حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹی باجی کی امی الٹی چارپائی پہ بیٹھی سروتے سے چھالیہ کتر رہی ہیں، کالے کپڑے انہوں نے پہن رکھے ہیں۔
دوسرا منظر انہی کے گھر مجلس کا ہے، میں بیٹھا ہوں امی کے ساتھ، عورتیں رو رہی ہیں، امی بھی روتی ہیں، مجلس جیسے ہی ختم ہوتی ہے دو منٹ کے اندر سب چپ ہو جاتے ہیں۔ یہ بات مجھے حیران کن لگتی ہے۔
پھر پابندی ہے کم از کم ایک ماہ گانوں پر، ٹی وی پر، کھیل کود پر، ہنسی مذاق پر، کچھ نیا خریدنے پر، کچھ نیا پہننے پر اور اس دوران یوم عاشور جب آئے تو ہاتھ ملانے یا گلے ملنے پر، گھر میں کچھ پکانے پر اور کنگھی کرنے یا نہانے پر۔ ابا پیدل جائیں گے النگ (ملتان والڈ سٹی) ، جلوس کے بعد جو دال ملے گی وہ گھر لائیں گے، ساتھ روٹیاں ہو گی، وہ کھائی جائیں گی۔ عید پہ شیر خرما بنے یا نہ بنے محرم کے دسویں دن اس دال کے علاوہ کبھی گھر میں دوپہر کو اور کچھ نہیں کھایا گیا۔ ابا سے پہلے دادا جایا کرتے تھے۔
سلمان حیدر بھائی نے فیس بک پہ ایک پوسٹ لگائی اور پوچھا کہ محرم میں کس کس کے یہاں کیا کیا ہوتا تھا۔ اللہ غنی، یادوں کی پوٹلی کھل گئی۔ ایک ایک کمنٹ پڑھا اور سوچا کہ یاد دلانے کو اتنا کچھ ہے، اب بھی نہیں لکھتا حسنین جمال تو کل کون لکھے گا۔ تو مر گیا تو محرم تیرا بھی ختم، لکھ لے ابھی لکھ لے۔
ابو کی انگلی بہت مضبوطی سے پکڑ کے جلوس میں چلتا تھا۔ شدید خوف ہوتا تھا کہ میں گم گیا تو کیا کروں گا۔ خاص طور پہ ادھر شاہ شمس کی کربلا میں بہت رش ہوا کرتا تھا۔ ابو کو جب نوکری سے چھٹی ملتی تو وہ ایک دو دن جایا کرتے، باقی وہ جماعت سے نماز کی ان دنوں کوشش کرتے تھے۔
پھر نماز سے مجھے عمرو عیار (ہمارے بچپن کی املا یہی ہے ) یاد آ گیا۔ شاہ گردیز ہم لوگ جمعہ پڑھنے جاتے تو ادھر ایک فقیر ہوتا تھا۔ سوٹی ہاتھ میں، اسی کے سہارے کچھ تکلیف سے چلتا تھا۔ اس نے آٹھ دس کپڑے پہنے ہوتے تھے۔ قمیص، اس کے اوپر دو تین واسکٹیں، پھر کوٹ، پھر اوور کوٹ، کندھے سے زنبیل نما میلا کچیلا تھیلا لٹکایا ہوتا۔ نیچے دھوتی پہنے ہوتا تھا۔ اس کی ناک بہت بڑی اور آنکھیں دھنسی ہوئی لیکن شدید واضح تھیں۔ تو جیسی شکل ہماری پانچ روپے والی کتابوں پہ عمرو عیار کی ہوتی تھی، وہ اسی حلیے کا تھا۔ آٹھ محرم ادھر شاہ گردیز ہی رات کو ایک مجلس میں اسے دیکھا۔ ویسے ہی دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھا تھا، روتا تھا لیکن مانگ نہیں رہا تھا۔ یہ تیسری یاد تھی۔
شاہ گردیز اصل میں شب بیداری ہوا کرتی تھی۔ ساتھ ہی ’مہاجرین‘ کی مسجد تھی۔ ادھر بھی یہی سلسلہ چلتا تھا۔ یہ دونوں جگہیں مسجد اور امام باڑے کے طور پہ یکساں استعمال ہوتی تھیں۔ مجلسیں ہو رہی ہیں، سوز خوانی ہوتی ہے، نویں دسویں کو تب تو باقاعدہ ندیم سرور اور حسن صادق بلائے جاتے تھے، عشرہ کمال ہوتا تھا!
ایک زمانہ تھا جب شہاب نامے سے میں بہت متاثر تھا تو ادھر شب بیداری میں ایک ملنگ دکھائی دیا، اس سے میں بڑا انسپائر ہوا۔ سبز چولا، سر کے بال پٹے رکھے ہوئے جیسے، داڑھی خوب گھنی اور مونچھیں برابر کی، الن فقیر نما کچھ حلیہ تھا۔ پتہ نہیں کیوں، وہ بندہ مجھے اتنا فیسینیٹ کرتا کہ میں جاسوسوں کی طرح باقاعدہ اس کی حرکتیں نوٹ کرتا تھا۔ اب بھی یاد ہے وہ نماز کیسے پڑھتا تھا، مسجد میں کیسے بیٹھتا تھا، پانی کیسے پیتا تھا۔ خیر، ویسے اب میرا بھی اسی ٹائپ حلیہ ہے۔
استاد اور شاگرد کا تعزیہ ہمارے یہاں بڑا مشہور ہوتا ہے، لعل شاہ کے تعزیے میں دادی بتاتی تھیں کہ دادا پردادا نے بھی کوئی اضافہ کیا تھا۔ اس کے بعد میں ہر تعزئیے کو دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ اس میں مزید عمارت کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ تعزئیوں پہ کام بڑا زبردست ہوتا ہے۔ یہ منی ایچر کی طرح باقاعدہ ایک آرٹ ہے لیکن اب اسے بھی آرام پسندی کھا گئی۔ جیسے فرنیچر میں چولوں کی جگہ کیل آ گئے، جافری کی جگہ لاثانی آ گئی اسی طرح تعزئیوں میں بھی ہارڈ بورڈ گھس آئیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
بہت بھاری بھاری علم ہوا کرتے تھے۔ کئی لوگ مل کر اسے اٹھاتے۔ یہاں سے کیمرہ پشاور قصہ خوانی کوچہ رسالدار میں زوم کرتا ہے۔ پرانا اندرون شہر، تنگ گلی، نیچی تاریں، چھوٹے مکان اور بڑے دل والے جب تعزیہ نکالتے تھے تو کئی کئی بندوں نے آگے سے تھاما ہوتا، کھلی جگہ پہ جا کے اسے بلند کیا جاتا۔ جلوس میں آگے آگے علم اٹھائے ہوئے جوان چلا کرتے، جدھر رکنا ہوتا علم کو پاؤں کی اوپر والی سائیڈ پہ سہارا دے کے رکھتے، علم نیچے زمین پہ نہیں رکھا جاتا۔ میرے بچپن ہی میں بڑے سے بڑا علم بنانے کی دھن شروع ہوئی اور امام باڑوں میں سٹیل کے دیو ہیکل راڈز پر لمبے سے لمبا تکونا پرچم لہرایا جاتا، اس کی بنیاد اتنی چوڑی ہوتی کہ گرد تیس بندے کھڑے ہو جائیں جڑ کے۔ وہ ایک چھوٹا سا علم جسے ایک بچہ اٹھا سکے، ننھا سا تکونا کالا کپڑا آگے لگا ہو، اس سے زیادہ کیا چاہیے کسی کو؟
کالے کپڑے پہلے دس دن پہنتے تھے۔ حالات خراب ہوئے تو بہت لوگوں نے پہننے چھوڑ دیے، آخری تین دن کا رواج ہو گیا۔ پھر نویں دسویں تک محدود ہوئے لیکن خیر پہننے والے اب بھی پہنتے ہیں۔
بختی ماموں ایک چیز سمجھاتے تھے، کالی قمیص شوق سے پہنو مگر کالے رنگ کی شلوار اور نہ ہی جوتا، یہ غلط ہے۔ ’کالا رنگ بیٹے پاک رنگ ہے، مقدس رنگ ہے، سوگ میں جسم پر ڈالو تو بس کالا کپڑا اوپر، باقی شلوار یا جوتا زندگی میں جب بھی لو، کالا نہ ہو۔‘ تو ہم لوگ پھر کسی بھی رنگ کی شلوار کے ساتھ کالا کرتا پہن لیا کرتے تھے۔
میرے پاس ایک برتن موجود ہے تانبے کا بھاری سا، اس پہ پرانے زمانے کے مچھلیوں جیسے نشان بنے ہوئے ہیں۔ ماموں بتاتے ہیں کہ اس میں ذوالجناح کو ہمارے پرنانا دودھ پلایا کرتے تھے۔ مجھے بڑا ڈر لگتا تھا۔ ہم لوگ چھوٹے تھے تو امی کہتی تھیں کہ ذوالجناح کے نیچے سے گزرو، میں نہیں گزرتا تھا۔ مجھے وہ صرف گھوڑا لگتا تھا۔ امی کہتیں کہ یہ دیکھو سب بچے تبرک کا دودھ پی رہے ہیں، میں نہیں پیتا تھا کہ اس میں گھوڑے نے منہ ڈالا ہے، چینی اس کے آگے کی جاتی تھی، وہ منہ لگا دیتا تو چینی بھی تبرک بن جاتی۔ میں تب وہ سب کچھ نہیں کھاتا تھا۔ اب سمجھ آتی ہے کہ نسبتوں کا چکر تھا، جسے سمجھ آ گئی اس کے لیے موج ہی موج، جو نہ سمجھا پھر وہ اصل پہ بھی سوچتا رہا۔
ساتویں یا آٹھویں شب (ٹھیک سے یاد نہیں ) ہم سب بچے گھر کی عورتوں کے ساتھ پیدل ننگے پاؤں بارہ تیرہ امام باڑوں میں شمعیں جلانے جاتے تھے۔ پشاور میں ایک احاطہ ایسا ہے جس میں کئی امام باڑے قریب قریب ہیں، سمجھیں تین چار کلومیٹر میں ہوں گے، تو بس ہر امام باڑے میں جانا، نیاز کا نمک چکھنا، دیے جل رہے ہوں تو ان کا تیل سر پہ لگا لینا اور اپنی موم بتی جلا کے آگے بڑھ جانا۔
عورتیں منت کے لیے وہیں موم بتیوں اور دیوں کے پاس پڑے لڈو اٹھا لیتیں۔ ایک لڈو میں ایک چھلا ہوتا تھا۔ لڈو کھا لیا اور منت مان کر چھلا انگلی میں پہن لیا۔ اب منت جب پوری ہو گی تو آپ نے کم از کم بارہ چھلوں (اور لڈوؤں ) کا ایک ڈبہ اسی جگہ رکھنا ہے جہاں سے وہ چھلا اٹھایا تھا۔ کئیوں کی منتیں پوری ہوتی میں نے خود دیکھیں جن کی نہیں ہوئیں ان کا ذکر کبھی نہیں سنا۔ پتہ نہیں کیوں۔
محرم کی مردانہ جیولری الگ ہوا کرتی تھی۔ مقدس ناموں والے کڑے ملا کرتے، لاکٹ، پتھروں کے اوپر مذہبی دعائیں لکھی ہوئی، سینے پہ لگانے کے بیج جن پہ نعرے ہوتے تھے۔ پھر بڑے لوگوں کو اس زمانے میں دیکھا کہ پیروں میں جیل والے قیدیوں جیسی بیڑیاں پہنتے تھے، وہ جنہیں پہن کے آپ پاؤں چوڑے کر کے چلتے ہیں۔ بعد میں ان کی جگہ ہاتھ پیروں میں کڑوں نے لے لی مگر اب بھی ایک دو بندے ایسے نظر آ جاتے ہیں۔ یہ نسبت کربلا کے ایک ایسے بیمار سے تھی جسے شدید نقاہت کے عالم میں بیڑیاں ڈال کے پہروں چلایا گیا۔
ہم لوگ چونکہ بچپن سے زنجیر کا ماتم دیکھتے تھے تو ہمارے لیے اس میں کچھ نیا یا خوف والا نہیں ہوتا تھا۔ پھر زنجیر ہی کیا، تلواروں کا ماتم کہ سروں پہ مار کے خونم خون ہوئے ہوتے تھے لوگ، ہاتھوں میں بلیڈ پھنسا کے سینے پہ ماتم، پورا چیسٹ زخموں اور بعد میں نشانوں سے بھرا ہوتا۔ ایک دفعہ میں اپنے دو تین دوستوں کو ماتم دکھانے لے گیا، وہ بے چارے پہلی بار آئے تھے، جب شدت کی زنجیر چلی، ماحول سرخ ہو گیا تو میں نے پلٹ کے دیکھا، ان کے سر کہیں نہیں تھے۔ دس منٹ بعد جب زور تھما تو بیس فٹ پیچھے کہیں بیٹھے ملے۔ تب سے یہ آفر یا حرکت دوبارہ نہیں کی۔
آگ کا ماتم وہ تھا جس میں شریک ہوتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ ڈر لگتا تھا، شاید اعتقاد اتنا پکا نہیں تھا، لیکن خیر لوگ پار کر جاتے سارا دہکتے کوئلوں سے بنا راستہ اور کہتے بھی تھے کہ انہیں کچھ نہیں ہوا۔ جو سب سے زیادہ مجھے یاد ہے وہ افغانیوں اور کابلیوں کا ماتم ہے۔ زنجیر ہوتی تھی مگر آگے چھریاں نہیں لگتی تھیں۔ خالی زنجیر کا گچھا ہے اور بس قمیص کے اوپر سے وہ لوگ کمر پہ مارتے تھے۔ مجھے لگتا ہے اس کی چوٹ شاید زیادہ سخت ہوتی ہو گی کیونکہ اس میں تو خون نہیں بہتا تھا بس نیل ہی نیل پڑتے تھے۔
جب میں چھوٹا تھا تو مجلس میں سب کو روتا دیکھ کے سر جھکا لیتا تھا۔ آنکھیں چپکے چپکے رگڑتا کہ شاید رونا آ جائے۔ کوشش کرتا کہ کسی طرح جینوئن آنسو آ جائیں لیکن نہیں، کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ میں سمجھتا کہ میری حاضری قبول نہیں ہوئی۔ اب جانا ہی نہیں ہوتا لیکن کبھی دور سے بھی آواز آ جائے تو خود ہی رونا آ جاتا ہے۔
عمر کا فرق شاید سب سے اہم چیز تھی جو اس وقت میں نہیں جانتا تھا۔ بڑھتی عمر میں آنکھ خود بہ خود گریے پہ آمادہ رہتی ہے۔
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر