہ ’یہ میں تو نہیں ہوں‘، جائیں، فریج چیک کریں کیا حالات ہیں!

گھر سے شروع ہو گا تو باہر کے معاملے خود ٹھیک ہوں گے۔ یار شادیوں میں اگر لنچ باکس فی بندے کے حساب سے بنا دیں، یا ایک بندے کی سرونگ الگ سے ہو جائے تو بھلے ویٹروں کی بھاگ دوڑ زیادہ ہو جائے گی لیکن کھانا اس بے دردی سے تو نہیں بچے گا۔

اب آپ کے دماغ میں ہو گا کہ ہم نے تو بیٹے کی شادی میں راتوں رات بچا ہوا کھانا آس پاس کے گھروں میں بھیج دیا تھا۔ اوکے۔ وہ بھی تو بھرے پیٹ اور بھرے فریزروں والے لوگ ہیں۔ کسی بھوکے کو بھیجا تھا کھانا آپ نے؟

ایک ایسے ملک میں جہاں آدھی آبادی کا مسئلہ روٹی ہے وہاں اگر کھانا ضائع ہوتا ہے تو یار قصور کس کا ہے؟ کسی حکومت کا نہیں۔ آپ کا اور میرا! قسم خدا کی ہم لوگ اور ہمارے والدین اور ان کے ماں باپ، ہم سب ذمے دار ہیں!

اس کا واحد حل آرڈر کرنے میں احتیاط اور فریج بھرنے میں دھیان کرنا ہے۔

یار اُسی وقت بچا ہوا کھانا پیک کرائیں ہوٹل سے اور باہر ہی سڑک کنارے بیٹھے فقیروں میں بانٹ آئیں۔ گھر میں بیس روپے والا ڈسپوزیبل پلاسٹک کا ڈبہ رکھیں، جو سالن بچے وقتی سنبھالیں، دو تین دن میں یا ختم کریں یا آگے چلا دیں۔ گھر کا ہر بندہ فریج نہ بھرنے کو اپنی ذاتی ذمے داری سمجھے تو کتنا کھانا ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے، سوچ ہے آپ کی!

میں سو طرح کے ماحولیاتی پیغام دے سکتا ہوں، بچت کا راگ کھڑکا سکتا ہوں، کم کھائیں گے تو صحت اچھی رہے گی، ایسی باتیں کر سکتا ہوں لیکن نہیں بھائی۔ صرف دوسروں کے لیے کھانا ضائع مت کریں۔ جو کھانا کسی کو ڈسٹ بن یا کچرے کے ڈھیر سے ملے وہ آپ کے ہاتھوں کیوں نہ مل جائے؟

ہلکے پیٹ اور خالی فریج کے ساتھ رہنا سیکھیں، زندگی میں اور بہت کچھ ہے کرنے کے لیے!

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author