نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سینیٹ الیکشن اور دوخبریں||حیدر جاوید سید

آئین کے آرٹیکل186 کے تحت آرٹیکل 226 پر صدر مملکت نے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رائے کیلئے ریفرنس بھجوایا تھا، سوموار کے روز سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ سنادیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئین کے آرٹیکل186 کے تحت آرٹیکل 226 پر صدر مملکت نے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رائے کیلئے ریفرنس بھجوایا تھا، سوموار کے روز سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ سنادیا۔
لارجر بنچ کے ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے دیگر ساتھی ججز سے اختلاف کیا ہے۔
پچھلے24گھنٹوں سے بحث مباحثہ کی دھول اُڑائی جارہی ہے۔ حکومت اوراپوزیشن اپنی اپنی جگہ خوش بھی ہیں اورشاداں بھی۔
طالب علم کے طور پر مجھے قانون دان دوستوں سے یہ بات سمجھنی ہے کہ 1973ء کے آئین کی پابند ریاست میں کسی فیصلے کو ایک ایسے دور کے فیصلے سے تقویت دی جاسکتی ہے جسے متوازن زبان میں سیاہ دور اور جمہوری زبان میں دور آمریت کہا جاتا ہو؟
بہت ادب سے عرض ہے کہ1967ء کے ایک فیصلے کو جواز بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
چلیں خیر صدارتی ریفرنس کا دورختم ہوا۔ تاویلات جو بھی ہوں آج سینیٹ الیکشن ہوگا اور سب سے بڑا معرکہ اسلام آباد میں ہے، جہاں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پی ڈیم کے اُمیدوار کی حیثیت سے اپنے ہی سابق وزیرخزانہ (اب بھی وزیرخزانہ ہیں) حفیظ شیخ کے مقابلہ میں موجود ہیں۔
جناب شیخ تحریک انصاف اور اتحادیوں کے امیدوار ہیں۔ ملک میں آزادی کتنی ہے، اس کا اندازہ سبھی کو ہے معاملات کس کے کہاں طے ہوئے اس کا شور بہت ہے، لیکن معاملہ آزادی اور ”طے شدہ” سے آگے کا ہے۔ پچھلے مہینہ بھر سے ہمارے وفاقی وزراء کی جو دوڑیں اور پریس کانفرنسیں ”لگی” ہوئی ہیں اس سے صورتحال کو سمجھنا بہت آسان ہے۔
گیلانی اگر جیت نہیں بھی پائے تب بھی پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کو مشکل میں ڈال دیا ہے، مشکل اتنی ہے کہ پچھلے اڑھائی برسوں سے جن ارکان قومی اسمبلی کو وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے چند منٹ کا وقت نہ مل سکا اور خود وزیراعظم بھی اکثر ایوانوں میں تشریف نہ لائے، اب پارلیمنٹ ہاوس میں اپنے دفتر کے دروازے کھول کر بیٹھے ہیں۔
ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”بلاول کو ہمارے ماتھے پر کیا لکھا دکھائی دے رہا ہے؟” سوال بلاول سے ہے اور چھلانگیں ہمارے فقیر راحموں لگا رہے ہیں۔ کہتے ہیں خالد مقبول صدیقی، عامر خان اور اظہارالحسن کے ماتھوں پر پرسوں شب (ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات) کی ایک ملاقات لکھی ہے جو پیپلزپارٹی کی پیشکش پر بھاری ثابت ہوئی۔
ملاقات ہوئی یا نہیں؟ حقیقت حال کو سمجھنے کیلئے ایم کیو ایم سے ہمدردی رکھنے والے صحافی مظہر عباس کی وہ گفتگو سُن لیجئے جو انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کی۔
ان کی گفتگو تازیانوں سے کم نہیں اور یہ آپ کو یہ بھی سمجھادے گی کہ وہ لوگ جو یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم نے کہیں سے ”اشارہ” پاکر گیلانی کو میدان میں اُتارا ہے ان کی طبیعت بھی بہتر ہو جائے گی۔اسلام آباد کی جنرل نشست پر گیلانی اور شیخ آمنے سامنے ہیں۔ شیخ کمال کے ہنرمند ہیں، قبل ازیں دو مرتبہ مختلف حکومتوں میں وزیرخزانہ رہے۔
آج کل اپنے ہی دو سابق ادوار کی مالیاتی پالیسیوں کے ناقد ہیں، ان کی اور ہماری زندگی رہی تو انشاء اللہ وہ مستقبل میں پھر کسی حکومت کے وزیر خزانہ کے طور پر ماضی کی تین حکومتوں کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتے دکھائی دیں گے۔
ان سطور میں تواتر کیساتھ عرض کرتا آرہا ہوں کہ اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست پر سید یوسف رضا گیلانی کا اُمیدوار بننا پی ڈی ایم کا سیاسی امتحان ہے، پی ڈی ایم سے زیادہ یہ پیپلزپارٹی کا امتحان ہوگا۔ گیلانی کی کامیابی سے نہ صرف سیاسی منظرنامہ بدلنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے بلکہ یہ بھی طے ہو جائے گا کہ پی ڈی ایم اگر وزیراعظم اور سپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
کیا پی ڈی ایم فرض کریں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کشمیر تنازعہ 6اگست2019ء والی سطح پر واپس لاسکے گی۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کم ہوگی یا پھر وہی راگ الاپا جائے گا جیسا پی ٹی آئی الاپ رہی ہے؟
خارجہ پالیسی میں فوری طور پر کیا پی ڈی ایم ایسے اقدامات کر پائے گی جس سے غیرجانبداری یا کم ازکم آزاد اداروں کا تاثر اُبھرے؟ یہ سوالات ہیں ان پر غور وفکر کیساتھ رہنمائی کی ضرورت ہے۔
خیر چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ وزیراعظم کے بااعتماد قریبی ذرائع اس امر کی تصدیق کررہے ہیں کہ اگر تحریک انصاف سینیٹ الیکشن میں بہتر پوزیشن کیساتھ اتحادیوں کی مدد سے چیئرمین سینیٹ بنوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وزیراعظم قبل از وقت انتخابات کیلئے سوچ رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ رواں سال اکتوبر میں الیکشن کروا دیئے جائیں۔
ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ بھرپور اکثریت لے کر جیت سکتے ہیں جس سے انہیں دستور میں تبدیلیوں کا حق مل جائے گا جو کہ اب عددی کمی کی وجہ سے وہ نہیں کر پا رہے۔
وضاحت کے ساتھ یہ عرض کردوں کہ وزیر اعظم فرانسیسی طرز کے صدارتی نظام کے خواہش مند ہیں اس کیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے جو موجودہ حالات اور تعداد کی بنا پر ممکن نہیں۔
اسی طرح اٹھارہویں ترمیم میں ترامیم کا مسودہ ہے دونوں کام کیسے کرنے ہیں، ظاہر ہے قبل ازوقت انتخابات کا جواکھیلے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author