اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کورونا ویکسین کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں||مبشرعلی زیدی

ویکسین کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں چل رہی ہیں۔ اس کے ذریعے چپ ہمارے جسم میں ڈالی جارہی ہے۔ یا اس سے ڈی این اے کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ یا بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کی جارہی ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن طبیعت خراب رہی۔ فائزر ویکسین کی دوسری ڈوز بدھ کو لگی تھی۔ شام تک بخار جیسی کیفیت طاری ہوگئی۔ درجہ حرارت چیک نہیں کیا۔ تھکن بھی تھی لیکن اصل مسئلہ سر میں درد تھا۔ جمعرات کو پورا دن یہی حال رہا۔ جمعہ کی صبح طبیعت بحال ہوئی۔
ذیلی اثرات ظاہر ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ ویکسین موثر ہے۔ جسم کا رسپانڈ کرنا بھی اچھا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس تھوڑی سی تکلیف کو برداشت کرلیں، کوئی دوا نہ کھائیں۔ درد کشا گولیاں ویکسین کا فائدہ گھٹا سکتی ہیں۔
میں نے فائزر ویکسین کے بارے میں پڑھا ہے کہ اس کی پہلی خوراک ہی کافی تحفظ فراہم کردیتی ہے۔ لیکن دوسری ویکسینز لگوانے والوں میں کچھ کیسز پہلی اور دوسری ڈوز کے درمیان ہوئے ہیں۔ پہلی ڈوز کے بعد خود کو محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ دوسری ڈوز کے بھی دو ہفتے بعد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
فائزر اور موڈرنا کی ویکسینز ایک طرح سے بنتی ہیں جن میں کوئی جانی نقصان ابھی تک نہیں ہوا اور یہ نوے پچانوے فیصد تک تحفظ دیتی ہیں۔
آسٹرازنیکا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین ایک طرح سے بنتی ہیں اور ان سے بعض لوگوں کا خون گاڑھا ہوا ہے اور چند ایک اموات بھی ہوگئی ہیں۔ ان خبروں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے کیسز کی شرح دس بارہ لاکھ میں ایک ہے۔ ہزاروں پروازوں میں سے ایک حادثے کا شکار ہوجائے تو لوگ سفر کرنا نہیں چھوڑ دیتے۔ ڈاکٹر ان کیسز کی وجہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔
میری ایک ڈاکٹر سے بات ہوئی تھی جس کا کہنا تھا کہ امریکا میں بلڈ کلاٹنگ کے سات کیسز سامنے آئے ہیں۔ وہ سب خواتین تھیں اور ایک جیسی مانع حمل ادویہ لے رہی تھیں۔ ماہرین اس بارے میں تحقیق کے بعد نئی ہدایات جاری کریں گے۔
امریکا کینیڈا یورپ میں چین اور روس کی دواؤں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ممالک اپنا ڈیٹا شئیر نہیں کرتے۔ اس کے باوجود یورپی ممالک، مثلاً جرمنی نے روس سے ویکسین خریدی ہے۔ وبا کے دوران ہنگامی حالات ہیں۔ جہاں سے لائف لائن یعنی جان بچانے کا راستہ ملے، اس پر بھروسا کرنا چاہیے۔
ویکسین بنانے اور اس کے اثرات اور فائدے جانچنے میں دس دس سال لگ جاتے ہیں۔ کوویڈ کی تمام ویکسینز آزمائشی ہیں۔ ماہرین یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کون سی ویکسین کتنے عرصے تک موثر رہے گی۔ لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ویکسین نہ لگوانے والے کے مقابلے میں ویکسین لگوانے والا زیادہ محفوظ ہے۔ وائرس لگ بھی گیا تو جان نہیں لے گا۔ آئی سی یو نہیں جانا پڑے گا۔
ویکسین کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں چل رہی ہیں۔ اس کے ذریعے چپ ہمارے جسم میں ڈالی جارہی ہے۔ یا اس سے ڈی این اے کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ یا بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کی جارہی ہے۔
یہ سب احمقانہ باتیں ہیں۔ لیکن اگر ایک فیصد بھی سچائی ہے، تب بھی ویکسین لگوا لینی چاہیے۔ ایک بار سانس سینے میں اٹک گیا تو مردانہ صلاحیت سے بحال نہیں ہوسکتا۔ جان بچے گی تو آپ بچے پیدا کریں گے۔ قبر سے آج تک کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: