نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زبان درازی اور ثقافت||رسول بخش رئیس

بھٹو صاحب کمال کے عوامی مقرر تھے۔ مجمع پر چھا جاتے۔ عام آدمی کے ساتھ بات کرنے پہ ایسا ملکہ حاصل تھا جو بعد میں ہم کسی دوسرے رہنما میں نہ دیکھ سکے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ ہفتے اپنے مقتدر ترین ادارے‘ پارلیمان کے اندر اور باہر جو دیکھا اور سنا‘ اس سے آپ کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ ہمارے منتخب عوامی نمائندوں کی ذہنی استعداد کیا ہے۔ ہمیں تو کبھی کوئی شک نہیں تھاکہ دہائیوں سے بنتے‘ بگڑتے اور پھر بنتے سیاسی اکھاڑوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ تقابلی جائزہ لیں تو شعور‘ صلاحیت‘ تہذیب اور ادب و لحاظ میں بے پناہ زوال دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلی دستور ساز اسمبلی میں تو قدآور شخصیات تھیں۔ تحریکِ آزادی کے تجربے اور جدوجہد سے سنور کر نکلے تھے۔ مغرب و مشرق کے تعلیمی اداروں اور اس دور کی سیاست کے متنوع نظریاتی دھاروں سے فیضیاب تھے۔ مستقبل کے نقوش کے بارے میں جب قوموں اور عوام کی تقدیریں لکھی جانی تھیں اور جذباتی کیفیت تھی‘ بہترین ہتھیار دلیل‘ منطق‘ قانون‘ آئین اور نظریات تھے۔ دو ریاستیں قائم ہو گئیں تو ان میں آئینی بحثیں چھڑ گئیں۔ صوبوں کے اختیارات کیا ہوں؟ قومی زبان کیا ہو؟ مذہب اور ریاست کا رشتہ کیا ہونا چاہئے؟ یہاں تک کہ وہ بھی سیاسی میدان میں تھے‘ جنہوں نے ریاستوں کی آئینی اور جغرافیائی جائزیت کے بارے میں سوال اٹھائے تھے۔ تمام اختلافات اپنی جگہ‘ سب کی زبان شائستہ تھی‘ قومی افق پر نمایاں سیاستدان ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ الزام لگے‘ غلط فہمیاں بھی کچھ حلقوں میں رہیں‘ سرکاری طور پر ایسے اقدامات بھی کئے گئے‘ جن کی آئینی صحت کے بارے میں تنقید جائز ہے‘ مگر باہمی طور پر تلخیاں نہ تھیں‘ زبانیں زہر فشانی نہ کرتیں۔ تنقید ہوتی ‘مگر ذاتی تضحیک‘ تذلیل اور نفرت آمیز لہجے‘ جو آج پاکستان کی سیاست میں غالب ہیں‘ تب سیاسی بونوں کیلئے چھوڑ دیئے گئے تھے۔
نصف صدی قبل ایوبی دور کے خاتمے کے بعد پاکستان کی سیاست تقسیم در تقسیم کی سیاست تھی۔ اس دور کے کچھ مدہم رنگ اب بھی موجود ہیں۔ لسانیت‘ مذہبی جوش و جذبہ‘ صوبوں کے درمیان تنائو‘ جمہوریت اور آمریت‘ اشتراکیت اور سرمایہ داری‘ سب ایک دوسرے کے مقابل تھے۔ اس دور کا پیداکردہ نظریاتی ادب اور سیاسی ورثہ تخلیق و تنقید کا بہترین نمونہ ہے۔ سب نظریاتی اور سیاسی گروہوں اور رہنمائوں نے اپنا مقدمہ شدومد سے لڑا‘ بہترین دلائل سامنے لائے۔ ہماری یا کسی اور ملک کی تاریخ میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں‘ جہاں سیاسی نظریات کی متنوع منڈی سجی ہو اور تادیر۔ چونکہ ہم نے علمِ سیاست کی دہلیز پر قدم رکھا تھا‘ اور جمہوری تحریک میں اپنے تعلیمی اداروں کی حد تک اور طلبا تنظیموں کے دائرے میں عملی شرکت بھی کی‘ چنانچہ بہت کچھ پڑھنے‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ ہر دور کا نسلی تعصب ضرور ہوتا ہے‘ مگر اس بارے میں تاریخ کی گواہی کمزور نہیں کہ ایوب خان کے زوال سے لیکر بھٹو کے عروج کے چند سالوں تک‘ یہ آزادیوں اور فکری مباحث کے لحاظ سے سنہری دور تھا۔ پھر جیسے جمہوریت کو اپنی ہی نظر لگ گئی۔ عوامی طاقت کا نشہ اتنا چڑھاکہ قدم لڑکھڑا گئے۔
بھٹو صاحب کمال کے عوامی مقرر تھے۔ مجمع پر چھا جاتے۔ عام آدمی کے ساتھ بات کرنے پہ ایسا ملکہ حاصل تھا جو بعد میں ہم کسی دوسرے رہنما میں نہ دیکھ سکے۔ ان کی تقریر جذبات‘ امنگوں‘ خود اعتمادی اور مسیحائی کا مرقع ہوتی تھی۔ ستتر کی انتخابی مہم کے دوران لاکھوں لوگ ان کے جلسوں میں آتے۔ اس خاکسار کو بھی کئی جلسوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بعض اوقات تقریر میں شدتِ جذبات سے کچھ کہہ جاتے تو معذرت بھی کر لیتے۔ ایک مشہور تقریر میں انہوں نے سیاسی مخالفوں کے بارے میں کچھ غلط کہہ دیا‘ پھر فوراً کہا ”کاٹ دو‘ کاٹ دو‘‘۔ احساس تھا کہ غلط بات کہہ دی ہے۔ مجموعی طور پر اپنے سیاسی مخالفین کو پچھاڑتے بھی تھے۔ سیانوں کی بات یاد ہے کہ ”اپنے دشمن کو حقیر مت سمجھو‘‘ وہ تو اقتدار اور طاقت کی بلندیوں سے حزبِ اختلاف کو حقیر سمجھتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے‘ بہت سوں کی کشتیاں ایسے ہی ڈوبی ہیں کہ سیاسی سیلابوں اور طوفانوں نے انہیں ناگہانی آ لیا۔
اس زمانے میں پنجاب کے ادبی اور سیاسی حلقوں میں جاری بحثوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آخر ذوالفقار علی بھٹو کو پنجاب میں کس چیز نے مقبولیت بخشی ہے۔ عوامی سیاست‘ روٹی کپڑا اور مکان اور مساوات کے نعرے تو عام تشریحات میں سے ہیں۔ ان سے انکار مقصود نہیں۔ پنجاب کی ثقافت کے لحاظ سے کئی لکھاریوں نے یہ نکتہ اٹھایاکہ بھٹو نے سیاسی میدان میں پنجاب کے ”ہیرو‘‘ کا فلمی کردار ادا کیا ہے کہ دشمن کو للکارتے‘ بڑھکیں مارتے‘ نعرے لگاتے‘ اچھائی‘ بُرائی کی ابدی جنگ میں وہ خود کو صداقت کے قافلے کا سالار بنا کر پیش کرتے۔ پنجاب میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک جاگیرداروں کی گرفت سے آزاد ہوکر غریب انکے ساتھ جا ملا۔ میرے نزدیک یہ ہوائی‘ اڑتے پھرتے تجزیے ہیں۔ یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست کی زبان اور لہجہ‘ ہر دور کے عوامی رویوں کو متاثر کرتے ہیں‘ لیکن اثر کا تعلق بھی وقتِ موجود کے سیاسی اور سماجی حالات کے تابع ہوتا ہے۔
گلی کوچے کی زبان معاشرے کی گہری‘ تاریخی اور اصلی ثقافت کا کہیں بھی عکس نہیں‘ اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ جو زبان پارلیمان میں بولی گئی‘ اور جو سلوک سیاسی مخالفین نے ایک دوسرے کے ساتھ پارلیمان کے اندر روا رکھا‘ وہ پنجاب یا پاکستان کے کسی بھی علاقے کے ثقافتی رنگ سے میل نہیں کھاتا۔ برا نہ منائیں‘ تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا۔ پارلیمان کی تقدیس کی جو قسمیں کھاتے ہیں‘ اور جن کا عزت و احترام اس کا رکن بننے سے واجب ہے‘ انہوں نے پارلیمان کو مچھلی منڈی بنا رکھا ہے اور اب نوبت گالی گلوچ ‘ دھکم پیل اور ہاتھا پائی تک آگئی ہے۔ باہر آکر ہمارے ”ابھی تک محترم‘‘ روحیل اصغر صاحب نے کیمرے کے سامنے یہ کیا کہہ دیا کہ ”گالی گلوچ تو پنجاب کا کلچر ہے‘‘۔ شکل اور الفاظ برقی پٹی میں بند ہزاروں بار دیکھے جا چکے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ وہ اور ان کی جماعت کے دیگر رہنما‘ جن کی حمایت پنجاب میں ابھی کچھ درجے باقی ہے‘ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو شخصی غیرذمہ داری کو پنجاب کے سر تھونپنے سے ان کی جگ ہنسائی جیسے ہورہی ہے‘ ہوتی رہے گی۔ شاید ان سے سیاسی نفرتوں کے جذباتی اور سیاسی گردوغبار کے ماحول میں غلطی ہوگئی ہے۔ پنجاب کی گہری فکری اور حقیقی ثقافت میں غلطی کو تسلیم کرلینا بڑائی خیال کی جاتی ہے۔ علم و حکمت بھی یہی سکھاتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے‘ نہ کیا تو بوجھ بڑھتا جائے گا۔
دل کی بات کہوں تو دل بہت دُکھا ہے۔ اس بات پہ تو ضرورکہ معزز رکن پارلیمنٹ نے کیا بات کہی‘ مگر اس سے زیادہ اس بات پہ کہ عصرِ حاضر کے پنجاب کے فکری اور سیاسی رہنما پنجاب کی ثقافت سے کتنے نابلد ہیں۔ ہزاروں سال سے وادیٔ سندھ کا یہ زرخیز خطہ اپنے رنگارنگ پانیوں کے بہائو کے ساتھ کتنے زمانے دیکھ چکا ہے۔ کبھی سوچا‘ اس خطے نے کتنے بابوں‘ ادیبوں‘ مفکروں اور علم و حکمت کے خزانوں کو جنم دیا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کی صرف ایک ”کشف المحجوب‘‘ ہزاروں کتابوں کا اختصار ہے۔ بلھے شاہؒ‘ وارث شاہؒ‘ فرید گنج شکرؒ اور دوسرے صوفیائے کرام نے جو لکھا اور فرمایا‘ کبھی اس سے فیض یاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سب کے پیغام کی روح انکساری‘ انسانیت‘ احترامِ آدمیت‘ محبت‘ رواداری‘ حق و صداقت‘ انصاف‘ ایثار اور دلجوئی ہے۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہماری سیاست کبھی بھی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کی حکمت آمیز‘ گہری فکری ثقافت کی ترجمان نہ تھی۔ سیاست تو دورِ رواں کے کھلاڑیوں کی طرزِ فکر‘ مفادات اور تعصبات سے مرتب ہوتی ہے۔ زبان درازی کہیں بھی واقع ہو‘ زبان درازی ہی ہوتی ہے۔ ثقافت میں اس کیلئے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔ بہتر ہے غلطی مان لیں‘ پنجاب جاگ اٹھا اور غیرت کی نمود ہو گئی تو آپ کی سیاسی مسندیں ہوا میں تحلیل ہو جائیں گی۔ بات غیرت اور جاگنے پر منحصر ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author