عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ایک سینئر صحافی دوست نے کل اسلام آباد سے مجھے کال کی اور پھر وہ کہنے لگا:
بورژوازی میڈیا کے مالکان کے نور نظر صحافی حکمران طبقے کی باہمی تقسیم سے جنم لینے والی لڑائی کو ہمیشہ "نظریاتی بیانیہ” سے رنگتے ہیں اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے وہ اپنی صحافتی سرگرمیاں کسی عظیم مشن کے تحت سرانجام دے رہے ہیں –
جنگ-جیو اور ڈان میڈیا گروپ سے وابستہ کئی "سورما” صحافی پہلے دن سے نواَز لیگ کی جنگ لڑرہے ہیں
جبکہ دوسری جانب اے آر وائی نیوز، سماء نیوز، دنیا نیوز، 92 نیوز جیسے گروپ کے ملازم صحافی سلیکٹر اور سلیکٹڈ کی جنگ لڑرہے ہیں
دیکھا جائے تو یہ پنجابی حکمران طبقے کی باہمی سرپھٹول ہے، نواز شریف بھی اسی طبقہ کا ایک رکن ہے – پنجابی اسٹبلشمنٹ (ریاست کے جملہ انتظامی و عدالتی اپریٹس) تقسیم ہے اور اسی تقسیم کو ہم جمہوریت بمقابلہ قومی سلامتی کی لڑائی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں-
حامد میر، عاصمہ شیرازی اور ان جیسے دوسرے لوگ جب بھی شیر کی طرح دھاڑیں سمجھ لیں پیچھے تھپکی ہے –
پی ایف یو جے کے جس دھڑے کی جانب سے ملک بھر میں جو احتجاج منظم ہوا، اُس دھڑے کی قیادت صحافیوں کی اشراف بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے اور یہ سب کے سب ملک کے اُن طاقتور بڑے میڈیا مالکان کے منظور نظر ہیں جن کا اتحاد نواز کیمپ کے ساتھ ہے
جبکہ پی ایف یو جے کا دوسرا بڑا دھڑا سلیکٹر اور سلیکٹڈ کے ساتھ کھڑے میڈیا گروپوں کے منظور نظر مالکان کا چہیتا ہے
حقیقی صحافتی ٹریڈ یونین ازم اس وقت ان دونوں دھڑوں کا نصب العین نہیں ہے اور نہ ہی یہ دونوں دھڑے میڈیا ہاؤسز میں حقیقی ٹریڈ یونین سیاست چاہتے ہیں –
پاکستان میں آزادی صحافت کو سب سے بڑا خطرہ دونوں اطراف کی اشراف بیوروکریسی سے ہے جو پاکستان میں حکمران طبقات کے مفادات کی لڑائی سے پیدا تقسیم کو نظریاتی رنگوں سے بھرتے ہیں…..
یہ سب سن کر میں نے اُن سے سوال کیا:
تو کیا ہم اسد علی طور پہ ہوئے حملے کے خلاف خاموش ہوجائیں؟
تو ہمارے وہ سینیئر صحافی کہنے لگے:
یہ میں نے کب کہا، میں تو خود آج والے احتجاج میں شامل تھا اگرچہ میں نے پی ایف یو جے کے عہدے داروں سے یہ ضرور پوچھا تھا کہ جس بڑے پیمانے پہ اور جس طریقے سے چند ایک صحافیوں پہ حملوں کے کیسز پہ ردعمل آیا یہ ردعمل ہر ایک جائز کیس پہ کیوں نہیں آتا؟ اور ایسے بیانات اُس موقعہ پہ وائرل کیوں نہیں ہوتے؟ "
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر