اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسلم ایں سوجھل اندر ||جاوید اختر بھٹی

اسلم جاوید سرائیکی شاعری کا نظیر اکبر آبادی ہے۔ اس کی نظموں کے کردار بھی عوامی ہیں ۔ اس میں رنگ ہیں ، تمدن ہے ، تہذیب و ثقافت ہے۔ زبان کی چاشتی ہے، وہ وسیب کے رنگ و نور کا شاعر ہے۔
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسلم جاوید سے دوستی کو ایک زمانہ گزر گیا ۔ وہ رات بھر کی محفل سے صبح تھکے ہارے مزدور کی طرح گھر جایا کرتا تھا ۔ تمام رات انقلا ب اور سرائیکی صوبے کی نذر ہو جاتی تھی۔ مزدوروں کے نصیب کہ انقلاب آیا اور نہ سرائیکی صوبہ آزاد ہوا۔ رات کی ان محفلوں میں اسلم جاوید اورمیں حصہ بنتے رہے ۔لیکن رائیگانی کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ بہت سے لوگوں نے ابھی سرائیکی لکھنا شروع نہیں کی ۔ جب سرائیکی وسیب کی فضاء میں اسلم جاوید کے اشعار اور نظمیں گونج رہی تھیں ۔

اسلم جاوید سرائیکی نظم کا بہت طاقتور شاعر ہے ۔ اُسے نئی لسانی تشکیل کا ہنر بھی آتا ہے اور لفظ اس کے ہاتھوں میں موم کے پُتلے بن جاتے ہیں۔ وہ ان پتلوں کی نئی نئی شکلیں بناتا رہتاہے ۔

اسلم جاوید

ایک اور خوبی اس کی شاعری میں منظر کشی کے ساتھ بھر پور ڈرامائی عنصرہے۔ اس کی نظم میں کردار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ اور اس حد تک زندہ کردار ہیں کہ ان کی ڈرامائی تشکیل ہو سکتی ہے۔ اسلم جاوید کی شاعری سرائیکی تحریک کا نعرہ بن گئی ۔

میں تسا میڈی دھرتی تسی
تسی روہی جائی
میکوں آکھ نہ پنج دریائی

سرائیکی شاعری میں اسلم جاوید کا حوالہ اہمیت رکھتاہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ناقدین نے جوسرائیکی ادب کے سرخیل تصور کیے جاتے ہیں انہوں نے اسلم جاوید کو نظر انداز کیا ہے۔

اسلم جاوید کے اب تک تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔

1۔ میکوں آکھ نہ پنج دریا ئی
2۔ست سرائی
3۔ طبل کو ہاڑی

اور اب چوتھا مجموعہ ” پکھی پال تھلوچڑ ‘آپ کے سامنے ہے ۔ اور دو مجموعے ” ہنس راج” اور ” موہراں ڈیوا بال ” زیر طبع ہیں۔ ” پکھی پال تھلوچڑ ‘کی نظمیں ہمیں جہاں حیرت میں لے جاتی ہیں ۔ اس کی زبان، اس کا لہجہ ، اس کے مناظر ِ فطرت اور اس کی نئی شعری فضاء کو جنم دیتی ہے ۔ اسلم جاوید  ڈکشن کا شاعر، میں نے سرائیکی میں ایسا کوئی دوسرا شاعر نہیں دیکھا۔

اسلم جاوید ایک قوم پرست ہے لیکن آزاد منش شاعرہے ۔ وہ کبھی بھی گروہی ادبی سیاست کا حصہ نہیں بنا ۔ اس لیے وہ اپنے مقام سے محروم ہی رہا ہے اسے اس کا کوئی شکوہ بھی نہیں ہے ۔

اسلم جاوید سرائیکی شاعری کا نظیر اکبر آبادی ہے۔ اس کی نظموں کے کردار بھی عوامی ہیں ۔ اس میں رنگ ہیں ، تمدن ہے ، تہذیب و ثقافت ہے۔ زبان کی چاشتی ہے، وہ وسیب کے رنگ و نور کا شاعر ہے۔

نظیر اکبر آبادی کوعوامی شاعر ہونے کی پاداش میں ناقدین ِ ادب نے نظر انداز کیا اور بعد ازاں انہوں نے نظیرکی عظمت کو تسلیم کیا ۔ اسلم جاوید کوبھی تسلیم کرنا پڑے گا ۔ کیو نکہ وہ ہمارا چہرہ ہے اور ہماری شاعری کا سچا روپ ہے ۔

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: