اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسلم سماجی شناختیں، نوآبادیاتی دور اور مابعد نوآبادیاتی دور||عامر حسینی

اس طرح کے بشریاتی اور سماجیاتی مطالعے کی روایات ہماری جامعات میں رائج ہی نہیں ہیں اور جو خود کو روشن خیال اور ترقی پسند ماہر عمرانیات کہتے ہیں وہ بھی نوآبادیاتی سماجیاتی شناختوں بارے کوئی پیش رفت نہیں کرپائے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سن سندھ میں سندھی نیشنل ازم کے باوا جی ایم سید کا آبائی گاؤں ہے۔ یہاں پر جی ایم سید اور ان کے آباؤ اجداد کی قبریں ہیں۔ جس قبرستان میں جی ایم سید اور ان کے بزرگوں اور آل اولاد کی قبریں ہیں وہیں پر اس گاؤں میں بہت بڑی تعداد میں آباد ملاح برادری کی قبریں بھی ہیں۔ ملاح برادری دریاؤں اور سمندروں سے اپنی روزی روٹی پیدا کرتی آئی اگرچہ تعلیم اور محنت مزدوری کے لیے ان کی برادری کے لوگوں میں اب ہر ایک پیشے سے جڑے گروہ مل جاتے ہیں۔
سن کے قبرستان میں گزشتہ دنوں ایک واقعہ ہوا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جی ایم سید کے ایک پوتے نے اپنے آباء کی قبروں کے ساتھ بنی ملاح برادری کے کچھ لوگوں کی قبروں کو کھدوایا اور ان میں موجود باقیات کو اس قبرستان سے باہر دفنا دیا۔ جی ایم سید کے پوتے نے یہ حرکت اپنے اس خیال کے مطابق کی کہ وہ سادات ہیں اور سادات کی قبروں کے ساتھ کسی غیر سید کی قبروں کا ہونا ان کے بزرگوں کی توہین ہے۔
اس واقعے کی سنگینی چند پہلوؤں کی وجہ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ ایک تو یہ عمل ایک ایسی شخصیت کے پوتے سے سرزد ہوئی جسے ہم جدید سندھی نیشنل ازم کا بانی کہہ سکتے ہیں ۔ جی ایم سید سندھی قوم پرستوں میں بہت زیادہ احترام کے حامل ہیں۔ اور ان کا پوتا اگر سندھ کی غیر سید برادریوں کی طرف حقارت اور تذلیل کے ساتھ دیکھتا ہے اور ان کے لوگوں کی قبروں کو اپنے بزرگوں کی قبروں کے درمیان پایا جانا اپنے بزرگوں کی توہین سمجھتا ہے تو اس سے ذات پات سے ماورا ہونے کے دعوے دار سندھی نیشنل ازم کو سخت دھچکہ لگتا ہے۔
سندھی دانشور اور عوام جی ایم سید کے پوتے کی حرکت کی شدید مذمت کررہے ہیں۔ اور وہ جلال شاہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس عمل کی نہ صرف مذمت کریں بلکہ ملاح برادری سے تعلق رکھنے والوں کی قبریں ان کے پہلے والے مقام پر منتقل کریں۔
اس کے ساتھ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا غیر سید ہونے کے سبب سے کوئی شخص سیدوں کے ساتھ دفن ہونے کے حق سے بھی محروم ہوجاتا ہے؟
اس سوال کا جواب سندھ کی قدیم اور جدید تاریخ کی روشنی میں تو یقینی بات ہے نفی میں ملے گا۔ سندھ میں اس وقت جتنے قبرستان موجود ہیں ان میں سید اور غیر سید مسلمانوں کی قبریں پہلو بہ پہلو موجود ہیں۔ بلکہ کئی گاؤں اور قصبات تو ایسے ہیں جہاں جہاں ہندو دلت کی کئی اقوام اپنے مردے اسی قبرستان میں دفن کرتے ہیں جہاں پر مسلمان دفن کرتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چند سالوں میں تو تین گوٹھوں میں بھیل برادری کی قبروں سے مردوں کی باقیات کو نکال کر قبرستان سے باہر پھینکے جانے سے جیسے انفرادی واقعات ہوئے جن کی سندھی عوام کی اکثریت نے مذمت کی۔
اس مذکورہ مسئلے کے تناظرمیں چند ایک ترقی پسند دانشوروں نے "سید” ذات کا مسئلہ بھی چھیڑ دیا ہے۔ ہمارے ہاں سید سے مراد ایسے لوگ لیے جاتے ہیں جو امام علی ابن ابی طالب کے بیٹوں امام حسن اور امام حسین کی اولاد خود کو قرار دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حجاز کے معروف قبیلے قریش کی ذیلی شاخ بنو ہاشم میں جن کا دعوی ہو کہ ان کا نسبی تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ (سلام اللہ علیھا) سے بنتا ہے وہ برصغیر پاک و ہند میں سید کہلاتے ہیں۔
سندھ کی عوام کی اکثریت چاہے ان کا تعلق اسلام سے ہو یا کسی اور مذہب سے ہو وہ پیغمبر اسلام کے اہل بیت سے شدید عقیدت رکھتے ہیں اور اہل بیت اطہار سے شدید لگاؤ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور اہل بیت سے جن کا نسبی تعلق ہوتا ہے ان کا احترام بھی عوام الناس میں بڑے پیمانے پہ پایا جاتا ہے۔
سندھ کی جو جدید قوم پرستانہ حسیت ہے اس کے تناظر میں عرب بنوامیہ کے دور حکمرانی میں محمد بن قاسم کی قیادت میں عرب فوج کے سندھ پر حملے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ راجا داہر کی طرف سے بنوامیہ کو مطلوب حسینی و حسنی سادات کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ پناہ دیا جانا بھی تھا۔ اس لیے جدید سندھی قوم پرستانہ حسیت میں عرب سادات اور ان کے ساتھیوں کو مظلوم خیال کیا جاتا ہے اور ان عرب سامراجیت کے خلاف اپنے اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ یہ جدید سندھی قوم پرستانہ حسیت سندھی سادات کو سندھی قوم اور سندھی کلچر میں انجذاب کے عمل سے گزرنے والا گروہ تسلیم کرتی ہے اور اس اعتبار سے ان کو ” سندھو دھرتی کے لال” بھی کہا جاتا ہے۔
جدید سندھی قوم پرستانہ حسیت سے ہٹ کر جب ہم سادات بارے اسلام کی تعبیرات پہ غور و فکر کرتے ہیں تو سنّی اسلام اور شیعہ اسلام دونوں میں پیغمبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی قرابت داری بالذات فضیلت کا سبب قرار دیا جاتا ہے اگرچہ اسلام کی دونوں تعبیرات کرنے والے فقہا کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ یہ نسبی فضیلت اور قرابت اہل بیت (شیعہ اور صوفی اسلام میں آئمہ اہلبیت بھی اس میں شامل ہیں) قرآن کی آیت تطہیر کے سبب کلّی بالذات ہے اور جبکہ دیگر فاطمیوں کے لیے اس کے ساتھ تقوی اور پرہیزگاری کی بھی شرط ہے جس کے ساتھ یہ نسبی فضیلت اور برتری متحقق ہوتی ہے۔
کالونیل دور سے قبل برصغیر پاک و ہند جو مسلم حکمران تھے کے زمانے میں اشراف اور اجلاف کی ایک تقسیم قائم کی گئی تھی۔ اشراف میں ایک بڑی تقسیم ایرانی و تورانی و افغانی کی تھی جن کی پھر قبائلی تقسیم تھی اور ایک درجہ بندی ہندوستان میں اتحادی ہندؤں کی تھی جن میں براہمن، راجپوت وغیرہ شامل تھے۔ اور مختلف پیشوں سے وابستہ گروہوں کو اجلاف کا نام دیا گیا تھا۔ یہاں پر برصغیر ہند کی تاریخ کے جو جدید مورخین ہیں جنھوں نے ہندوستانی جات واد کا ماقبل نوآبادیاتی دور اور نوآبادیاتی دور پر جو تحقیق کی ہے ان میں پروفیسر سنجے چکرورتی کی کتاب "ٹرتھ اباؤٹ اس۔۔۔۔’ بہت اہم ہے۔ سنجے چکرورتی ایک مضمون میں لکھتے ہیں
How the social categories of religion and caste as they are perceived in modern-day India were developed during the British colonial rule, at a time when information was scarce and the coloniser’s power over information was absolute.
This was done initially in the early 19th Century by elevating selected and convenient Brahman-Sanskrit texts like the Manusmriti to canonical status; the supposed origin of caste in the Rig Veda (most ancient religious text) was most likely added retroactively, after it was translated to English decades later.
These categories were institutionalised in the mid to late 19th Century through the census. These were acts of convenience and simplification.
The colonisers established the acceptable list of indigenous religions in India – Hinduism, Sikhism, Jainism – and their boundaries and laws through "reading” what they claimed were India’s definitive texts.
The so-called four-fold hierarchy was also derived from the same Brahman texts. This system of categorisation was also textual or theoretical; it existed only in scrolls and had no relationship with the reality on the ground.
This became embarrassingly obvious from the first censuses in the late 1860s. The plan then was to fit all of the "Hindu” population into these four categories. But the bewildering variety of responses on caste identity from the population became impossible to fit neatly into colonial or Brahman theory.
Anthropologist Susan Bayly writes that "until well into the colonial period, much of the subcontinent was still populated by people for whom the formal distinctions of caste were of only limited importance, even in parts of the so-called Hindu heartland… The institutions and beliefs which are now often described as the elements of traditional caste were only just taking shape as recently as the early 18th Century”.
اس سے ہمیں یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہوتا کہ ایک تو برٹش نوآبادکار آقاؤں نے آج جو جات واد ہمارے سامنے موجود ہے اس کی صورت گری کی اور یہ صورت گری انھوں نے منوسمرتی کے متن سے کی جس کا زمین پر موجود حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور جب نوآبادکاروں کی جات واد کی تشکیل نو نافذ ہوگئی تب بھی جات کے جو رسمی امتیازات تھے ان کی محدود اہمیت تھی- ہندؤ آبادی کی جو چار درجوں میں تقسیم تھی وہ برصغیر میں موجود سماجی شناختوں کی تکثریت کو اپنے اندر سمونے سے قاصر تھی۔ اور یہ چار درجوں کی تقسیم 19ویں صدی کی مردم شماری میں ادارہ جاتی شکل اختیار کرگئی۔
سنجے چکرورتی لکھتے ہیں
The pre-colonial written record in royal court documents and traveller accounts studied by professional historians and philologists like Nicholas Dirks, GS Ghurye, Richard Eaton, David Shulman and Cynthia Talbot show little or no mention of caste.
رائل کورٹ دستاویزات اور سفرناموں کا جو ماقبل نوآبادیاتی ریکارڈ ہے اس میں جات پات کا یا تو بہت کم تذکرہ ہے یا بالکل ہی ذکر نہیں ہے۔
Social identities were constantly malleable. "Slaves” and "menials” and "merchants” became kings; farmers became soldiers, and soldiers became farmers; one’s social identity could be changed as easily as moving from one village to another; there is little evidence of systematic and widespread caste oppression or mass conversion to Islam as a result of it.
سماجی شناختیں مستقل طور پہ لچک دار تھیں۔ "غلام” اور "کمّی” ،”تاجر” بادشاہ بن جاتے تھے، کسان سپاہی بن جاتے اور سپاہی کسان؛ کسی کی بھی سماجی شناخت آسانی سے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں نقل مکانی سے بدل سکتی تھی۔ مربوط نظام اور بڑے پیمانے پہ جبر یا اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پہ تبدیلی مذہب سے اسلام میں داخل ہونے بارے کم ہی شواہد ملتے ہیں۔
All the available evidence calls for a fundamental re-imagination of social identity in pre-colonial India.
اس لیے تمام دستیاب شواہد ماقبل نوآبادیاتی ہندوستان کی سماجی شناخت کے ازسرنو تصورگری کو کرنے کا بنیادی کام قرار دیتے ہیں۔
سنجے چکرورتی اس حقیقت سے اس نتیجہ پہ پہنچتے ہیں
The picture that one should see is of astonishing diversity. What the colonisers did through their reading of the "sacred” texts and the institution of the census was to try to frame all of that diversity through alien categorical systems of religion, race, caste and tribe. The census was used to simplify – categorise and define – what was barely understood by the colonisers using a convenient ideology and absurd (and shifting) methodology.
تصویر جو کسی بھی شخص کو دیکھنی بنتی ہے وہ حیران کن حد تک متنوع ہے۔ نوآبادکاروں نے مقدس متون اور سینس کے ادارے کے زریعے سے کیا وہ اس سارے تنوع کو مذہب، نسل، جات اور قبیلے کے اجنبی درجہ بندی سسٹم کے زریعے ایک چوکھٹے میں رکھنا تھا۔ سینس درجہ بندیوں کو سادہ بنانےاور نوآبادکاروں نے ایک تن آسان آئیڈیالوجی اور مہمل نیز بدلی ہوئی میتھڈولوجی کو استعمال کرتے بمشکل سمجھا تھا اس کے زریعے سے اس کی تعریف متعین کرنا تھا-
نوآبادکاروں نے ہندوستانی سماجی شناختوں کو 19ویں صدی کے دور کا احاطہ کرنے والی تن آسان درجہ بندیوں کو استعمال کرتے ہوئے ایجاد کیا یا ان کو تشکیل دیا۔ برٹش حکومت نے یہ خود اپنے مفادات کی خدمت کرنے کے لیے کیا اور اس کا ابتدائی مقصد ایک واحد سماج کی تشکیل تھا جسے ایک مشترکہ قانون کے تحت چلایا جاسکے۔
عقیدوں ہور سماجی شناختوں کے ایک بہت بڑے و پیچیدہ اور علاقائی طور پر متنوع نظام ایک ایسے درجے تک سادہ کردیا گیا کہ جس کی شاید تاریخ عالم میں اور کہیں کوئی مماثلت نہیں ملتی۔ کلی طور پر نئی درجہ بندیاں اور ہیرارکی تخلیق کی گئیں جن کی باہم کوئی مطابقت نہیں بنتی تھی اور جس کے حصّے ایک دوسرے سے مناسبت نہیں رکھتے تھے اور ان کو زبردستی ایک دوسرے میں ٹھونس دیا گیا۔ نئی سرحدیں بنائی گئیں اور لچک دار جو امتیاز تھے ان کو سخت کردیا گیا۔
انگریز نوآبادیاتی دور میں جات پات، مذہب ، نسل کی بنیاد پہ جو درجہ بندی نظام نافذ ہوا اس نے مراعات، حقوق، زمین ، جاگیر اور حقوق تک کو انگریز کی بنائی گئی سماجی شناختوں کی درجہ بندیوں سے جوڑ دیا تھا۔ انگریز کی کالونائزیشن، کینالائزیشن، اری گیشن سسٹم، ایڈمنسٹریشن سسٹم میں بھی ان درجہ بندیوں کا لحاظ رکھا گیا۔
دیہی سماج میں انگریز کی بنائی گئی اشراف درجہ بندی میں سید شناخت اور ایسے ہی پیر و مشائخ ہونا بھی ایک مراعات یافتہ طبقہ ہونے سے جڑگیا۔ اور اس نے نہ صرف ہندؤ مت، سکھ مت اور جین مت اور شیڈولڈ کاسٹس/دلت ہی نہیں بلکہ اسلام مت سے جڑی سماجی شناختوں کی بھی ازسرنو صورت گری کی۔ نوآبادیاتی دورکی مذہبی سماجی حسیت نے تقسیم ہند کے بعد بھی اپنا سفر جاری رکھا۔ اگرچہ اربنائزیشن، انڈسٹریلائزیشن اور کمرشلائزیشن اور جدید تعلیمی نظام کے حامل متوسط طبقے کے سیکشن نے ان درجہ بندیوں کو کافی تبدیل کیا ہے لیکن ہمارے دیہی سماج میں یہ درجہ بندی مسخ شدہ حثیت میں موجود ہے۔ ہم جسے مذہبی رجعت پسندی کہتے ہیں اس کی جڑیں بھی برٹش سامراج کے کالونیل دور ماقبل نوآبادیاتی دور کی متنوع سماجی شناختوں کو محدود درجہ بندیوں اور سینس کے انسٹی ٹیوشن کے زریعے ایک ایسا سماج تشکیل کرنے میں پیوست ہیں جسے ایک کامن لاء کے تحت چلایا جاسکے۔ کالونیل دور کی مذہبی اصلاح پسند اور روشن خیالی کی علمی تحریکوں کے بانیوں نے انگریزوں کی برصغیر ہند کو ایک متحدہ سماج بنانے کے لیے سینس کی بنیاد جس ہیرارکی اور سماجی درجہ بندی پہ رکھی اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ یہاں تک کہ تاریخی مادیت پرست دانشوروں نے بھی ماقبل نوآبادیاتی ہندوستانی سماج اور نوآبادیاتی ہندوستانی سماج کے درمیان جو سماجی شناختوں کا لچک دار اور غیر لچک دار فرق تھا اسے نظر انداز کردیا۔
پاکستان میں مسلم سماجی شناختوں کی ماقبل نوآبادیاتی ادوار، نوآبادیاتی دور اور مابعد نوآبادیاتی دور میں جائزہ پہ اب تک تو میری نظر سے کوئی مبسوط تحقیق نہیں گزری۔ اس طرح کے بشریاتی اور سماجیاتی مطالعے کی روایات ہماری جامعات میں رائج ہی نہیں ہیں اور جو خود کو روشن خیال اور ترقی پسند ماہر عمرانیات کہتے ہیں وہ بھی نوآبادیاتی سماجیاتی شناختوں بارے کوئی پیش رفت نہیں کرپائے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: