نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وقت کا قاضی شریح ڈائس پہ کھلے عام جھوٹ بول رہا تھا||عامر حسینی

نواز شریف کی حامی عسکری اسٹبلشمنٹ لابی کیانی کی رخصتی کے بعد جنرل راحیل شریف کے زمانے میں کمزور پڑنا شروع ہوئی اور جنرل باوجوہ کے آتے آتے وہ مخالف اسٹبلشمنٹ لابی کے سامنے مغلوب ہوگئی -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت کا قاضی شریح ڈائس پہ کھلے عام جھوٹ بول رہا تھا –
وہ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقد ریفرنس میں یہ جھوٹ اس لیے بھی بول رہا تھا کیونکہ اسے علم تھا کہ وہاں ریفرنس میں زیادہ تر لبرل اشراف وہ تھے جو پی پی پی کی 2008 سے 2013 تک کے دور حکومت میں تو جمہوریت کے خلاف افتخار چودھری کے نام نہاد آزاد ججوں کے گُن گاتے رہے، میمو گیٹ کیس سے لیکر سوئس عدالت کو خط لکھنے والے کیس تک وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے اور مداخلت کاروں کو مضبوط بنانے کی حمایت کرتے رہے – لیکن جب یہ مداخلت نواز شریف کے خلاف ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ اب کہ عدلیہ کو گالیاں بھی دی جارہی ہیں، جرنیلوں کو بھی للکارا جارہا ہے، حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں کے ضمیر بھی جاگ رہے ہیں……. پاکستان کے درمیانے طبقے کے پروفیشنلز خاص طور پہ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت نے ضیاء آمریت کے دوران اور پھر نوے کی دہائی سے لیکر ابتک بدترین موقعہ پرستی کا مظاہرہ کیا اور ان میں لبرل کا کمرشل ازم سب حدیں پار کرگیا –
سن 2008ء سے 2013ء تک پی پی پی کی حکومت کے خلاف قاضی "سوموٹو” ہتھیار سے وار کرتے رہے، کیری لوگر بل، آئی ایس آئی کو وزرات داخلہ کے ماتحت کرنے کا نوٹیفیکشن، میمو گیٹ کیس، سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے کا معاملہ، سیکرٹری دفاع کی تبدیلی چند ایسے معاملات ہیں جن پہ آج جو نواز شریف کے ساتھ وکلاء، سابق جج، انسانی حقوق کے اشراف رہنما اور میڈیا اشراف کھڑے ہیں وہ جمہوری پارلیمانی پروسس میں اس طرح کی عدالتی مداخلت کی حمایت کرتے رہے اور ان میں سے ایک نے بھی اپنے کردار پہ شرمندگی کا اظہار نہیں کیا-
اُس زمانے میں نواز شریف-کیانی – افتخار چودھری کی تگڈم کو آج کے نواز شریف کیمپ میں شامل صحافی/اینکر/تجزیہ نگار/کالم نگار/رپورٹر، وکیل/سابق جج یا بیوروکریٹ، انسانی حقوق کے اشراف زادے اور زادیاں کسی نے جمہوریت کے خلاف سازش قرار نہیں دیا، ووٹ کی توھین قرار نہیں دیا – بلکہ ان سب نے مل کر پی پی پی، آصف علی زرداری کو ولن /قصوروار ٹھہرایا
آج بھی ان کرداروں کا کردار مختلف نہیں ہے – یہ نہ عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں نہ جمہوریت کی بالادستی کی، نہ صحافت کی آزادی کی اور نہ ہی انسانی حقوق کے احترام کی بلکہ ان سب نعروں کو انھوں نے اپنے مربی نواز خاندان کے مفادات کے تابع کررکھا ہے –
ابھی وکلا انتخابات میں عاصمہ جہانگیر گروپ نے سابق پی سی او مشرف نواز جج احسن بھون کو کامیاب کرایا اور پی پی پی کے امیوار لطیف کھوسہ نے افتخار چودھری کے سب سے بڑے حمایتی اور پی پی پی کے دشمن حامد گروپ کے ساتھ اتحاد بنالیا اگرچہ ہار پھر بھی کھوسہ کا مقدر ٹھہری –
یہ درمیانے طبقے کی بالائی اشرافیہ پرت بہت بے اصول اور انتہا کی موقعہ پرست ہے کے اکثر نظریات کے نعرے کھوکھلے ہوتے ہیں
جسٹس فائز عیسی ٹکا اقبال کیس میں افتخار چوہدری کے فیصلے کو تاریخی قرار دے رہے تھے لیکن یہ بھول گئے کہ عدالتوں کے مارشل لاؤں کے جواز میں دیے گئے سابقہ تمام فیصلوں کو "غیر آئینی” قرار دیتے ہوئے انھوں نے خود جو جنرل مشرف کے دور میں پی سی او پہ حلف اٹھایا تھا اور پھر جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم تک کا حق دیا تھا اُس پہ اظہار شرمندگی نہیں کیا نہ ہی عوام سے معافی مانگی اور نہ ہی دوسرے پی سی او ججز کے آنے سے پہلے لی جانے والی مراعات واپس کیں…….
افتخار چوہدری کی عدلیہ بحالی کی تحریک اصل میں مشرف کے پی سی او ون کا حلف اٹھانے والوں کی بحالی کی تحریک تھی جس کے پیچھے نواز شریف کی حمایت کرنے والا اسٹبلشمنٹ کا ٹولہ تھا جس کی قیادت جنرل کیانی کررہے تھے جو اس تحریک کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف بننے میں کامیاب رہے، اور پھر چیف آف آرمی اسٹاف اور افتخار چویدری کی قیادت میں عسکری اسٹبلشمنٹ اور عدالتی اسٹبلشمنٹ کے نواز شریف کے حامی ٹولوں نے آر اوز کی مدد سے نواز شریف کو دوبارہ وزیراعظم بنایا…… اگر کیانی چیف آف آرمی اسٹاف نہ بن پاتے اور مشرف حامی لابی کا کوئی جرنیل چیف آف آرمی اسٹاف بنتا تو نہ افتخار چوہدری بحال ہوتا اور نہ ہی نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنے کا موقعہ ملتا-
مشرف مخالف اسٹبلشمنٹ لابی اور نواز شریف نے ایک طرف تو میڈیا گروپوں اور ان میں کام کرنے والے اشراف صحافیوں کو خریدنے کا انتظام کیا، اسی نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور بار میں موثر گروپوں کے لوگوں کو خرید کیا- اور یہی وہ گروہ تھے جنھوں نے منظم ہوکر پی پی پی کی حکومت کے لیے بے پناہ مشکلات کھڑی کیں اور پھر نواَ شریف کو لانے کا انتظام کیا –
نواز شریف کی حامی عسکری اسٹبلشمنٹ لابی کیانی کی رخصتی کے بعد جنرل راحیل شریف کے زمانے میں کمزور پڑنا شروع ہوئی اور جنرل باوجوہ کے آتے آتے وہ مخالف اسٹبلشمنٹ لابی کے سامنے مغلوب ہوگئی –
نواز شریف کیمپ اسٹبلشمنٹ کے غالب اور مداخلت کار کردار کا خاتمہ نہیں چاہتا بلکہ وہ تو ایسے مداخلت کار چاہتا ہے جو ہر صورت میں اقتدار مکمل طور پہ نواز کیمپ کی جھولی میں ڈالنے کے لیے اقدامات اٹھائیں، اگر جج ہوں تو ایسے جو نواز لیگ کے سیاسی حریفوں کی بنیڈ بجادیں، اگر پولیس، ریونیو، انکم ٹیکس، رینجرز، ایف آئی اے کے سول بابو ہوں تو وہ نواز لیگ کے خلاف پنجاب میں الیکشن لڑنے والوں، اُن کے مقابلے میں آنے والے سیاسی کارکنوں کو نیست نابود کردیں….. قلم کار ہوں تو بس اُن کے قیصدے لکھیں اور مخالفوں کا سچا جھوٹا ٹرائل جاری رکھیں، فی الحال نواز کیمپ کے جج، ودردی بے وردی بابو مغلوب ہیں تو یہ سب جمہوریت، آئین، ووٹ سب کے احترام کے چمپیئن بنے ہوئے ہیں اور ان کی پروجیکشن کے لیے نواز شریف کا حامی میڈیا و سوشل میڈیا موجود ہے-
واجد شمس الحسن سمیت پی پی پی کے تین اہم مرکزی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لندن میں ہوئے ایک اجلاس میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اعتزاز احسن کو کہا تھا کہ کیا انھیں معلوم ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک کے پیچھے نواز شریف کا پیسہ اور عسکری اسٹبلشمنٹ کے ایک ٹولے کا اثر و رسوخ کارفرما ہے؟ واجد شمس الحسن کا کہنا تھا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ جملے اُس وقت کہے تھے جب چودھری اعتزاز احسن نے آنے والے انتخابات میں خود حصہ لینے سے انکار کیا جبکہ بی بی شہید انھیں الیکشن لڑنے کا کہہ رہی تھیں-
پی پی پی کی قیادت چاہتی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ نواز میثاقِ جمہوریت کی روشنی میں کسی پی سی او جج کو بحال نہ کرے بلکہ عدالتی اصلاحات پہ مشتمل ترمیمی شقوں کا بل لیکر آئے اور نئے ججز کا تقرر ہو، وفاقی آئینی عدالت کا الگ سے قیام ہو-
لیکن ہوا وہی جس کا خدشہ پہلے شہید بے نظیر بھٹو نے ظاہر کیا تھا –
میاں محمد نواز شریف اور اُن کے اتحادی، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں اسٹبلشمنٹ کا غالب گروہ "پی سی ون” اٹھانے والے ججز کی بحالی پہ "اَڑ” گیا- نادیدہ قوتوں کے اشارے پہ لانگ مارچ کیا گیا اور پھر کیانی نے دباؤ ڈالا، بقول یوسف رضا اگر ججز بحال نہ کرتے تو اگلے دن حکومت چلی جانی تھی –
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم آج پھر یہ باتیں کیوں کررہے ہیں؟
ہم آج پھر یہ باتیں اس لیے کررہے ہیں کہ ہمیں مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد نواَز شریف، مرکزی نائب صدر مریم نواز اور مرکزی صدر میاں شہباز شریف اب بھی عسکری اور عدالتی اسٹبلشمنٹ میں اپنے حامی ٹولے کے غلبے کی کوشش میں ہیں –
جیسے سابق جسٹس عزیز صدیقی، جسٹس فائز عیسی، سابق جسٹس شمیم کے معاملے میں ان کا کردار سامنے آیا ہے اور ایسے ہی جیسے حال ہی میں فوج اور آئی ایس آئی میں تقرریوں کے معاملے پہ جیسے باجوہ اور ندیم انجم کی سائیڈ لینے کی کوشش کی گئی –
ہمیں صاف لگتا ہے کہ میاں برادران اب بھی اپنے سلطنت شریفیہ کے راج کی بحالی چاہتے ہیں وہ اپنے ذاتی وفاداروں کو عدلیہ، فوج اور انتظامیہ میں دیکھنے کے جواہش مند ہیں ناکہ وہ ان اداروں کو آئین کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author