نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دیسی گورے اور گوریاں||رسول بخش رئیس

ہمارے ہاں اور دیگر ماضی کے نوآبادیاتی ممالک کے عصری دانشور یہ رونا تو نہیں چھوڑتے کہ مغرب کے آثار کس طرح ہمارے معاشروں میں اثر کر رہے ہیں‘ مگر اسباب کو فروعی خیال کرتے ہیں‘

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیسی میں فطری طور پر رچی بسی چاہت‘ الفت اور پُرلطف اپناپن محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس کا تعلق زمین‘ قریبی معاشرے‘ تاریخ اور اردگرد کے ماحول سے ہے‘ جس میں ہم نے زندگیاں گزار دی ہیں۔ ہر دیس میں انسان نے مہیا وسائل‘ آب وہوا‘ موسموں کے تغیر اور موجود ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ضرورت کی اشیا تخلیق کی ہیں۔ کئی معاشروں میں وسائل‘ پیداوار کی نوعیت اور بازاروں میں کھپت ارتقائی رہی ہے۔ مغرب ہو یا مشرق‘ شہروں کی تشکیل میں بنیادی کردار اوائل میں ضرورت سے زیادہ زرعی پیداوار کے عمل نے ادا کیا۔ ہمارے ہاں تقریباً ہر نیا شہر منڈی کی صورت میں آباد ہوا۔ انقلابی زرعی تبدیلی انگریزوں کے زمانے میں نہری نظام لایا۔ منڈیوں میں آج بھی ملک کے کونے کونے سے پھل‘ اجناس‘ سبزیاں لائی جاتی ہیں۔ آج بھی ہر ضلع اور تحصیل میں کہیں کہیں تو ہفتے میں تین چار بار مویشیوں کی منڈیاں لگائی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ضرورت کا ہر سامان بیچنے والے دکاندار بھی کناروں پر اپنا اپنا مال سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مقامی‘ شہری اور ملکی معیشت کی گاڑی اس طرح کے کاروباروں سے چلتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انگریزی دور سے متعارف جدید معیشت اور کاروباری نظام نے ہماری صدیوں سے نسل در نسل چلنے والی دستکاریاں اور ان کے فنی اور علمی خزانے برباد کر ڈالے۔ برطانیہ اور یورپ میں صنعتی دور سے پہلے بھی عالمی تجارت ہوتی تھی۔ زیادہ تر اشیا کا رخ چین اور ہمارے خطے سے تھا۔ ریشم‘ کپاس کا کھڈیوں پہ بُنا نفیس کپڑا اور چینی کے خوبصورت برتن مغرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے امیر گھرانے استعمال کرتے اور اپنے گھروں کی زینت بنا کر فخر محسوس کرتے۔ استعماریت کی تاریخ اور اس کی تباہ کاریوں پر نظر ڈالیں تو مغلوب ممالک اور معاشروں کی صنعت کو منصوبہ بندی سے تہ و بالا کیا گیا۔
صنعتی پیداوار‘ سائنسی علم اور ان سے وابستہ فنون معاشروں کے تشخص اور ان کے ثقافتی دھاروں کو دھیرے دھیرے تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اور دیگر ماضی کے نوآبادیاتی ممالک کے عصری دانشور یہ رونا تو نہیں چھوڑتے کہ مغرب کے آثار کس طرح ہمارے معاشروں میں اثر کر رہے ہیں‘ مگر اسباب کو فروعی خیال کرتے ہیں‘ جو میرے نزدیک بنیادی ہیں اور ان کا تعلق جدید قومی‘ عالم گیر اور وسعت پذیر صنعتی ترقی اور ہر نوع کی دل کش اشیا سے ہے‘ جن کے حصول میں ہم لگے رہتے ہیں۔ ایک ہی مثال یہاں کافی ہے‘ کہیں بھی مشاہدہ کر کے دیکھ لیں کہ مرد و خواتین اور نوجوان بیٹھے اور چلتے دستی فون کانوں پر لگائے اپنی اپنی دنیائیں بسائے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گردوپیش سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ گھر میں داخل ہوں اور اہلِ خانہ میں کچھ موجود ہوں تو ٹیلی وژن کے رنگ ماحول کو روشن رکھے ہوئے ہوں گے۔ ہمارے جیسے پُرانی طرز کے لوگوں کو ایسی عادات ہرگز نہیں بھاتیں‘ مگر شخصی آزادی کے اس دور میں آپ کیا اور کس سے شکایت کر سکتے ہیں۔ صرف دو دہائیوں میں‘ یعنی ایک نسل میں عالمی صارفی لشکر کشی نے ہمارے دور دراز کے دیہات تک فتح کر لیے ہیں۔ سات اکتوبر دو ہزار ایک کو جب امریکی اور اتحادی افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ختم کرکے وہاں ”جمہوریت‘ آئین اور آزادیوں پر مبنی نئی ریاست اور قوم‘‘ بنانے کے لیے حملہ آور ہوئے تو عالمی میڈیا نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ چند کی نظرِ انتخاب خاکسار پر پڑی۔ چند دن گزرے تو سی این این نے اصرار کیا کہ میں یہ خدمت ان کے لیے وقف کر دوں‘ اچھا معاوضہ ملے گا۔ دو شرطیں تھیں۔ پہلی‘ کسی اور نیٹ ورک کو انٹرویو نہیں دوں گا۔ دوسری‘ میرے پاس دستی فون کی سہولت ہو۔ دوسری شرط نے میرے لیے مشکل پیدا کر دی۔ روایتی‘ سادہ اور آسان طرزِ زندگی کا خوگر دستی فون کے چکر میں پھنسنا پسند نہیں کرتا تھا۔ ناچار لینا پڑا۔ اب یہ ضرورت بن چکا ہے۔ دن رات ساتھ‘ سرہانے اور کسی محفوظ جیب میں پڑا اپنے قیمتی وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ سب کا یہی حال ہے۔
ثقافت اور طرزِ زندگی کبھی بھی اپنے طور پر آزاد نہیں رہے۔ ہر دور کی معیشت اور ٹیکنالوجی کے ہموار کردہ راستوں پر چل کر نئی شکل بناتے اور منزلیں طے کرتے رہے ہیں۔ عربوں‘ ترکوں اور اب چینیوں اور جاپانیوں کو دیکھیں اور ذرا سوچیں کہ آخر کیسے تبدیلی آئی۔ جدید صنعتی پیداواری اشیا ہوں‘ شہروں کا ہمارے ہاں بگاڑ‘ یا منظم صنعتی معاشروں میں ان کا اعلیٰ معیار اور مناسب ترتیب‘ سب کا تعلق اس بات سے ہے کہ صارفین‘ شہری ماحول اور بازاروں میں سجائی گئی اشیا کے درمیان فطری تعلق ہم کیسے جوڑتے ہیں۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں پہلی ترجیح یہ ہے کہ ان کے ہاں جو اشیا موروثی طور پر پیدا ہوتی رہی ہیں‘ ان صنعتوں اور زرعی پیداوار کو تحفظ دیا جائے۔ اگر وہ تبدیل کی گئیں تو ان کو نئے سائنسی سانچوں میں ڈھالا گیا ہے‘ مگر ان کا روایتی انداز اور ظاہری حلیہ نہیں بگاڑا گیا۔ ہمارے ہاں تو انگریزی راج نے جدیدیت کے نام پر جو تباہی مچائی وہ ہمارے گوروں اور گوریوں نے برقرار رکھی ہوئی ہے۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد خصوصاً پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں صنعت کاری ہوئی‘ بڑی ہوئی اور چھوٹی بھی۔ کراچی اور پنجاب میں لائل پور‘ منٹگمری‘ گوجرانوالہ‘ گجرات اور سیالکوٹ چھوٹی صنعتوں کے مرکز بنے۔ جو بنا تھا‘ ایک ہی جملے میں مقبول ترین عوامی رہنما یعنی فخرِ ایشیا نے ”مساوات‘‘ قائم کرنے کی غرض سے تباہ کر ڈالا۔ کچھ نے بعد میں سنبھلنے کی کوشش کی‘ مگر پھر چالیس سالہ جمہوریت اور ان کی غلام نوکر شاہی نے تباہ کر ڈالا۔ جمہوریت کے انتقام سے پہلے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص پنجاب کے کسی کونے میں گھر تعمیر کرتا تو سب سامان گوجرانوالہ سے ٹرک میں بھر کر لے آتا۔ آج سے چھبیس سال قبل اسلام آباد میں‘ میں نے بھی یہی کیا تھا۔ آج بازار میں ہم پاکستان کی بنی چیزیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کہیں کہیں دستیاب تو ہیں‘ مگر عام صارف قائل نظر نہیں آتا۔ اس بات کا آپ اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ گزشتہ سال چین سے ہم نے انیس ارب ڈالر کی درآمدات کیں اور برآمدات صرف اڑھائی ارب ڈالرز کی تھیں۔ وہ بھی ہمیں کہتے ہیں کہ آپ بتائیں‘ کیا ہمارے ہاں بازاروں میں لا کر فروخت کر سکتے ہیں؟ وزیر اعظم عمران خان کی سادگی پہ ہم کیا کہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم جوہری ہتھیار تو بنا سکتے ہیں‘ چھوٹی چیزیں کیوں نہیں بناتے۔ ہمارے حکمران اور نوکر شاہی‘ دونوں درآمدات سے جڑے بااثر اور مضبوط کاروباری خاندانوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ یہاں بنائیں تو پیداواری اخراجات اور ٹیکسوں کی اتنی بھرمار ہے کہ درآمد شدہ اشیا سستی بازار میں بکتی ہیں۔ کوئی ہے پاکستان ‘یہاں کے صنعتکاروں اور مزدوروں کا درد رکھنے والا‘ جو یہاں کی چھوٹی صنعتوں کو بحال کرا سکے۔ ایک زمانہ تھا‘ جب گجرات میں چینی کے بہت خوبصورت ڈنر سیٹ بنتے تھے۔ کئی سالوں سے انتظار میں ہوں کہ شاید بجھی ہوئی بھٹیاں دوبارہ تازہ ہو جائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا‘ جو ہے‘ وہی میز پر رکھیں گے۔ کپتان صاحب خود سے شروع کریں‘ کابینہ کے اراکین اور اپنی پارٹی سے ابتدا کریں‘ سرکاری دفاتر اور سرکاری تقریبات میں صرف ”ساختہ پاکستان‘‘ چیزیں استعمال ہوں۔ چمک اور زرق برق کی چکاچوند ترک کریں‘ جو کچھ وطنِ عزیز میں بنتا ہے‘ وہ استعمال میں لائیں۔ چھوٹی بڑی چیزیں بننا شروع ہو جائیں۔ لوگوں کے مزاج انگریزوں نے دیسی کے خلاف بنا دیئے تھے۔ انہوں نے ولایتی کو ایک معیار کی شناخت کے طور پر اتنا اچھالا کہ آج بھی صارف بازار میں مطالبہ کرتا ہے کہ ”ولایتی چاہیے‘‘۔ میں دوستوں‘ عزیزوں‘ طلبا اور اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ حکمرانوں کے مزاج نہیں بدلیں گے‘ آپ خود اپنا بدل لیں۔ ولایتی احساسِ کمتری سے نکلیں۔ مجھے تو دیسی چاہیے!

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author