مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کارونجھر کے مور اور شیخ ایاز||رانا محبوب اختر

کاسبو کا شِو مندردرختوں میں گھرا ہے۔ارد گرد کھیت ہیں،سبزہ ہے۔رامادیو پیر سے ایک کچی پگڈنڈی شِو کے گھر جاتی ہے۔مندر کے وسیع احاطے کے گرد ہر چند کہیں کہ دیوار ہے،

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاسبو کا شِو مندردرختوں میں گھرا ہے۔ارد گرد کھیت ہیں،سبزہ ہے۔رامادیو پیر سے ایک کچی پگڈنڈی شِو کے گھر جاتی ہے۔مندر کے وسیع احاطے کے گرد ہر چند کہیں کہ دیوار ہے، نہیں ہے۔ پیلو یا "جال” کے کچھ قدیم درختوں کے تنے عشاق کے سینوں کی طرح پھٹے ہیں۔صحن کے درمیان چھوٹا سا مندر ہے جس کے دروازے پر نندی بیل تیار بیٹھا ہے۔شِو مندر کی سیڑھی اترنا فطرت کے پاتال میں اترنا ہے۔اڈیرو لال کے بعد شِو مندر چھاچھرو اور کارونجھر میں دیکھ آئے تھے۔کچھ محققین کا خیال ہے کہ پانچ ہزار پہلے قدیم سندھی لوگ ایک دیوی کو پوجتے تھے۔ امبا اور درگا سمیت اس کے کئی نام ہیں۔خدا سے پہلے قدیم انسان خیال کو جسم دے کر دیویاں اور دیوتا بناتا تھا۔وہ دیوتاؤں کا خالق تھا۔اسرار اور بے بسی ، دیوتا تھے۔سناتن دھرم کی وحدانیت اور بدھ ازم کا الحاد بعد کے قصے ہیں۔موئن جو دڑو سے ایک مرد دیوتا کا مجسمہ بھی دریافت ہوا تھا۔سر جان مارشل کا قیاس ہے کہ یہ مجسمہ شِو بھگوان کا ہے اورشِو سندھ وادی کا بھگوان ہے۔لنگ پوجا مصر اور یونان میں بھی رائج رہی ہے۔قدیم انسان زندگی کو سادگی سے دیکھتا تھا۔ اس کے خیال میں کائنات کی ما فوق الفطرت طاقتوں نے کائنات کو ایک بچے کی طرح مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کیا تھا!
شِو کے مندر میں مگر ماضی اور مائیتھالوجی سے زیادہ مور ہماری توجہ کا مرکز تھے۔اگست 2020 کی ایک گرم سہ پہر کے تین بجے تھے ۔گرمی کی وجہ سے مور درختوں کی شاخوں میں چھپ گئے تھے ۔ایک سیوک نے بتایا کہ موروں کے دانہ چگنے کا وقت پانچ بجے ہے۔دو گھنٹے کا انتظار تھا:
تمام جسم کو آنکھیں بنا کے راہ تکو
تمام کھیل محبت میں انتظار کا ہے
ہیر کے ہمسائے، سلطان باہو رح نے کہا تھا، لوں لوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں اک کھولاں اک کجاں ہو ۔جسم کے ہر بنِ مو میں لاکھ لاکھ آنکھیں محبوب کے دیدار کو گڑی ہیں، میں ایک کھولتا ہوں ،ایک بند کرتا ہوں! مور کی دم اس کے جسم کا 60 فی صد ہوتی ہے اور اس پر رنگ برنگی آنکھیں گڑی ہیں۔نیلے، سنہرے ، سُرخ اور سبز رنگ کی آنکھیں تصویر کی صورت ہیں! پروں پر آنکھوں کا میلہ ہے۔ مولانا روم نے کہا کہ آدمی آنکھ ہے اور باقی پوست ہے اور دید آں باشد کہ دیدِدوست است۔مور کی دم پر دوست کی آنکھیں ہیں۔کاسبو کے شِو مندر میں ہم مور کی آنکھوں کے منتظر تھے۔ مور کی چال اور دل کی دھڑکن کے ہم آہنگ ہونے میں دیر تھی! دیو جی ایک "دلیم” لے آئے اور ہم ایک گھنے درخت کی چھاوں میں دری نما بچھونے پر لیٹ گئے۔وہاں سوم رس نہ تھا، بے خودی تھی۔ ہمیں تھوڑی دیر نیند آ گئی۔تازگی بخش مختصر نیند ، دفتری بابو جسے پاور نیپ کہتے ہیں۔شکتی دیوی نے مندر کے صحن میں چھو لیا تھا۔آنکھ کھلی تو ایک طرف سے کالے بادل امڈے چلے آتے تھے اور دوسری طرف مور خراماں خراماں درختوں سے نکل کر صحن کی طرف آنا شروع ہو گئے تھے۔مہربان سیوک موتی گر نے بہت میٹھی سبز چائے میں لیموں ڈال کر مٹھاس کی دف مارنے میں ناکام رہے تھے۔رفعت عباس مسلسل تصویریں بنا رہے تھے۔اتنے میں جھڑی لگ گئی اور تیز بارش میں درختوں کی چھت کے علاوہ کوئی پناہ نہ تھی ۔امام علی جھانجھی اور دیو جی بارش کو ملتانی یاتریوں کی کرامت بتا رہے تھے اور ہم دل ہی دل میں غالب کا شعر پڑھتے تھے ، تجھے ہم ولی سمجھتیجو نہ بادہ خوار ہوتا!
موسلا دھار بارش تھوڑی دیر میں رک گئی۔موتی گر نام کا 80 سالہ بوڑھا کاسبو کے موروں کو دانا ڈالنے لگا تو ہمارے لوں لوں کے مڈھ میں لکھ لکھ چشماں موروں کی "آنکھوں” کے نظارے کو کم پڑ گئی تھیں۔سندھ وادی میں مور ہزاروں سالوں سے ناچتے ہیں۔موروں نے سندھ وادی کی ڈانسنگ گرل، سمبارا سے ناچنا سیکھا تھا۔سنسکرت میں مور ، موریا ہے جس نے اساطیری پرندے گارودا کے پروں سے جنم لیا تھا۔مور بقا اور سانپ وقت کی علامت یے ۔ہندو اصنامیات میں مور کو سانپ مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔کچھ علماء کا خیال ہے کہ مور کا لفظ قدیم دراوڑی سے آیا ہے۔سندھو کنارے رہنے والا مور قبیلہ اور چندر گپتا موریا تاریخ کا حصہ ہیں۔انڈین اساطیر میں مور ایک شاہی یا رائیل علامت ہے۔کرشن مہاراج مور کے پر اپنے سر پہ لگاتے تھے۔اندر جب راون کو شکست نہ دے سکے تو مور کے پروں کے نیچے پناہ گزین ہوئے تھے اور اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے مور کو ہزار آنکھوں کا تحفہ دیا تھا۔یونانی اساطیر میں آرگوس اور ہیرا کی المیہ کہانی کی کچھ مماثلت ہیر رانجھا سے ہے! Hera نے Argos کی موت پر اپنی آنکھیں مور کے پروں میں رکھ دی تھیں!سندھی اور اردو کے عظیم شاعر، شیخ ایازکو سندھ کی آواز کہا جاتا ہے۔ وہ 1960 میں کارونجھر آئے اور کارونجھر کے منظروں سے مست ہو کر کہا تھا : ” مرے خدا ، اس سے بڑی معرفت کیا ہو سکتی ہے کہ کارونجھر میں مور گائیں تو مون سون کے بادل انھیں برکھا میں جواب دیتے ہیں”!
اب موروں کے گولے پر دھنک دھنک شام ہو رہی تھی۔سارے میں سرور تھا۔جس زمین سے ہم آئے تھے وہاں چھوٹے چھوٹے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔چھوٹی چھوٹی دشمنیاں ہیں۔ چھوٹے بڑے سامراج ہیں۔افسر ہیں، جاگیردار ہیں۔ سائنس اور ترقی کے خمار میں خدا کے منکرہیں۔انسان خدا ہے۔ انکاریوں کو پاگل نطشے نے ایسی ایک نئی اخلاقیات کا مشورہ دیا تھا جس میں انسان کی خدائی کے نئے اصول ہوں ۔پاگل کی مگر کون سنتا ہے! ہماری بستی میں روشن خیالی، عقلیت اور جدیدیت کے نام پرانسانیت اور humanism کا بول بالا ہوا تو طاقت ور اور survival of the fittest کی اخلاقیات رواج پا گئی۔مذہب کے نام پر پنڈت و ملا اور تہذیب کے نام پر استعمار نے نفرت کے سبق پڑھا کر انسانی بستی کو دو نیم کر دیا۔جمہوریت استعمار اور سرمایہ دار کی باندی ہے۔گلی محلوں میں، چوکوں چوراہوں میں دھتکارے ہوئے لوگ ، جارج فلائیڈ کی طرح طاقتور کے گھٹنے کے نیچے کراہتے ہیں۔مہذب سفید قبیلہ اسلحہ بیچتا ہے۔کمزور ملک اسلحہ خرید کر سامراج کو خراج دیتے ہیں اور اپنے سے کمزور غریب ملکوں سے لڑتے ہیں۔اشرافیہ ہمیشہ کی طرح سامراج کے ساتھ ہے۔ استعماری رویوں نے زندگی کو بے ثمر کیا ہے۔پوسٹ ماڈرن عہد میں سچ پر کڑا وقت پڑا ہے۔ سندھ میں حسین کارونجھر کے پتھروں کو ڈائینامیٹ سے توڑ کر دھندا کیا جاتا ہے۔ عامیانہ پن سے غیر معمولی زمین معمولی پن کا شکار ہے اور ہم موروں کیغیر معمولی گولے پر ہیں۔جہاں کارونجھر جبل ہے، درخت ہیں ۔ مور ، مندر، مسجد اور سندھ کی لوکائی کے معجزے ہیں۔ کھردری غربت سے ماورا یوسف فقیر فضا میں موسیقی گھولتا ہے۔ رقص حرام نہیں ہے۔مور ناچتے ہیں۔غیر معمولی حسن نے قوانین کو معطل کر دیا ہے۔ مور اپنے رقص سے بے ہنگم اور منتشر سماج کو ہم آہنگی کا سبق دیتے ہیں ۔مندر جامد اور اداس ہے۔بھوڈیسر کی مسجد کا سفید پتھر میلا ہے۔رفعت عباس سے یاتری نے پوچھا کہ ایسے دلربا دیس میں حسن کے جلووں سے راکھ ہونے والوں کی موت، شہادت ہوگی یا ایک معمولی سا واقعہ!!شاعر نے دلآویز مسکراہٹ سے کہا کہ حق اور حسن ایک ہیں اور زندگی موت سے ماورا ہے۔کلام کا مخمصہ یہ ہے کہ ہم کہہ نہیں سکتے اور حق اور حسن کی دنیا ماورائے کلام ہے۔کارونجھر کے مگر کئی چہرے ہیں۔عام آدمی، نثر نگار اور شاعر سے وہ مختلف طریقے سے کلام کرتا ہے۔عام لوگ اسے کاٹ کر بیچنا چاہتے ہیں۔نثر نگار کارونجھر کا قصہ کہتے ہیں اور شاعروں کے لئے یہاں بارش کی کرامت ہے۔شیخ ایاز کی کارونجھر یاترا کے ساٹھ سال بعد، ملوہہ کے شاعر رفعت عباس کے ساتھ ہم نے موروں کے رقص پر بارش کی کرامت دیکھی تھی!

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

%d bloggers like this: