مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟| عمار مسعود

ملک میں کچھ لوگ بھٹو کو کوستے رہے، کچھ بھٹو کی یاد میں خود سوزی کرتے رہے ؛ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور ملک سے جمہوریت کا ایک باب ختم ہوا، لوگ ابھی اسی صورت حال کو رو رہے تھے کہ افغانستان میں روس نے پیش قدمی کر دی،

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان کی صورت حال کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی، عالمی مبصرین انگشت بدنداں ہیں کہ ’یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا‘ ۔ وہ طالبان جن کی عددی قوت پہلے سے بہت کم ہے، سارے افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں، نہ کسی نے مزاحمت کی، نہ کسی نے روکنے کی جرات کی، طالبان مخالف اچانک سے اڑن چھو ہو گئے، اشرف غنی پہلی فرصت میں افغانستان سے پرواز کر گئے۔ طالبان کے اپنے روئیے میں بھی ڈرامائی تبدیلی آ گئی، نہ عورتوں کو کوڑے مارے گئے، نہ سرعام سر اڑائے گئے، نہ لڑکیوں کے سکول پر بم دھماکے ہوئے، نہ بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی ؛مسلسل جنگ کے داعی نہایت امن و امان سے پورے ملک پر قابض ہو گئے۔

بقول معید یوسف (قومی سلامتی کے مشیر ) کے : ”پاکستان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ پاکستان پر کوئی الزام نہیں آیا۔“ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس قابل نفرین جملہ تحسین سننے کے لیے ہم نے ستر ہزار جوانوں کے خون سے اپنی دھرتی کو لہو رنگ کر لیا؟ اپنے بچوں کو سکولوں میں ذبح کروایا، اپنی مسجدوں سے خون میں لتھڑی لاشیں اٹھائیں۔ بس خود کو الزام سے بچانے کی خاطر۔ بس اتنی سی قیمت ہے ستر ہزاروں لاشوں کی!

بدقسمتی سے پاکستان کا کردار دنیا کے طاقت ور قوتوں کے ہاتھ میں ایک کھلونے کا سا رہا ہے، ایک ایسا کھلونا جس کو جب چاہا توڑ دیا، جب چاہا گلے سے لگا لیا، جب چاہا اس کا چہرہ نوچ لیا اور جب چاہا اس میں نئی بیٹری ڈال کر اپنے اشاروں پر نچا لیا۔ المیہ یہ ہے پاکستان کو عالمی منصوبہ سازوں کی بساط پر جب بھی استعمال کیا گیا، اس کے لیے پاکستان میں غیرجمہوری قوتوں پر ہی اعتماد کیا گیا؛اپنے اس استدلال کے حق میں تین مثالیں دوں گا جس سے آپ پر افغانستان کی موجودہ صورت حال اور پاکستان کے مستقبل کا منظر نامہ واضح ہو سکے گا۔

آپ کو یاد ہی ہو گا 1977 ء میں بھٹو حکومت ختم کر دی گئی، اپوزیشن کے احتجاج کو خوب کوریج ملی، ملک بھر میں ہنگامے ہوئے اور ایک خود ساختہ امیر المومنین نے عوام کی منتخب حکومت کو ٹھکانے لگایا اور آئین کو پامال کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اس وقت ابن الوقت میڈیا نے یہ بتایا کہ بھٹو قاتل تھا، فاسق تھا، ظالم تھا اس لیے اپنے انجام کو پہنچا۔ مارشل لاء کے نفاذ پر مٹھائیاں بٹنے کی تصویر بھی اخباروں کے سرورق پر چھپی تھی۔

ملک میں کچھ لوگ بھٹو کو کوستے رہے، کچھ بھٹو کی یاد میں خود سوزی کرتے رہے ؛ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور ملک سے جمہوریت کا ایک باب ختم ہوا، لوگ ابھی اسی صورت حال کو رو رہے تھے کہ افغانستان میں روس نے پیش قدمی کر دی، خودساختہ امیر المومنین نے امریکی ڈالروں پر جہاد میں پوری قوم کو جھونک دینے کا فیصلہ کیا۔ اگر اس وقت پاکستان میں کوئی جمہوری حکومت ہوتی تو کبھی بھی اس ضرر رساں مہم میں شریک نہیں ہوتی۔ گیارہ سال تک ہم نے خود کو اس جہاد میں برباد کیا؛ اپنا سماج، ثقافت، معیشت سب کچھ امریکی ایماء پر بھاڑ میں جھونک دیا۔

اس وقت ہمیں اس نقصان عظیم کی شدت کا علم نہ ہو سکا اس لیے کہ اس وقت کا میڈیا ہمیں جہاد کے فضائل بتا رہا تھا اور پیٹیوں میں بھرے امریکی ڈالروں کی خبر چھپا رہا تھا۔ اس واقعے کے بیس سال کے بعد ہمیں سمجھ میں آیا کہ اگر افغانستان میں روس کے حملے کے وقت پاکستان میں ایک جمہوری حکومت ہوتی تو نہ وہ امریکہ کا ساتھ دیتی، نہ عالمی بساط پر ایک مہرہ بنتی، اس لیے اس واقعے سے دو سال پہلے ہی بھٹو کا پتا کاٹ دیا گیا تھا۔ غیر جمہوری طاقتوں کا تسلط ہی اس طرح کے مجرمانہ فیصلے کروا سکتا ہے۔ بات ابھی ختم نہیں ہوئی، ابھی سنتے جائیے :

سنہ 1999 میں جنرل مشرف نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا، نواز شریف کو پہلے قید کیا پھر دس سال کے لیے جلاوطن کر دیا۔ میڈیا نے ہمیں بتایا کی بات کرپشن کی تھی، جنرل مشرف ایک مطلق العنان حکمران بن کر ہم پر مسلط ہو گیا، لمحوں میں پی ٹی وی فتح ہوا، چند گھنٹوں میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ جنرل مشرف کے اقتدار میں آتے ہی زر خرید میڈیا نے ہمیں بتایا کہ ملک کی معیشت کا برا حال تھا، کرپشن گھن کی طرح قومی خزانے کو چاٹ رہی تھی، لوگ غربت کے مارے خود کشی کر رہے تھے۔

جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ملکی حالات نہ بدلے لیکن دو سال بعد نائین الیون کا سانحہ ہوا، ہمیں ایک بار پھر ڈالروں کی امید ہونے لگی۔ امریکہ سے ہمیں ایک کال پر اپنے ہی لوگوں پر جنگ مسلط کرنے کا حکم ملا۔ اس وقت کوئی جمہوری حکمران ہوتا تو ایک کال پر سرنگوں نہ ہو جاتا لیکن عالمی طاقتیں اس موقع کے لیے پہلے ہی پاکستان میں جمہوریت کا بندوبست کر چکی تھیں۔ جنرل مشرف نے اپنی نوکری بچانے کے لیے قبول و ایجاب کیا، وار آن ٹیرر کا اپنے ملک میں آغاز ہوا، اپنے ہی تربیت یافتہ لوگوں کو ہم نے ڈالروں کے بدلے امریکہ کے ہاتھ فروخت کرنے کا جرم کیا، اپنے ہی لوگوں پر بمباری کی، اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا لیکن ٹھہریے! یہ سب ہمیں اس وقت نہیں معلوم تھا بلکہ اس کا علم ہمیں دہائیوں کے بعد ہوا کہ پاکستان کس طرح عالمی طاقتوں کے کھیل میں ایک بار پھر کھلونا بنا، کس طرح غیر جمہوری قوتوں کو وقت سے پہلے ملک میں انسٹال کیا گیا، کن مقاصد کے تحت یہاں جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی۔

اب تیسری مثال سنیے : 2018 ء میں نواز شریف حکومت کو دھاندلی کے ذریعے ختم کیا گیا، یہ سب کچھ کھلے عام کیا گیا، اس دفعہ مارشل لاء تو نہیں لگا لیکن ایک ہائی برڈ نظام حکومت ضرور تخلیق کیا گیا جس کا حکومت کی کارکردگی سے، معیشت سے، خارجہ پالسی اور قومی سلامتی سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔ اس حکومت کو صرف شجر کاری کے لیے رکھا گیا ہے۔ اہم فیصلوں کی آبیاری اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔ اب اسے اتفاق کہیں یا شومئی قسمت کہ اچانک امریکہ نے افغانستان سے رخصت کا فیصلہ کر لیا، آگے کیا ہو گا؟

یہ ہمیں معلوم نہیں لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر ہمیشہ پاکستان امریکی حکومت کے آگے آداب بجا لاتا ہے۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ خدمات کیا ہوں گی؟ کیا ہم عالمی طاقتوں کی اک نئی جنگ میں پھر روندے جائیں گے؟ یہ ہمیں ابھی معلوم نہیں ہو گا، اس زرخرید میڈیا کے دور میں یہ خبر ہم تک بیس سال کے بعد پہنچے گی کہ اس وقت ہم نے کیا کھویا، کیا پایا، کیا بیچا، کیا خریدا؟ کس بات پر سمجھوتا کیا اور کس بات پر قومی سلامتی کا پرچم سرنگوں کیا۔

یہ ہمیں ابھی معلوم نہیں ہو گا، دہائیوں کے بعد جب ہمیں آج کی بین الاقوامی سازشوں کے بارے میں علم ہو گا اس وقت تک پلوں تلے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا۔ فی الوقت اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ پاکستان میں ایک غیر جمہوری حکومت کا قیام اور عالمی طاقتوں کا افغانستان سے انخلاء اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں کوئی ایسی نوکری ملنے والی ہے جس کو ملک کی جمہوری قوتیں گوارا نہ کر سکتیں۔ آنے والے دنوں میں ہونے والے فیصلوں کے لیے ایک دفعہ پھر ملک ان ظاہری اور باطنی حکمرانوں کی زد میں ہے جو ماضی کی روایات کی پاسداری کا بھرپور ثبوت دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

ابھی ہمیں کچھ معلوم نہیں اس بار ہم سے کیا کام لیا جائے گا۔ ہماری کیا ڈیوٹی لگے گی اور ہمیں کس کے خلاف صف آراء ہونا پڑے گا۔ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ پھر ہمیں ایسے ضرر رساں فیصلے درپیش ہوں گے جن کی تاب کوئی بھی عوام کے ووٹ سے منتخب حکومت نہیں لا سکتی۔ اس لیے جمہوریت کی بساط عالمی منصوبہ سازوں نے پہلے ہی اس ملک میں لپیٹ دی ہے۔ ہمارے حالات یہی بتاتے ہیں کہ پھر کسی کو کسی کا امتحاں مقصود ہے؟

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: