مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہندوستان اور پاکستان کے رشتوں پر تبصرہ||محمد حنیف

اگر کبھی ہندوستان پاکستان والی گرہ کھل گئی، اور کسی ٹاہلی کے نیچے میل ہو گیا، تو ایک دوسرے سے سب سے پہلے یہی پوچھیں گے کہ جو 1947 میں لوٹ شروع ہوئی تھی، یہ آخر کب ختم ہو گی؟

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان اور ہندوستان 75 سال کے ہو گئے ہیں۔ اگر انسان کے بچے ہوتے تو اب تک بوڑھے ہو گئے ہوتے۔ کسی ٹاہلی کے نیچے بیٹھ کر پرانی باتیں یاد کرتے۔ ہنس دیتے رو لیتے، یہ کہتے کہ جو ہونا تھا ہو گیا۔ جانے دو، ہم نے لڑ بھڑ کر اپنی ساری زندگی گزار دی ہے، اب اگلی نسلوں کے لیے کوئی صلح صفائی کی بات کر لیں۔ لیکن نہیں۔ جو شریکا پچھتر برس پہلے شروع ہوا تھا وہ آج تک نہیں ختم ہوا۔

جن بابوں اور مائیوں نے پارٹیشن دیکھی تھی ان میں سے کئی ابھی بھی حیات ہیں۔ ہمارے کچھ بزرگ پارٹیشن کو نہ آزادی کہتے ہیں اور نہ انہیں یہ یاد ہے کہ ہم نے 1947 میں انگریزوں سے جان چھڑائی تھی، یا ایک نیا ملک بنایا تھا۔ وہ تو بس یہ کہتے ہیں کہ 47 میں لوٹ مچی تھی، ہماری دنیا اوپر نیچے ہو گئی تھی۔

اب ہندوستان اور پاکستان وہ جوڑا بن گئے ہیں جو ہر محلے میں ہوتا ہے۔ ہر روز وہاں برتن کھڑکنے کی آواز آتی ہے۔ لڑائیوں کی بھی آوازیں آتی ہیں۔ عورت کہتی ہے کہ میرے نصیب میں تیرے جیسا ایک موالی ہی لکھا تھا، اور بندہ کہتا ہے کہ تو بھی جھگڑالو ہے اور تیری ماں بھی جھگڑالو ہے۔

محلے والے یہ اینٹ کھڑکا سن سن کر اب بور ہو گئے ہیں۔ کوئی ایک بھی آ کر نہیں پوچھتا کہ اتنا لڑتے کیوں ہو۔ ویسے کبھی ہندوستانی پاکستانی مل بیٹھیں تو پپیاں جپھیاں بھی شروع کر لیتے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ تو بالکل ہمارے جیسے ہی نکلے۔ مجھے بھی دو چار مرتبہ یہ سننے کا موقع ملا ہے، میں نے دل میں کہا کہ آپ کا کیا خیال تھا کہ بارڈر کے دوسری طرف بندر رہتے ہیں؟

پھر ہر پانچ دس سال بعد شریکا واپس آ جاتا ہے۔ ادھر کوئی کہتا ہے کہ ہم گھس کر ماریں گے، دوسرے یہاں کہتے ہیں کہ ہم تو لال قلعے پہنچے کہ پہنچے۔ اب محلے والے بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ان کی پپیوں جپھیوں کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ اور ان کا بیر بھی کبھی نہیں ختم ہونا۔

پہلے ہمارا وزیراعظم ہوتا تھا نواز شریف۔ انہوں نے واجپائی صاحب کو سندیسہ بھیجا، وہ لاہور آئے، اور بڑی جپھی ڈالی، لیکن ادھر ہمارا مشرف کارگل پر چڑھ بیٹھا۔ پھر آپ بھی ہندوستان گیا اور تاج محل اور بزرگوں کی حویلی پر تصویریں کھنچوا کر خالی گھر واپس آ گیا۔

نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بنا اور ہندوستان کے وزیراعظم مودی صاحب جو شاید کبھی اپنے گھر بھی نہیں گئے، وہ لاہور نواز شریف کے گھر پہنچ گئے اور یہاں نعرے لگ گئے کہ نواز شریف مودی کا یار ہے، غدار ہے۔ آخر نواز شریف گیا جیل، وہاں سے کسی طرح نقب لگا کے لندن پہنچ گیا ہے اور وہاں بیٹھے پوچھتے رہتے ہیں کہ اگر مودی سے ہی یاری لگانی تھی تو مجھے کیوں نکالا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو کوئی مہینہ پہلے پتہ چلا کہ جو آٹا چینی بیچنے والے سیٹھوں نے انہیں وزیراعظم بنانے کے لیے جیبیں ڈھیلی کی تھیں، وہ تو اندر سے بلیکیے نکلے۔ خان صاحب نے کہہ دیا کہ ہندوستان سے چینی خرید لو، کپاس خرید لو۔ پھر نعرے لگ گئے کہ عمران خان مودی کا یار ہو گیا ہے۔ حالانکہ خان صاحب اور مودی نے اتنی ترقی کی ہی اس وجہ سے ہے کہ وہ دونوں کبھی یار نہیں بناتے۔

ادھر مودی صاحب کے بھکت ہیں اور یہاں عمران خان کے پرستار۔ خان صاحب، نواز شریف کو مودی کا یار اور غدار کہتے تھے، اب اچھے بھلے سیانے لوگ جو ہمیشہ امن کی بات کرتے رہے ہیں، وہ عمران خان کو غدار بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔

ہماری ماں مرحوم کہتی تھی، کہ ہاتھوں سے باندھی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ خان صاحب کو اسٹیبلشمنٹ کی ہلا شیری ہے، انہیں گرہ کھولنی بھی آتی ہے اور لگانی بھی آتی ہے اور دانت بھی انہی کے تیز ہیں۔ اگر گرہ ان سے نہ کھلی تو میرے آپ جیسے لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ہمارے سیٹھ طاقتور ہیں، غریب کے بچے میں چینی کا چمچہ نہیں جانے دیتے، اور ادھر کے سیٹھ بھی سنا ہے بڑے کارپوریٹ ہو گئے ہیں، اور اب بچارے کسان کئی مہینے سے دھرنا دے کے بیٹھے ہیں کہ ہمیں ہل چلانے دو۔

اگر کبھی ہندوستان پاکستان والی گرہ کھل گئی، اور کسی ٹاہلی کے نیچے میل ہو گیا، تو ایک دوسرے سے سب سے پہلے یہی پوچھیں گے کہ جو 1947 میں لوٹ شروع ہوئی تھی، یہ آخر کب ختم ہو گی؟

بی بی سی پنجابی کے وی لاگ کا ترجمہ

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: