نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظر نامہ ( پہلی قسط )||حیدر جاوید سید

یہ تقریباً درست بات بھی ہے جس طرح دس دنوں میں طالبان نے 60سے زائد اضلاع اور ایک سرحدی مقام (تاجکستان کی سرحد) پر قبضہ مستحکم کیا اس سے یہ امر دوچند ہوجاتاہے کہ امریکی کبھی بھی افغانستان کے جمہوری عمل کے حوالے سے سنجیدہ نہیں تھے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں فی الوقت جو صورتحال بتائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران طالبان مختلف صوبوں کے 60سے زائد اضلاع پر قبضہ کرچکے۔ منگل کو طالبان نے تاجکستان سے ملحقہ سرحدی چوکیوں پر قبضہ کیا تو ان چوکیوں پر موجود اہلکار بھاگ کر تاجکستان کی حدود میں چلے گئے۔ منگل کو ہی طالبان نے جنرل رشید دوستم کے آبائی قصبے پر قبضے کا دعویٰ بھی کیا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کابل کی فتح تک طالبان رکنے والے نہیں۔ ان سطور کے لکھے جانے سے کچھ دیر قبل امریکی حکام کا ایک بیان سامنے آیا کہ
’’اگر طالبان نے قطر معاہدہ پر عمل نہ کیا تو امریکی انخلا سست کردیا جائے گا‘‘۔
قطر معاہدہ میں تو امریکہ نے صرف اپنے اور نیٹو کے حوالے سے ضمانت حاصل کی تھی۔ اس وقت بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی جارہی تھی کہ اگر یہ معاہدہ سہ فریقی نہ ہوا تو بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔
بہرطور اب صورت حال یہ ہے کہ طالبان تیزی سے آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ طالبان کے خلاف کارروائی کی دعویدار افغان سکیورٹی فورسز کے لگ بھگ اڑھائی ہزار اہلکار گزشتہ دس دنوں کے دوران اسلحہ سمیت طالبان سے جاملے۔
اطلاع یہ ہے کہ طالبان نے ان سکیورٹی اہلکاروں سے خدمات لینے کی بجائے یہ کہہ کر طویل رخصت پر بھیج دیا ہے کہ امارات اسلامی ان کی خدمات کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے تعاون سے طویل عرصہ تک افغانستان کا صدر رہنے والے حامد کرزئی ایک بار پھرامریکہ کو للکارتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
کرزئی کہتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان کو برباد کردیا۔ یقیناً یہ درست بات ہوگی لیکن کیا اس بربادی میں کرزئی کا کوئی کردار نہیں؟
افغان سیاست کا المیہ یہی ہے رنگ اورزبان بدلتے لمحہ بھر کی دیر نہیں لگتی۔
آپ حامد کرزئی کے حالیہ بیانات کو لے لیجئے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجاہد آزادی سامراجی قوت کو للکار رہا ہو۔
ستمبر کے وسط تک امریکی انخلاء کو مکمل ہونا ہے کیا واقعی یہ انخلا کے لئے دیاگیا وقت حتمی ثابت ہوگا؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ وہ عظیم افغان سکیورٹی فورسز کہاں ہیں جنہیں امریکہ اوراتحادیوں نے برسہابرس تربیت دی، جدید اسلحہ فراہم کیا؟
کیا اب ایسا نہیں لگ رہا کہ امریکہ سے کھاپی لیا، 20سال گزارلئے اب طالبان کی آمد متوقع سے ” زیادہ” دیکھائی دے رہی ہے تو نئی وفاداریوں کے لئے تیاریاں ہورہی ہیں۔
مجھے صمداللہ اچکزئی اور مرتضیٰ شبلی کی یہ بات حقیقت کے قریب لگتی ہے امریکی کوشش کریں گے کہ کابل اور بڈگرام کے ہوائی اڈے طالبان کے ہاتھ نہ لگنے پائیں۔
کیا ہم یہ سمجھیں کہ ایک بار پھر کابل میدان جنگ بننے جارہاہے۔ ایسا ہوا تو نتائج کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
عجیب سی کھچڑی پک رہی ہے۔ قطر معاہدہ امریکہ اور طالبان کے درمیان تھا امریکیوں نے افغان حکومت کو اس میں شامل نہیں کیا تو کیا اب امریکہ اور طالبان دونوں قطر معاہدے سے پیچھے ہٹیں گے یا پھر انخلا کے عمل کو سست کرکے امریکی کابل کو طالبان کی دسترس سے بچانے کی کوشش کریں گے۔
یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی انخلا کے بعد طالبان جس طرح "فتوحات سمیٹتے ” چلے آرہے ہیں فی الوقت تو ان کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر رہا لیکن اگر کابل کے باہر مزاحمت ہوتی ہے تو پھر خانہ جنگی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ تاجکستان سے ملحقہ سرحدی چوکیوں پر طالبان کا قبضہ معمولی بات نہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغان سکیورٹی فورسز مزاحمت کے موڈ میں بالکل نہیں۔
تو کیا کابل پھر سے ڈاکٹر نجیب اللہ کے آخری ایام والا شہربننے جارہا ہے؟
ایسا ہوا تو افغانستان پھرایک بند گلی میں پھنس جائے گا جس سے نکلنے کے راستے پر طالبان قابض ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ نے طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر لابیٹھانے سے گریز کیوں کیا اور کیا اب وقت خود امریکیوں کے ہاتھ سے نکل نہیں گیا۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں کے دوران ہوئے جمہوری تجربات، اربوں ڈالر کی امداد، تعمیروترقی کے دعوے ان سب سے بڑھ کر انتخابی عمل میں افغان عوام کی بڑی تعداد کی شرکت ان سب کامستقبل کیا ہے؟
کڑوا سچ یہ ہے کہ حالات دن بدن خراب ہورہے ہیں۔ افغان امور کے تجزیہ کار درست کہتے ہیں کہ افغانستان ایک بار پھر 9/11 سے قبل والے دنوں میں کھڑا ہوتا محسوس ہورہا ہے۔
یہ تقریباً درست بات بھی ہے جس طرح دس دنوں میں طالبان نے 60سے زائد اضلاع اور ایک سرحدی مقام (تاجکستان کی سرحد) پر قبضہ مستحکم کیا اس سے یہ امر دوچند ہوجاتاہے کہ امریکی کبھی بھی افغانستان کے جمہوری عمل کے حوالے سے سنجیدہ نہیں تھے
بلکہ انہوں نے جمہوری نظام کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ یہ امر بھی دوچند ہے کہ فی الوقت تو طالبان کو جوابی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے لیکن کیا آنے والے دنوں میں امارات اسلامی سے اختلافات رکھنے والے گروہ خاموشی سے طالبان کی بالادستی قبول کرلیں گے یا پھر وہ بھی مزاحمت کے لئے منظم ہورہے ہیں۔ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ہی مل سکتا ہے۔ اس وقت تو یہی لگ رہا ہے کہ طالبان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ ہے نہ مزاحمت کا خطرہ اور وہ ہفتہ دس دن میں کابل کے دروازے پر دستک دے رہے ہوں گے۔ بہرطور 20سالہ جمہوریت کی بساط الٹتی دیکھائی دے رہی ہے۔ ایسا ہوا تو ایک بار پھر پڑوسی ممالک کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،
اس حوالے سے اگلے کالم میں عرض کروں گا
جاری ہے

یہ بھی پڑھیں:

About The Author