عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Paradigm Shifting in Sensitivity of Sunni & Shiite Intellectuals on Question of Salvation of Hazrat Abu Talib: Survey of Treatises on Abu Talib in Islamic Literature
حضرت ابو طالب کی نجات کے سوال پہ شیعہ اور سنّی دانشوروں کی حساسیت کا بدلتا پیراڈائم
Pro Alid Sunni and Shiite religious scholars are on same page about question of Salvation of Abu Talib in present time.
In the last of first Hijra century Alid movement in which we see Proto-Shiite and Proto-Sunnis gathered in a camp led by Imam Ali and other Imams of Alid movement, there was no dispute on faith of Abu Talib and his Muslim identity but this situation was changed in 2nd century of Hijra.
کل حضرت ابو طالب بن عبدالمطلب علیہ السلام کا یوم ولادت تھا۔ شیعہ مسلمانوں کے ہاں تو اس یوم کو انتہائی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن سنّی مسلمانوں کے ہاں اس یوم کے حوالے سے کوئی خاص اہتمام دیکھنے کو نہیں ملتا- بلکہ اس یوم پہ سنّی مسلمانوں کے وہ گروہ جن کے ہاں اب “ایمان ابو طالب” بارے جمہور سنّی مسلمانوں سے ہٹ کر رائے پائی جاتی ہے ان کے ہاں بھی کوئی بڑی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملتی۔
پاکستان میں سنّی مسلمانوں میں تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے شاگرد اسلامی سنّی فاضل علماء و دانشوروں کے ہاں “ایمان ابوطالب” کا اثبات شدومد سے کیا جاتا ہے اور اس موضوع پہ ان کی درجنوں تقاریر اور مبسوط کتاب بھی موجود ہے۔ ان کا مساجد، دینی مدارس، جدید کالج اور جامعات کا پاکستان سمیت دنیا بھر میں نیٹ ورک ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سنّی مسلمانوں میں “ناصبی رجحان” کے بہت بڑے مخالف ہیں۔ لیکن یہ نیٹ یوم ولادت ابو طالب پہ کہیں کوئی بڑے پیمانے پہ پروگرام نہ ماضی میں منعقد کرتا دکھائی دیا نہ اب۔ ان کے سوشل میڈیا پیجز پہ بھی خاموشی چھائی رہی ۔
پاکستان میں سنّی مسلمانوں پنجاب سے ہی ایک بڑا نام علامہ صائم چشتی کا تھا جن کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کا ایک بڑا حلقہ احباب ہے۔ علامہ صائم چشتی نے بھی دو جلدوں میں ایمان ابو طالب کتاب لکھی تھی اور اس کتاب میں دلائل و براہین کا انبار لگایا تھا۔
پاکستان کے سنّی مسلمانوں میں جو تصوف کے سلاسل سے جڑے ہوئے گروہ ہیں جن کو آج عرف عام میں پاکستان بریلوی کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ ان میں سے اکثر اپنے لیے یہ نسبت لگانا پسند نہیں کرتے ان میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کریمین اور آپ کے دادا ،دادی سب کے ایمان کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اور یہ عقیدہ متاخرین سنّی اشاعرہ کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ جن دلائل کی بنیاد پہ آپ کے والدین اور دادا ،دادی کا ایمان ثابت کیا جاتا ہے ان دلائل اور شواہد سے ابو طالب کا ایمان بدرجہ اولی ثابت ہوتا ہے۔
جو سنّی عقائد اور فقہ میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی رائے کو فوقیت دیتے ہیں ان کے ہاں ایمان والدین رسول کریم تو ثابت ہے لیکن حضرت ابو طالب کا ایمان ثابت نہیں ہے۔ سنّی اسلام کے جو جمہور اولین علماء ہیں ان کے اکثر کے نزدیک ایمان والدین کریمین اور ایمان عبد المطلب اور ایمان ابو طالب بھی ثابت نہیں ہے۔ ہاں چند ایک اولین سنّی مسلمان عالموں میں اس کے برعکس رائے پائی جاتی ہے۔
مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ترک عثمان دور میں حجاز،مصر اور شام میں کچھ سنّی علماء نے پہلی بار پیغمبر اسلام کے والدین اور ان کے محبوب ترین چچا ابو طالب کے ایمان کے بارے میں انکار سے اثبات کی طرف سفر کیا۔
ہمیں سنّی اسلام سے تعلق رکھنے والے جن ممتاز علماء میں اس مسئلے پہ اثبات ایمان کا موقف نظر آتا ہے ان میں سید محمد البرزنجی متوفی 1103 ہجری اور سید احمد ذینی دحلان مکّی متوفی 1304 ھجری شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں ایسے افراد جو اسلام نہیں لائے ان کی نات اور تبدیلی ایمان کے لیے کم سے کم درکار شرائط کا حضرت ابو طالب کی مذہبی شناخت کے تناظر میں جائزہ لیا ہے۔
ہمیں ایک اور عالم سيد سليمان اللاذقي الأزهري متوفی 1160ھجری کا سراغ ملتا جنھوں نے اسی مناسبت سے پہلے زکر کردہ دو علماء اہلسنت کی لائن سے ملتی جلتی لائن اختیار کی۔
اگر ہم سید برزنجی کی تحریر کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انھوں نے ایک طرف تو اشاعرہ کے نظریات سے مدد لی، پھر لسانیات سے دلائل پکڑے، پھر انھوں نے محفوظ متون، اخبارجو کہ صحاج ستّہ سے باہر کی تھیں ان سے استفادہ کیا- انھوں نے تفسایر اور عقلی مقدمات سے ایک ایسا مقدمہ کبیر قائم کیا جس سے انھوں نے پیغمبر اسلام کے والدین کا ایمان ثابت کیا- ان کے دیگر اجداد کا ایمان ثابت کیا اور آخری باب میں انھوں نے پیغمبر اسلام کے چچا ابو طالب کا ایمان بھی ثابت کیا۔ ازھری کا جو متن ہے وہ سید برزنجی کے متن کا ہی خلاصہ معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ علامہ دحلان مکّی برزنجی کے آخری باب بابت اثبات ایمان ابو طالب سے بہت سے اقوال نقل کرتے ہیں اور ایمان ابو طالب کا اثابت کرتے ہیں۔
نبیل الحسین نے انتہآغی شاندار تحقیق کرتے ہوئے ہمیں یہ بتایا ہے کہ سنّی مسلمانوں میں جو صحاح ستّہ ہے اس کے ساتھ ساتھ طبقات ابن سعد بھی ہے۔ اگر بخاری و مسلم میں ابو طالب کے ایمان کی نفی والی روایات ملتی ہیں تو دوسری طرف طبقات ابن سعد ہے جو حضرت ابو طالب کے ایمان بارے روایات درج کرتے ہیں-
سنّی مسلمان اہل علم میں وہ لوگ جنھوں نے بخاری و مسلم کی روایات پہ اکتفا کیا اور ابو طالب کے ایمان نہ لانے کی رائے اختیار کی ان میں علامہ ابن حجر عسقلانی، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن کثیر، فخر الدین رازی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ پیغمبر کے والدین اور حضرت عبدالمطلب کے ایمان کے بھی اسی بنا پہ قائل نہیں ہیں۔ اور آج کے زمانے میں ہمیں سلفی، دیوبندی، کئی ایک بریلوی ایمان ابوطالب کے قائل نہیں ہیں
سنّی مسلمان اہل علم میں ایک گروہ اس بات پہ یقین رکھتا ہے حضرت ابو طالب کو موت کے بعد رسول اللہ نے زندہ کرکے کلمہ پڑھایا اور کچھ کا خیال یہ ہے کہ ان کو تھوڑی سی سزا ہوگی اور اس کے بعد وہ جنت چلے جائیں گے۔
جب کہ تیسرا گروہ ابو طالب کا آغاز اسلام سے ہی مسلمان ہونا پاتے ہیں۔ اور یہ گروہ شیعہ مسلمانوں کا ہم نوا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابن تیمیہ کے معاصر علمائے شوافع جیسے مولانا تاج الدین السبکی، جلال الدین سیوطی، علامہ قرطبی یہ جن دلائل اور شواہد کی بنیاد پہ پیغمبر کے والدین کے ایمان کا اثبات کرتے ہیں ان کو ابو طالب کے ایمان پہ دلیل نہیں بناتے۔
یہاں پہ ایک جملہ معترضہ یہ ہے کہ مولانا الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلی نے ایمان ابوین کریمین میں تو علامہ برزنجی اور سید ذینی دحلان مکّی کی تحریروں کا حوالہ دیا اور وہی پیٹرن فالو کیا جو ان حضرات نے کیا تھا لیکن ایمان ابو طالب کے باب میں وہ ان دونوں علما کی پیروی نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اس باب میں ان حضرات کی رائے کا ذکر کرتے ہیں۔ حالانکہ ایمان والدین کریمین کی بحث میں فاضل بریلوی نے “نور محمدی” کے اسیی صوفیانہ تصور کو استعمال کیا ہے جو برزنجی اور دحلان مکّی نے استعمال کیا تھا۔
علامہ سید زینی دحلان مکّی ان علمائے حجاز میں شامل ہیں جن کے تائیدی فتوے مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اپنی کتاب “حسام الحرمین” میں شامل کیے تھے۔ اس کتاب میں دارالعلوم دیوبند کے اکابر علماء کی کتابوں میں موجود چند عبارات پہ کفر کا فتوی لگاکر ان اکابر علماء کے کافر،مرتد ہونے کا فیصلہ صادر کیا گیا تھا جس نے ہندوستان میں دو مدرسوں کو دو متحارب سنّی فرقوں میں بدل ڈالا تھا۔
مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنم لینے والی خانہ جنگی اور اس دوران جنگ جمل سے جنگ صفین اور پھر امیر شام کے ساتھ دیگر معاملات میں جہآں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حق پہ قرار دیا وہیں جمہور اہلسنت کی رائے سے ہٹ کر بہت ہی نایاب رائے آپ سے جنگ کرنے والوں کے بارے میں اختیار کی وہ تھی اجتہادی خطا کی رائے اور ان کی اسی آرا کو لیکر خود بریلوی سنّی مسلمانوں میں “ناصبیت” کی راہ ہوار ہوگئی حالانکہ مولانا احمد رضا خان بریلوی شاید یہ نہ چاہتے ہوں۔
ترک عثمان سلطنت کے زمانے میں حجاز، میسوپوٹیما(عراق)، شام اور افریقہ کے اندر جو علمائے شوافع و مالکیہ جن کا سلاسل تصوف سے گہرا ربط ضبط تھا ان کے اندر “نور محمدی” کا تصور اور اس تصور کو لیکر پییغمبر اسلام کے آبا کی تطہیر اور پاکبازی اور شرک سے پاک ہونے کا خیال عام ہوا۔ اس خیال کی جو اعتقادی جہت تھی اس نے ان علماء میں پیغمبر السلام کے آباء و اجداد اور سیدنا ابو طالب کے ایمان کے اثبات کے نظریے کو فروغ دیا۔
“نور محمدی” کے تصور کی بنیاد حدیث “کنت نیبا ۔۔۔۔۔ حدیث لولاک ۔۔۔۔۔۔” بھی ہے نور محمدی کے تصور کو شیخ عثمان حیری الوعظ متوفی 213 ھجری نے کسی قدر منظم طریقے سے پیش کیا اور اس تصور کو صوفیانہ کشف کے ساتھ شیخ ابن عربی متوفی 638 ھجری نے پیش کیا۔ متاخرین سنّی علماء و مشائخ کے ہاں “نورمحمدی” کے تصورکو پیغمبر علیہ السلام کے آباء و اجداد ، ان کی اولاد اور ایسے ہی آپ کے چچا ابو طالب ، ان کی اہلیہ فاطمہ تک پھیلا گیا۔
سنّی اسلام کے اندر جو ظاہر پسندی کی طرف مائل ہیں جن میں جنوبی ایشیاء میں دارالعلوم دیوبند کا مین سٹریم دھارا ہے جس کے متاخر تھیاکریسی کا رجحان اپنے اسلاف سے بھی کہیں زیادہ ظاہر پسندی کی طرف ہے اور وہ اعتقاد کے باب میں اموی تصور اسلام کی طرف جھکتی ہے کے ہاں پیغمبر اسلام کے والدین کریمین، ان کے اجداد اور آپ کے چچا ابو طالب کے ایمان بارے نفی کا رجحان ہی غالب ہے۔ یہی رجحان اہل حدیث علماء کے ہاں غالب ہے۔
سنّی اسلام میں پیغمبر اسلام کے چچا ابو طالب کے ایمان کی جو نفی بھی کرتے ہیں ان سمیت سنّی اسلام کے جتنے بھی اسکالر ہیں وہ حضرت ابو طالب کی پیغمبر اسلام اور اسلام کی تحریک کے لیے خدمات اور ان کے احسانات کے قائل ہیں- ابتدائی اسلام کی تاریخ جب بھی ان کے ہاں زیر غور آتی ہے تو وہ اس کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ سنّی اسلام سے تعلق رکھنے والے تمام ماہرین تاریخ اس بات پہ بھی متفق ہیں کہ حضور علیہ الصلوات و التسلیم کی ابو طالب سے اور ابو طالب کی اپنے بھتیجے سے شدید محبت تھی اور بنو ہاشم قبیلے کے سربراہ ہونے کے ناطے وہ مکّہ میں اپنی وفات تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سپر بنے رہے۔ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کی وفات کے سال کو “عام الحزن” قرار دیا گیا – کیرنکہ ان کی وفات آپ کے لیے بہت بڑے صدمے کا سبب تھی- (اسی سال آپ کی محبوب ترین اہلیہ سیدہ خدیجۃ الکبری بھی وصال پاگئیں تھیں)
اسلام کی تاریخ کا ایک عام طالب علم کے ذہن میں بھی ابوطالب کی ذات کے حوالے سے جب ان کے “ایمان” نہ لانے کی بات پیش کی جاتی ہے تو لوگوں کے ذہن میں بے اختیار یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب حضور اکرم علیہ الصلوات و التسلیم کی دعا کی قبولیت سے حضرت عمر بن خطاب اسلام لے آتے ہیں- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی درخواست پہ حضور علیہ الصلوات والتسلیم کی دعا سے ان کے والدین اسلام لے آتے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو اسلام کی تحریک کےسب سے نازک ترین اور دشوار ترین دور میں تحریک کی حفاظت کرتا رہا ہو اور جس کی جان ہی مسلمانوں کا مقاطعہ نہ کرنے کی وجہ سے قریش کے مقاطعہ کے سبب چلی گئی ہو تو ایسی شخصیت کو کیا اللہ پاک نے اس نعمت سے محروم رکھا جس نعمت سے حضور اکرم کے چچا کا کلیجہ نکالنے والا اور اسے چپا کر اپنے بھائیوں کے جنگ بدر میں مسلمانوں کےہاتھوں قتل سے جلنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنے والی کو بھی سرفراز کردیا گیا ہو اور تو مسلمانوں اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن بھی اس نعمت سے سرفراز ہوں لیکن یہ نعمت اس شخص کو نہ ملے جو سنّی اسلام اور شیعہ اسلام دونوں کے نزدیک “محسن اسلام و مسلم امہ” ہو؟
جس نے یتیمی میں رسول اللہ کی پرورش کی ہو اور قرآن کریم میں اللہ اسے اپنا فعل کہتا ہے (کیا ہم نے آپ کو یتیم پایا تو آپ کو اپنی سرپرستی میں نہیں لیا —– تو عبدالمطلب اور ابو طالب کی سرپرستی کے عمل کو اللہ پاک نے اپنا عمل قرار دیا جیسے اللہ نے نبی کریم کے حضرت خدیجہ کے مال سے غنی ہونے کے عم خدیجہ کو اپنا عمل قرار دیا اور ان سب اعمال کو سورت کے آخر میں اپنی نعمت کہا اور تحدیث نعمت کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا- صوفی کامل، محدث و مفسر علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں ان آیات کے تحت انتہائی دقیق صوفیانہ نکات بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہاں میرا مقصد “ایمان ابوطالب” بارے دلائل پیش کرنا نہيں ہیں کیونکہ اس سلسلے میں پاکستان سے سنّی اسلام کے ماننے والے علماء متاخرین کی ایک بڑی تعداد نے بہت بڑا ادب تحریر کردیا ہے جن میں طاہر القادری اور مولانا ظہور احمد فیضی تو مسلسل اس کام میں اضافہ کیے جارہے ہیں۔
شیعہ اسلام میں ویسے تو اول روز سے حضرت ابو طالب کے ایمان کا اثبات کیا جاتا ہے اور اسے ایمان کا لازمی جزو مانا جاتا ہے۔ شیعی اسلام ایک اور اعتبار سے بھی ایمان ابو طالب کو لازمی سمجھتا ہے اور وہ اعتبار ان کے ہاں حضرت علی اور دیگر آئمہ اہل بیت کا نور محمدی سے منسلک ہونا ہے اور نور محمدی سے متصف کوئی بھی ذات مشرک کے صلب میں ٹھہر نہیں سکتی۔ یہاں پہ سنّی اسلام سے تعلق رکھنے والے جو صوفیائے اسلام ہیں جن کے نزدیک ولایت محمدی جو نور محمدی سے جڑی ہوئی ہے اور وہ ولایت باطنی طور پہ ساری کائنات میں سرایت کیے ہوئے اور اس کا مظہر اتم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات ہے تو وہ بھی روح وجسد ابو طالب کے پاک و مطہر ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔
ہم جب ایمان ابوطالب کے حوالے سے دستیاب شیعی علماء کے متون کی تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے شیخ المفید متوفی 413ھجری فکر بن معادل موسوی متوفی 630 ھجری کے ہاں اس پہ تفصیل سے کلام ملتا ہے۔ شیعہ اسلام کی کتب احادیث و تواریخ اور اخبار میں کہیں پہ بھی حضرت اب طالب کے ایمان بارے کوئی منفی روایت نہیں ملتی اور نہ ہی شیعہ علماء محدثین ایسی کسی روایت کو تسلیم کرتے ہیں۔
شیعہ اسلام کے اہل علم کے ہاں ابو طالب نے سردار مکّہ ہونے کے ناطے اپنا اسلام پردہ اخفا میں رکھا جس کا علم پیغمبر اسلام، ان کے اہل بیت اور خود ابو طالب کے گھرانے کو تھا۔ ان کے خیال میں یہ اخفا ابو طالب نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پیغمبر اسلام اور اسلام کی حفاظت کے لیے رکھا تھا۔
نبیل الحسین معروف شیعی اسکالر اپنی کتاب ” نجات ابو طالب ” میں لکھتے ہیں:
The Sufi and Shi’i writers considered a world in which God would eternally recompense Abu Talib’s services in this way to be too gloomy and unjust for their sensibilities. These authors carefully disassociated Qur’anic verses from exegetical traditions condemning Abu Talib and provided alternative interpretations. The hermeneutics of Qur’anic exegesis and hadith played an important role in deposing the authority of canonical hadith that contradict the theological beliefs and allegiances of these authors. Although the Sunni authors were unable to dismiss canonical hadith, they strove to demonstrate the limits of those texts in providing the clearest narratives about the past. Early sira literature included many verses of poetry attributed to Abu Talib in praise of the Prophet. In a number of anecdotes, Abu Talib implicitly appears to be Muslim.
“علوی سنّی اور شیعی روایت مشترکہ طور پہ اشعار اور امثال درج کرتی ہیں جس سے ابو طالب کی سنّی شناخت مسلم ہوجاتی ہے۔ سنّی مجموعہ احادیث اور ابتدائی کرانیکل میں ایسے شواہد کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ بنوعباس کے دور سے بھی پہلے حضرت ابو طالب کے ایمان کا عقیدہ پایا جاتا تھا۔ امیہ دور پہ نظر ڈالتے ہوئے تمام لکھاریوں نے واقدی کی ایک روایت اور واقعہ جسے واقدی اور مدائینی دونوں نے نقل کیا ہے جس سے ابو طالب کے مسلمان شناخت ظہر ہوتی ہے۔ اب تک نظر انداز کی گئیں یہ روایات اہم ہیں کیونکہ ان کا مواد ابو طالب کی نجات کے تنازعے سے ابھرنے سے پہلے گردش کرنے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ “
نبیل الحسین کا یہ کہنا کہ ہے کہ جن لکھنے والوں نے یہ نظر ثانی کی ہے وہ سب کے سب آل رسول ہیںیا آل ابو طالب ہیں – پاکستان میں ایمان ابو طالب پہ سب سے پہلے منظم کتاب صائم جشتی نے لکھی جو بہرحال نہ تو آل محمد سے تھے نہ آل ابوطالب سے تھے – یہی بات ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں درست ہے۔ یہی بات علامہ ظہور فیضی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ نبیل الحسین کی یہ بات بہرحال بہت پتے کی ہے کہ محدثین اور متاخرین لکھاریوں جنھوں نے ابوطالب کا آخرت میں مقام بارے تعین کرنے کے لیے جو طریقہ اپنایا اس کی جانچ کرتے ہوئے ان کا مذہبی، سماجی اور سیاسی شناختوں کی جانچ بہت اہم ہے۔
نبیل حسین سمیت دور جدید کے اکثر محقق یہ خیال کرتے ہیں کہ جب سنّی اسلام میں بخاری و مسلم کے مجموعہ ہائے احادیث کا درجہ سنّی اسلام میں قرآن کے بعد سب سے صحیح ترین کتابوں کا قرار پاگیا تو تب سنّی مسلمان علماء میں ایسے لوگ چند ایک ہی تھے جن کے نزدیک ابو طالب کی وفات ایک مسلم شناخت کے ہوئی تھی جبکہ اکثریت کےنزدیک بخاری اور مسلم کی روایات اور قرآن کی کئی ایک آیات کی اولین تفسیری آرا کی روشنی میں ابو طالب کی مسلم شناخت کا ثابت ہونا بہت مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ نبیل جیسے محقق یہ بات بھی سامنے لاتے ہیں کہ ساتویں اور آٹھویں صدی ھجری میں جب اسلامی دنیا میں تصوف کا چلن شروع ہوا تو پہلی بارچند ایسے سنّی مصنفین سامنے ائے جنھوں نے ایسے ثبوت اپنی تحقیق سے فراہم کیے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ایمان ابو طالب اعتقاد مسلمانوں کے اندر بنوعباس کے زمانے سے بھی پہلے خود بنوامیہ کے دور میں بھی پایا جاتا تھا۔ ایک تو پہلی بار سنّی مسلمان اہل علم کے اندر روایت کے راستے سے ایمان ابو طالب کے حق میں موجود روایات کا سراغ لگایا گیا تو دوسری طرف تصوف کے راستے سے یہ جو “نور محمدی” اور “ولایت علی المرتضی” کا تصور آیا اور اس کے تحت سنّی مسلمانوں میں بڑے پیمانے پہ عید میلاد النبی منانے کا چلن شروع ہوا اور مولود کی محافل میں نور محمدی کی اصل بارے ہونے والی گفتگو نے اس نور اور اس سے جڑی تطہیر کا دائرہ پیغمبر اسلام اور ان کی آل اور آل ابو طالب تک وسیع کردیا۔
نبیل ہماری مدد کرتے ہوئے ہمیں تاریخ کا دور دراز تک سفر کراتے ہیں۔ وہ یہ بھی سراغ نکال لاتے ہیں کہ پہلا رسالہ باقاعدہ طور پہ احادیث و اخبار کے مجموعے ” المجتبی” میں ایمان ابو طالب کو سنّی روایات کے راستے سے دریافت کرنے والا سعد الدین محمد بن محمد الصالحانی متوفی 612ھجری نے لکھا۔
نبیل یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلی صدی ھجری کا جو دستیاب لٹریچر ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بلاد اسلامیہ میں جن کو “شیعان علی” کہا جاتا تھا ان کے کبار رہنما حضرت ابو طالب کے ایمان کی نفی کرنے والے کی تادیب کرتے اور اسے جھڑک دیا کرتے تھے۔ جھڑکنے والوں میں ہمیں عبداللہ ابن عباس اور امام جعفر الصادق آل محمد اور دیگر گئی ہاشمی زعما کے نام سے روایات مل جاتی ہیں۔ ویسے تو شیعہ اسلام کی مشہور کتاب حدیث “اصول الکافی” کی جلد اول صفحہ 439 اور ایسے ہی صفحہ 449 ملاحظہ کیا جاسکت ہے۔
پہلی صدی ھجری کا جو دستیاب لٹریچر ہے اس میں ابو طالب کی تعریف ملتی ہے اور کہیں سرے سے ان کے ایمان بارے بحث نہیں ملتی۔ ایسے لگتا ہے جیسے پہلی صدی ھجری میں ابو طالب کے ایمان بارے کسی کو کوئی شک نہ ہو۔ جیسے ابو مخنف کے رسائل ہیں ، ایسے ہی سلیم ہلالی کا رسالہ ہے ۔ نصر بن مزاحم کی کتاب وقعۃ الصفین ہے۔ یہاں تک کہ پروٹو سنّی اور پروٹو شیعہ ادب میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ شیعی لٹریچر میں ہمیں دوسری صدی میں کہیں جاکر اس نجات ابو طالب بارے بہت تفصیل سے لکھا جانا ملتا ہے۔
نبیل الحسین سمیت درجنوں اہل علم ماہرین تاریخ کی رائے میں سنّی اسلام کے اندر “ایمان ابو طالب” کے حوالے سے بڑا شفٹ آٹھویں صدی ھجری میں آنا شروع ہوا اور آج یہ شفٹ ہمیں جہاں جہاں تصوف کا اثر ہے وہاں وہاں سنّی اسلام کے ماننے والوں میں نظر آتی ہے اور اس تبدیلی نے بھی سنّی اور شیعہ اسلام کے درمیان اشتراک اور تقریب کا راستا کھولا ہے۔
میرے خیال میں سنّی اسلام میں پہلی صدی ھجری کے آخر کی جو سیاسی صف بندی ہے اس صف بندی میں جو اہل علم اپنے آپ کو علوی کیمپ میں شمار کرتے ہیں ان کے ہاں ایمان ابو طالب کے بارے میں بھی مثبت رائے اختیار کرنے کی روش میں بڑھوتری آئی ہے اور وہ شیعہ اسلام کے ماننے والوں سے تعاون میں بھی آئے ہیں۔ اس بات کا اقرار شیعی رائٹر نبیل الحسین بھی کرتے ہیں۔ اور اس کی ایک اور بھی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ سنّی اسلام کے اندر اقرب الی اموی اور اقرب الی النصب رجحانات سیاسی اور مذہبی کلٹ کی صورت رونما ہورہے ہیں جو علوی سنّی مسلمان دانشوروں کو مجبور کررہے ہیں وہ زیادہ کھل کر اپنے موقف کو بیان کریں
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر