حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند دنوں میں چند ایسے ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ہر صاحب اولاد خصوصاً بیٹیوں کے والدین کو خون رونے پر مجبور کردیا لیکن اس سے زیادہ ستم بلکہ ظلم یہ ہوا کہ تاویلات کی تلواریں تھامے ہجوم امنڈ آئے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
کسی المیہ یا سانحہ کا پس منظر اور حالات کو سمجھنے کا ہمارے یہاں رواج ہی نہیں۔ کھٹ سے کچھ اصول نکال کر بھاشن دینے لگتے ہیں۔
ٹھنڈے دل سے اگر مینار پاکستان کے ساتھ واقعہ گریٹر اقبال پارک میں ایک ہفتہ کے دوران پیش آئے تین واقعات (یہ تین بھی وہ جن کی ویڈیوز وائرل ہوئیں اور رپورٹ ہوئے) کا جائزہ لے کر ذمہ دار تلاش کئے جائیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صورتحال کے ہم سبھی ذمہ دار ہیں۔
والدین، نظام تعلیم، اساتذہ، سماج۔ بدقسمتی سے ہم ایک دوسرے پر الزامات اچھال کر چسکے لے رہے ہیں۔ کچھ چسکے باز تو کہتے ہیں لڑکیاں گھروں سے نکلیں کیوں۔ یعنی مرد ذات کا کوئی جرم نہیں۔ لڑکی کا گھر سے نکلنا جرم ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں اولاً تو لوگوں کو لڑکیاں پیدا ہی نہیں کرنی چاہئیں، اگر پیدا ہوہی جاتی ہیں تو گھروں سے باہر نہ نکلنے دیں۔ ظاہر ہے یہ دونوں کام ممکن نہیں۔
ایک ذاتی مثال عرض کئے دیتا ہوں۔
میری صاحبزادی ڈیڑھ مہینہ قبل مزید تعلیم اور اچھے مستقبل کیلئے امریکہ چلی گئی۔ پچھلے سال جب کورونا کی پہلی لہر آئی تو اس نے اپنے ماں باپ کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی۔ نیٹ پر کچھ ایپس تلاش کیں جو ضروریات زندگی کا سامان گھر کی دہلیز پر فراہم کرتی ہیں۔ اشیاء معیاری بھی ہوتی ہیں اور نرخ بھی کھلی مارکیٹ سے کم۔ مثال کے طور پر پچھلے سال جب سبزی فروش آلو 80روپے، ٹماٹر 120روپے اور پیاز 70روپے کلو فروخت کررہے تھے تو آن لائن اشیائے ضروریہ فروخت کرنے والے ٹماٹر 40روپے۔ آلو 50روپے اور پیاز 45روپے میں گھر تک پہنچاکر جاتے تھے۔ شرط یہی ہوتی ہے کہ آپ کا مجموعی آرڈر کم از کم 300روپے کا ہو ورنہ 20سے 30روپے ایکسٹرا سروس چارجز کے نام پر لئے جاتے ہیں۔
فروری 2020ء کے بعد سارے امور صاحبزادی نے سنبھال لئے کسی مجبوری میں بازار جانے کی ضرورت پڑی تو اپنی معاون کو لے کر وہ خود گئی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس کے والدین اس عمر میں ہیں جہاں طبی ماہرین کے مطابق کورونا وبا سے انسان جلد متاثر ہوتا ہے۔
ایک بیٹی نے والدین کی صحت و سلامتی کو مقدم سمجھا۔ اب مجھے وہ دھانسو مبلغ بتائیں کہ صاحبزادی نے کیا ظلم کیا اور کس اصول کی خلاف ورزی کی؟
اب آتے ہی اصل موضوع کی طرف۔ یہ ٹک ٹاک کیوں مقبول ہوئی؟ آمدنی کا ایک ذریعہ بنی اسی لئے۔ اسے زیادہ تر سفید پوش گھرانوں کے بچوں او بچیوں نے اپنایا۔ لاریب کچھ غلط بھی ہوا مگر سو فیصد غلط نہیں، غلط ہوتا تو پھر اس سے اہل دھرم و عقائد فائدہ نہ اٹھاتے۔
مینار پاکستان میں ایک ٹک ٹاکر بچی کے ساتھ جو ہوا وہ تو شرمناک تھا ہی اس سے بڑھ کر بے شرمی یہ ہوئی کہ غول در غول لوگ ان ’’مجاہدین‘‘ کی حمایت میں امنڈ آئے جو بدتمیزی سے آگے کے معاملات کے مرتکب ہوئے۔ وہی وزیراعظم عمران خان والی بات ’’مرد روبوٹ تو نہیں ہے‘‘۔
اس المیہ سے لوگ سنبھل نہیں پائے تھے کہ تین مزید ویڈیوز سامنے آئیں۔ مال روڈ والی ایک ویڈیو پر کہا گیا یہ تو دو تین سال پرانی ہے۔ مان لیا دو تین سال پرانی ہے لیکن پرانی ویڈیو سے جرم کی سنگینی کم ہوجاتی ہے؟ میل شاونزم اور وقتی مذہبی بخار میں مبتلا ہوجانے والے یہ تو بتائیں اگر ان کے گھر کی خواتین کو مال روڈ جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تب بھی ان کا موقف یہی ہوتا یا کچھ اور؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ "اگر مگر چونکہ چنانچہ” یہ ہے تو ایسا ہوا کی ، ڈھمکیریوں سے جی بہلانے اور سچ سے منہ موڑنے کی بجائے اخلاقی جرات کیجئے۔ مان لیجئے کہ یہ افسوسناک واقعات نہیں ہونے چاہئیں تھے۔
اور یہ بھی کہ ہمیں ازسرنو سارے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے۔ خاندانی ماحول، والدین کی تربیت، نظام تعلیم، اساتذہ کے حلم و ظرف اور خود سماج کے عمومی رویوں کا۔
اس کے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ یہ جو والدین اولاد کی پہلی غلطی یا ہر غلطی پر فقط یہ کہہ دیتے ہیں ’’جوان بچہ ہے جی خود ہی سمجھ جائے گا‘‘ ان والدین سے بڑا ظالم اور اولاد کا دشمن کوئی نہیں۔
اصولی طور پر یہ والدین بگاڑ کے ذمہ دار ہیں صرف اپنی اولاد کے بگاڑ کے نہیں بلکہ معاشرے میں پنپنے والے بگاڑ کے بھی۔
ہمارے نصاب تعلیم میں انسان سازی کے اسباق کتنے ہیں؟ کسی دن غور کیجئے کہ یہ نصاب تعلیم انسان سازی میں معاون ہے بھی یا کاٹھ کے باندر ہی بناتا ہے جن کی زندگی کا مقصد۔۔۔ بعداز تعلیم، نوکری، شادی، اولاد اور گاڑی و گھر بن کر رہ گیا ہے؟
سچ کہوں اولاد کے حوالے سے کچھ زیادہ جذباتی ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ میں بیٹیوں کا باپ ہوں مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اس تھکے ہوئے رجعت پسند معاشرے میں، میں بھی ان چند خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوں جو بیٹیوں پر ملال نہیں فخر کرتے ہیں۔ میری بیٹیاں ہی میرا فخر ہیں یہی وارث بھی۔
ہمارا فرض انہیں اچھی تربیت، اچھا ماحول اور وقت کی ضرورت کے مطابق تعلیم دلوانا تھا سو ہم نے وہ پورا کیا۔ زندگی کے ڈھب، اونچ نیچ، خاندانی اور سماجی روایات کی تعلیم انہیں دے دی اب زندگی انہیں گزارنی ہے، فیصلے کا حق انہیں ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے چار اٙور بچیوں کے والدین اور خود بچیوں میں عدم تحفظ کا جو احساس بڑھتا جارہا ہے اس کا علاج کیا ہے؟
مکرر عرض ہے ہمیں اپنے گھریلو اور خاندانی ماحول کے ساتھ نظام تعلیم، سماجی رویوں اور دیگر معاملات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ کسی بچی پر الزام کی دھول کو بھی ہم سچ سمجھ لیتے ہیں اصولی طور پر ہمیں الزام کی دھول کو نہیں اپنی بیٹی کو اہمیت دینی چاہیے اس کا اعتبار کرنا چاہیے۔
لاہور میں گزشتہ دنوں رونما ہوئے افسوسناک واقعات پر سوشل میڈیا پر اٹھائی گئی بحثوں میں ہوئی گل افشانیاں دیکھ پڑھ کر ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔
کیا لوگ ہیں درندوں کی مذمت کی بجائے وہی اگر مگر چونکہ چنانچہ کے رزق سے پیٹ بھرتے ہوئے۔
اچھا مان لیتے ہیں کہ اس بھونڈی تاویلات پسند شعور سے محروم نسل کا فرمایا آسمانی صحیفہ ہوا۔
اب کیا کریں ہم بیٹیوں کے والدین ؟۔
اپنی بیٹیوں کی قبریں گھر کے صحن میں کھودیں انہیں زندہ دفن کردیں؟
کیونکہ وہ جو سندھ میں ایک بچی کی لاش قبر سے نکال کر بے حرمتی کی گئی اس کا بھی یہی قصور مانا جائے گا کہ وہ محرم کے بغیر قبر میں کیوں تھی؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر