مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریڈیو پاکستان ملتان کی 51ویں سالگرہ||ظہور دھریجہ

ریڈیو ملتان کے معروف پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ نے عالمگیر شہرت حاصل کی اور عظیم خدمات کے اعتراف میں ریڈیو پاکستان ملتان کے دو سٹوڈیوز پرائیڈ آف پرفارمنس گلوکارہ ثریا ملتانی اور عالمی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر شمشیر حیدر ہاشمی کے نام منسوب کئے گئے ہیں۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ روز ریڈیوپاکستان ملتان جانا ہوا، اکادمی ادبیات پاکستان نے مشاعرے کا اہتمام کیا ہواتھا، اس موقع پر ریڈیو پاکستان ملتان کے اسٹیشن ڈائریکٹر آصف خان کھیتران سے ملاقات ہوئی ، وہ سالگرہ کی تیاری میں مصروف نظر آئے، انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ریڈیو پاکستان ملتان کی گولڈن جوبلی تھی ، اس سال 51ویں سالگرہ ہے،
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریڈیو پاکستان ملتان نے بہترین خدمات پر بہت سے اعزازات اور قومی ایوارڈز حاصل کئے اور وسیب کے ٹیلنٹ کو اجاگر کیا۔ ریڈیو ملتان سے پٹھانے خان، ناہید اختر، منصور ملنگی، جمیل پروانہ، نصیر مستانہ، نگینہ نرگس، نسیم اختر، امبر آفتاب ، اقبال بانو، سہیل اصغر ، شمشیر حیدر ہاشمی ، قیصر نقوی ، سمیت سینکڑوں لوگ ریڈیو پاکستان ملتان سے وابستہ رہے۔
ریڈیو ملتان کے معروف پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ نے عالمگیر شہرت حاصل کی اور عظیم خدمات کے اعتراف میں ریڈیو پاکستان ملتان کے دو سٹوڈیوز پرائیڈ آف پرفارمنس گلوکارہ ثریا ملتانی اور عالمی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر شمشیر حیدر ہاشمی کے نام منسوب کئے گئے ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے مسائل توجہ کے متقاضی ہیں،اس وقت خوش قسمتی سے ڈی جی عاصم کھچی کا تعلق وسیب سے ہے ، وزارت اطلاعات کے بے لوث اور باصلاحیت افسران میں ان کا شمار ہوتا ہے، تعیناتی کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان کے مسائل کی طرف توجہ دی ہے اور کچھ مسئلے حل بھی ہوئے ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین کی پروموشن اور دیگر مسائل کو انہوں نے حل کیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار کے مراکز کے قریب ہونے کے باعث ریڈیو پاکستان اسلام آباد اور ریڈیو پاکستان لاہور کے مسائل حل ہوتے رہتے ہیں مگر وسیب کا کوئی پرسان حال نہیں، وسیب سے منتخب ہونے والے لوگ حق نمائندگی ادا نہیں کرتے ، اسی بنا پر ڈائریکٹر جنرل پر ذمہ داری کا بوجھ بڑھ گیا ہے ، ریڈیو کے بڑے مسائل وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی خصوصی توجہ سے حل ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پی ٹی وی اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ ہر بجلی بل کے ساتھ 35 روپے ٹی وی ٹیکس افسران کے اللوں تللوں کے لیے بھتہ ہے، یہ رقم ریڈیو پاکستان کو ملنی چاہئے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی کے دور میں ڈیرہ غازیخان، لیہ، بہاولنگر، رحیم یار خان، وہاڑی، جھنگ ، بھکراور راجن پور میں ایف ایم ریڈیو قائم کرنے کا منصوبہ بنا تھا،جس پر عملدرآمد نہ ہو سکا، آج بھی اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ ریڈیو اپنے منفرد تفریحی، معلوماتی، خبروں اور تبصروں کے پروگراموں کے لیے آج بھی بہت مقبول ہے۔ دنیا میں جدید ٹیکنالوجی جس میں ٹیلیویژن، ڈش انٹینا، موبائیل فون،انٹرنیٹ اور ریڈیو کی مختلف ایپس آنے کے بعد ان کو فریکیونسی ریڈیو کی بقا کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانے لگا تھا اور یہ گمان کیا جارہا تھا کہ شاید اب ریڈیو ماضی کا ایک حصہ بن جائے گا اور اس کے سننے والے جو بہت متحرک ہیں وہ بھی تیزی سے بدلتی اس صورت حال میں مایوسی کا شکار تھے۔
تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ریڈیو سننے کے آلات میں ضرور تبدیلی آئی، ریڈیو نے اپنی شکل تبدیل کرتے ہوئے نئے ٹیکنالوجی کے دور میں خود کو تبدیل کیا لیکن اپنا نام تبدیل نہیں ہونے دیا۔ پہلے ٹرانسسٹر پر ریڈیو سنا جاتا تھا،پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شکل تبدیل ہوتی چلی گئی ، میڈیم وویو، شارٹ وویو اور پھر ایف ایم نشریات کا آغاز ہوا۔ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے پروگرام آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔
لوگ اب بھی ریڈیو پاکستان ملتان سے نشر ہونے والے پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں،1998ء میں ہم خوشاب کے صحرا تھل میں گئے ، مردم شماری ہو رہی تھی تو ہم نے وہاں کے ایک تھلوچی سے پوچھا کہ آپ نے مردم شماری میں کیا لکھوایا ہے تو اس نے سادگی سے جواب دیا کہ ہماری زبان تو ریڈیو پاکستان ملتان سے نشر ہونے والے پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ والی ہے مگر مردم شماری عملہ والوں نے ہمیں پنجابی لکھا ہے۔
یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ حکمران ریڈیو پاکستان ملتان کے مسئلے حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ ریڈیو پاکستان ملتان سے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی خواہش پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بلوچی سروس شروع کرائی ۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا اپنا ایک ضابطہ ہے ، اسی ضابطے کے تحت پورے ملک میں پروگرام کے اوقات ترتیب دیئے ہوئے ہیں ، اس ضابطے کے تحت ہر اسٹیشن 60 فیصد مقامی اور 40 فیصد قومی زبان میں پروگرام نشر کرتا ہے ۔
ریڈیو پاکستان کی اہمیت کے حوالے سے عرض کروں گا کہ 1992ء میں عالمی سرائیکی کانفرنس کے سلسلے میں جب ہم دہلی گئے، تو وہاں کثیر تعداد میں وہ لوگ موجود تھے جو تقسیم کے وقت وسیب سے بھارت چلے گئے تھے تو ان میں سے سب نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان ملتان واحد ذریعہ ہے جس سے ہم سرائیکی پروگرام سنتے ہیں اور سرائیکی موسیقی سنتے ہیں، جس سے ہماری اپنی ماں بولی سے محبت کی پیاس بجھتی ہے۔
سالگرہ کے موقع پر اس بات کا بھی اظہار ہوا کہ شعر وادب کے حوالے سے بھی ریڈیو پاکستان ملتان کی بہت خدمات ہیں،سید حسن رضا گردیزی، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ڈاکٹر طاہر تونسوی، پروفیسر شوکت مغل، حسین سحر، آسی کرنالی، انور جمال، ڈاکٹر اسلم انصاری، ارشد ملتانی، ارشد صدیقی، اللہ بخش یاد، ملک اقبال حسن بپھلا، حبیب فائق، امید ملتانی، خادم ملک ملتانی، حیدر گردیزی، ایم بی اشرف، مظہر کلیم ،مسیح اللہ خان جام پوری ، اکبر ہاشمی و دیگر سینکڑوں افراد نے ریڈیو پاکستان ملتان میں خدمات سر انجام دیں اور نام کمایا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ریڈیو ملتان بلکہ پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں کی حالت زار پر توجہ دی جائے کہ یہ پاکستان کا قومی ادارہ ہے اور دفاعی نقطہ نظر سے بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: