نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کرونا کی تیسری لہر، میں اور وزیر اعظم||ملک عاصم ڈوگر

پچھلےبرس جب کرونا کی پہلی لہرملک میں پھیلنا شروع ہوئی تواسے سنجیدگی سےنہیں لیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں افراد کرونا سےمتاثر ہوئے۔ہزاروں افراداس بیماری کوسمجھ نہ سکنےکے باعث اپنی جان سےگئے۔

ملک عاصم ڈوگر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلےبرس جب کرونا کی پہلی لہرملک میں پھیلنا شروع ہوئی تواسے سنجیدگی سےنہیں لیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں افراد کرونا سےمتاثر ہوئے۔ہزاروں افراداس بیماری کوسمجھ نہ سکنےکے باعث اپنی جان سےگئے۔

اپنی صحافتی اورفنی ذمہ داریوں کے باعث مجھے پورے ملک میں سفرکرنا ہوتا ہے۔لہٰذا یہ سفر کرونا کی پہلی لہر کے دوران بھی جاری رہا۔رب کریم کےفضل و کرم اورکچھ حفاظتی اقدامات،ہاتھ دھونا،ماسک پہننا،سینی ٹائزرکا استعمال اورفاصلےکاخیال رکھنا وغیرہ سے فائدہ ہوا۔اسی طرح پچھلے اکتوبر میں دوسری لہربھی گزرگئی۔ مختلف علاقوں کےسفرکے بعد مشاہدہ یہی ہےکہ من حیث القوم ہمارا رویہ زیادہ محتاط نہیں رہا۔2020میں لاک ڈاؤن کے باعث معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔غریب لوگوں میں دوکروڑ سے زائد افراد کااضافہ ہوا۔لاک ڈاؤن میں جواحتیاطی تدابیرہم نےبرتیں اس کے ختم ہوتےہی سب بھلا دیں۔بازاروں، اجتماعات، ریلیوں اور جلسوں میں رج کے بے احتیاطی کی ہے۔

اس میں عوام کے ساتھ حکومت اوراپوزیشن برابرکےشریک رہے ہیں۔ پچھلے برس دسمبرمیں یونورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور سے میں نے اہلیہ سمیت کرونا کی آزمائشی ویکسین لگوائی۔جزوی اطمینان ہوا کہ احتیاطی تدابیراورآزمائشی ویکسین کے بعد صورتحال قابو میں رہے گی۔ ان تمام باتوں سےبالا ترہمیشہ سےمیں ایک بات کا قائل ہوں کہ کرونا ایک چھپا ہوا دشمن ہے۔لہٰذا حفاظت بھی چھپی ہوئی ذات کرتی ہے۔کرونا سےاحتیاط کسی ایک فردکی نہیں بلکہ ہم سب کی مجموعی ذمہ داری ہے۔اگر ایک شخص محتاط بھی ہو لیکن بازار،دفاتراوراجمتاعی جگہوں پر محتاط رویے نہ ہوں توخود کو محفوظ رکھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔اب کرونا کی تیسری لہر خاصی تیزی سےپھیل رہی ہے۔ وائرس پہلی دونوں لہروں سے زیادہ طاقتور اورہئیت بھی تبدیل کرچکاہے۔

اس لئے آزمائشی ویکسین لگوانےکے باوجود بھی کرونا حملہ آورہوگیا۔اس باراس کی علامات بھی کافی عجیب ہیں۔مختلف لوگوں کو مختلف علامتیں ظاہرہو رہی ہیں۔ میرے کیس میں سب سے پہلے پیٹ خراب ہوا۔ساتھ ہی اسی رات تیز بخار ہو گیا۔ ڈاکٹر کے مشورے سے پہلے تو یہی سمجھ آیا کہ پیٹ کا علاج کیا جائے۔تیسرے روز گلے میں شدید تکلیف شروع ہوئی جوکہ ٹانسلز نہیں تھی۔ڈاکٹر نے اینٹی بائیوٹکس دیں۔چار روز استعمال کے بعد گلےکا درد اورپیٹ تو ٹھیک ہوئے لیکن طبیعت سنبھل نا سکی۔ شدید نقاہت اورسانس میں دشواری کی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہو گئی۔

تو کرونا ٹیسٹ کروانے کا ارادہ کیا۔چھوٹے بھائیوں جیسے ذوالقرنین رانا جو کہ ہیلتھ رپورٹر ہیں کے توسط سے جنرل اسپتال میں کرونا ٹیسٹ کے لئے گیا۔ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹرسید جعفرحسین نے کافی انتظار کرانے کے بعد یہ کہہ کر واپس بھجوا دیا کہ آؤٹ ڈورمریضوں کے ٹیسٹ نہیں کررہے۔اس دوران خیال آٰیا کہ کیوں نہ یونیرسٹی آف ہیتھ سائنسز جہاں سے آزمائشی ویکسین لگوائی ہے رابط کیا جائے۔لہٰذا ڈاکٹرحسیب سےرابط کیا اورعلامات بتائیں تو انھوں نے فوراً اگلےدن ٹیسٹ اورمعائنے کا انتظام کر دیا۔ کرونا ڈیسک کی انچارج ڈاکٹرطیبہ نے اچھی طرح معائنے کے بعد سانس کی بحالی اور امیونٹٰی بہتر بنانے کی ادویات اور تجاویز دیں۔ ٹیسٹ کی رپورٹ اگلے دن آئی۔ جو کہ نئے برطانوی وائرس "سارس کووڈ 2” پازیٹو تھی۔اسی دوران اہلیہ کو بھی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ان کا بھی ٹیسٹ ہوا تو یہی وائرس حملہ آورہوچکا تھا۔ اب یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کرونا کے نئے وائرس سے لڑنا ہے۔

ایک تنہا فیملی کے طور پر ہم دونوں کے لئے نہایت مشکل مرحلہ سامنے تھا۔ گھرمیں ایک سے نو برس کے چار بچوں کے ساتھ تمام حفاظتی تدابیر کےساتھ رہنا یقینی طورپرکافی مشکل تھا۔اس لئے پوری فیملی کوآئیسولیٹ کر لیا۔کرونا کی تیسری لہرمیں وائرس میوٹیٹ ہوچکا ہے۔میرے ذاتی تجربے میں یہ سانس کے ساتھ پورےاعصابی نظام اورقوت مدافعت پر شدید طریقے سے حملہ آورہوتا ہے۔ کئی راتیں تو ایسی گزریں کہ لگتا تھا کہ جیسے کسی نے سختی سے کندھے جکڑ رکھے ہوں اورسینے کے درمیان سے روح کھینچ لے گا۔مریض کو پتا نہیں چلتا لیکن وزن بھی تیزی سے کم ہونے لگتا ہے۔میں نے خود تقریباً 9 کلو وزن کیا ہے۔اس مرض میں بچاؤ کا بہترین طریقہ مستقل بھاپ کا استعمال،وٹامنزاور منرلزسے بھرپور غذا کا استعمال ہے۔

جو کا دلیہ، دیسی چکن یا مٹن کی یخنی، دستیاب موسمی پھلوں میں، سنگترے،کیوی، امرود، چیکو، سیب، کیلے، پپیتا اورکھجور کا استعمال ضروری ہے۔ دارچینی، لونگ ،بادیان کے پھول ،ادرک اور پودینے کا قہوہ ہمراہ خشک میوہ جات(بادام، اخروٹ، کاجو) دن میں کم از کم دوبار توانائی بحال کرنے میں نہایت مدد گارہیں۔مجھے اس تمام غذا و دوا کا اہتمام کرنا بطور تنہا فیملی ایک مشکل ٹاسک تھا۔آن لائن خریداری سے کافی مدد ملی۔ لیکن اس دوران یہ احساس ہوا کہ سماجی اعتبار سے ہمیں کرونا کے مریضوں کوتنہا نہیں چھوڑنا چاہئے۔بنا کہے ہی دوستوں، رشتہ داروں اورجاننے والوں کی حسب توفیق مدد کرنی چاہئے۔

سب سےزیادہ ذمہ داری ریاست کی ہےجوکہ تمام مریضوں کےکوائف رکھتی ہے۔خاص طور پر ایسے لوگ جو وسائل نہیں رکھتےاوراگراس وائرس کی زد میں ہیں توان کی براہ راست مدد کی جائے۔ہماری فیملی وقت مکمل کرنے کے بعد اب روبہ صحت ہے۔وزیراعظم عمران خان کا کرونا ٹیسٹ بھی پازیٹو آچکا ہے۔رب کریم انھیں صحت یاب کرے۔ہوسکتا ہےکہ اس تکلیف سے گزرنے کے بعد ان میں عام آدمی کا درد محسوس کرنے کی استعداد بڑھ جائے۔تمام حفاظتی انتظامات کے باوجود اگروزیر اعظم متاثرہوسکتے ہیں تو کوئی بھی اس کی زد میں آسکتا ہے۔لہٰذا احتیاط کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑیں۔

اگلامیدان پنجاب۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

’’بد زبانی‘‘ کا کلچر ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

بچوں کے وزیر اعظم ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

میڈیا اور وراثتی سیاست کا گلیمر۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

 

About The Author