نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دسمبر 2020ء کا مہینہ تھا اور دسویں تاریخ تھی جب برادرم حمید علی کا فون آیا اور ایک ہولناک اطلاع دی کہ بھائی عبدالشکور کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم بہت سے ہم نفساں تین دہائیوں سےزائدعرصے سےشکور صاحب کے ساتھی سنگی اور بیلی رہے۔بھائی عبدالشکور کا تعارف رحیم بخش جتوئی، مشتاق احمد فریدی اور مولوی فاروق کے وسیلے سے ہوا تھا۔ان کی اہلیہ اردو ادب کی دیومالائی شخصیت ڈپٹی نذیراحمد کی پڑپوتی تھی، ادھر مشتاق احمد فریدی کی اہلیہ(اللہ انہیں سلامت رکھے وہ علامہ شبلی نعمانی کی پڑنواسی ہیں۔)عبدالشکور اور فریدی صاحب ظاہر پیر کے قرب وجوار کے علاقوں ججہ عباسیاں اور فریدآباد کے سیدھے سادے سرائیکی اور ان کی نسبتیں برصغیر میں روشن خیالی کی تحریک کے بانی سر سیداحمد خان کے رفقاء کے گھرانوں میں طے پائی تھیں اور ہم اس تعلق پر ہمیشہ اتراتے رہے۔ بھابھی کے انتقال کی خبر سن کر میں نے شکور صاحب سے بات کی اور بیگم (عابدہ بتول) کو ساتھ لے کر اُن کے گھر چلاگیا۔ صبح صبح وہاں پہنچنے والے ہم پہلے سوگوار تھے۔
شکورصاحب کے گھر پہنچ کر میں نے فریدی صاحب، قاسم خان لاشاری اور شاہد جتوئی کو فون کیا۔شکور صاحب درد اور صبر کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ ان کا اکلوتے بیٹے قادر کے علاوہ کوئی دوسری اولاد نہیں، ظاہر ہے بیٹی بھی نہیں، اپنی اہلیہ کی زندگی کے آخری برسوں میں جس طرح انہوں نے اپنی اہلیہ کی دیکھ بھال کی ، جس طرح ان کی خدمت کی، جس طرح انہوں نے انہیں اپنی توجہ کا مرکز بنایاوہ ایک مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
شکور صاحب ایک پختہ کار سیاسی دانشمند تھے۔ وہ مارکسسٹ تھے اور انہوں نے ساری زندگی اپنی سیاسی کمٹمنٹ سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں کیا۔ ہمارے لئے ان کا گھر تہذیب وتمدن ، ادب وفن کے مرکز کا درجہ رکھتا تھا۔کراچی کے علاقے لسبیلہ کے قریب سولجر بازار سے ملحق یو بی ایل کے کے اپارٹمنٹس میں ان کے گھر میں ہماری مستقل بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں جہاں ہم نے یادگار مباحث و مذاکرے کئے
جنرل ضیاء کے بدبخت اور سیاہ کار دور میں ہم خیال دوستوں کا دم اور ان کا مل بیٹھنا غنیمت ہوا کرتا تھا۔سوچنے والے مل بیٹھتے تو کیا کیا نہ سوچتے تھے۔ شکور صاحب کے پاس ناہید صدیقی کے رقص کے کیسٹوں کا اچھا خاصا کلکشن ہوتا تھا، مہاراج کتھک کے دادرا اور ٹھمری کے ماتروں پر ناہید صدیقی کا رقص دیکھنا ایک تفریح سے بڑھ کر ایک ذہنی ریاضت ہوا کرتا تھا۔سرائیکی عوامی سنگت کے تمام دوستوں نے نصیرالدین شاہ کا غالب کے روپ میں ڈھل جانا شکور صاحب کے گھرمیں دیکھا تھا، ہم نے کیفی اعظمی اور شوکت اعظمی کے قلم کے ہنر کو جادوگری بنتے یہاں پر ہی دیکھا تھا۔ڈرامہ غالب کے ڈائیلاگز پر ہم نے قاسم خان لاشاری کے تبصروں کی دانش بھی یہاں ہی چکھی تھی۔ انجم لاشاری، شاہد جتوئی، زبیررانا، حمید اصغر، فریدی صاحب فاضل جمیلی، عزیز شاہد اور دیگر دوست شکورصاحب کے مستقل مہمان ہوا کرتے۔ کبھی کبھار یہاں پر صفدر صدیق رضی آتے تو شعروں کی محفل جمتی تو خوب جمتی۔
شکور صاحب کی معرفت ہماری انہی دنوں سیدشمس الدین سے ملاقات ہوئی تو ایک جہانِ دیگر دریافت ہوا۔ شمس کے والد امام شہاب الدین حضرت مہدی جونپوری کے مسند نشین تھے اور مہدوی انہیں اپنا امام کہتے تھے۔ شمس نے والد کے جانشین کے طور پر دائروی مہدوی مسلمانوں کی امامت نہیں سنبھالی۔ انہوں نے طبقاتی سماج کی پیچیدہ گرہوں کو کھولنے کا کام سنبھال لیا۔ شکور صاحب اور سید شمس یوبی ایل میں ایک ساتھ کام کرتے تھے اور سماج کے دھتکارے ہوئے ذلت کے مارے لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق نباہنے کے جتن کرتے۔ ان دنوں شمس پر اُوشو کا بھوت سوار تھا۔ ان کے پاس اس کے لیکچرز کے ان گنت کیسٹ تھے۔ سید شمس الدین کے گھر پر محمد علی صدیقی، مسلم شمیم، راحت سعید، عبدالشکور، انجم لاشاری، شاہد جتوئی، قاسم خان لاشاری اور یہ احقر جمع ہوتے اور اُوشو(گرورجنیش) کے لیکچر سننے میں راتیں بتائی جاتیں۔ اس موقع پرشامل شمس ہمیں بانسری سناتے اور ایک سماں باندھ دیتے۔
شکور صاحب کے ساتھ جب جون ایلیا اور زاہدہ حنا سے ملاقاتیں ہوتیں تو سماج سازی کے خواب بُننے نت نئے جتن شروع ہوجاتے۔ یار جانی شکور یہ شعر سن، اور پھرشعروں کی مجلس سج جاتی۔
آج کے بعد عشرتِ مجلسِ شامِ غم کہاں
دل نہ لگے گا تیرے بعد پر تیرے بعد ہم کہاں
شکور صاحب ، ارشاد امین، شاہد جتوئی، قاسم خان ، وارث رضا اور ہم کبھی یکجا ہوتے تو دنیا بھر کے ترقی پسند ادب کے تمام زاویئے کھنگالے جاتے اور گفتگو زکنارِ شب تا کنارِ شب جاری رہتی۔ جب مارچ 1986ءکراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات منعقد ہوئیں تو اس کی انتظامی کمیٹی کے صدر شوکت صدیقی اور سیکریٹری مسلم شمیم تھے۔ سرائیکی کی نمائندگی کیلئے مجھے اور شاہد جتوئی کو سنٹرل کمیٹی میں شامل کیا گیا، پنجابی کی نمائندگی اسرار شاکی اور زیب ازکار حسین کر رہے تھے۔ ان دنوں شکور صاحب ہمارے ساتھ بہت سرگرمی سے کام کرتے تھے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کے کلکتہ کے 1936ء کے تاسیسی اجلاس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی اور پچاس سال بعدانجمن کی گولڈن جوبلی کے ابتدائی اجلاس کی مجلس صدارت میں شوکت صدیقی، مجنوں گورکھپوری، عبداللہ جمالدینی، بہادر خان بنگلزئی، صوبھو گیانچندانی، فداحسین گاڈی، جوگندرپال ، سید سبط حسن اور دیگر عظیم اور تاریخ ساز شخصیات شریک ہوئی تھیں۔ گولڈن جوبلی کی تقریبات میں سرائیکی کی نمائیندگی کرنے والوں میں اسلم رسول پوری، احسن واگھا، مظہرعارف، عاشق بزدار، صوفی تاج گوپانگ، سعید خاور، زبیررانا، ممتاز حیدر ڈاہر، بشارت بلوچ، مشتاق گاڈی کے ساتھ ساتھ عبدالشکور بھی شریک تھے۔عبدالشکور سرائیکی عوامی سنگت کے بنیادی رکن تھے۔ وہ مشتاق فریدی صاحب کے بڑے بھائی ارشاد صاحب کے دوست اور کلاس فیلو تھے۔ فریدی صاحب اُن کا بڑے بھائی کی طرح احترام کرتے مگر سنگت میں شکور صاحب تمام دوستوں سے بے پناہ محبت سے پیش آتے۔ وہ زندگی بھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، انہوں نے ایک لمحے کیلئے بھی موقع پرستی کی راہ اختیار نہیں کی اور نظریاتی طور پر مکمل ایمانداری سے آخری دم تک اپنے موقف پر قائم رہے۔ وہ سرائیکی عوامی سنگت میں ایک معلم اور نظریاتی استاد کا درجہ رکھتے تھے۔
قاسم خان لاشاری، فریدی صاحب، شاہد جتوئی اور میں شکور صاحب سے ان کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کر رہے تھے مگر ہم سب اس بات سے بے خبر تھےکہ بھابھی کے انتقال کے ایک ماہ اور چار روز بعد قاسم خان لاشاری ہمیں چھوڑ جائیں گے اور قاسم خاں کے بچھڑ جانے کےمحض آٹھ روز بعد شکور صاحب ہمیں دائمی جدائی کا دکھ دے جائیں گے۔ ہم شکور صاحب اور قاسم خان لاشاری کی بچھڑنے کے دُکھ پر سوگوار ہیں۔ ہمیں کیسے کیسے عالی دماغ، روشن خیال، عوام دوست، ترقی پسند، سامراج دشمن، نظریاتی رفیق، سراپا محبت اور شفیق ساتھی شکور صاحب اورقاسم خان چھوڑ گئے۔ ان کی یادیں، باتیں، ان کا سیاسی عمل، ان کی ثابت قدمی، ان کی استقامت، ان کی نقطہ فہمی اور ہر دکھ سُکھ میں ان کا جم کر کھڑے رہنے کا انداز ہمیں حوصلہ دیتا رہے گا، وہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ان کی نظریات ہمارے رہبری کریں گے۔ ہم ان کے عمل سے طاقت کشید کریں گے۔ وہ عوام کے ساتھ رہے ہم عوام کے ساتھ رہیں گے۔ وہ نظرانداز کئے گئے دھتکارے ہوئے ذلت کے مارے عام لوگوں کے ہمنوا رہے ہم ان کے نقش قدم پر چلے جائیں گے۔ یہ ہمارا عہد ہے، ہمارا وعدہ ہے، ہمارا وچن ہے اور ہمارا پکا عزم ہے، ہم اپنے یاروں کی یادوں کے ساتھ رہیں گے۔ یارو ہم تمہیں کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی بھول پائیں گے۔۔۔۔
شکورصاحب کے گھر پہنچ کر میں نے فریدی صاحب، قاسم خان لاشاری اور شاہد جتوئی کو فون کیا۔شکور صاحب درد اور صبر کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ ان کا اکلوتے بیٹے قادر کے علاوہ کوئی دوسری اولاد نہیں، ظاہر ہے بیٹی بھی نہیں، اپنی اہلیہ کی زندگی کے آخری برسوں میں جس طرح انہوں نے اپنی اہلیہ کی دیکھ بھال کی ، جس طرح ان کی خدمت کی، جس طرح انہوں نے انہیں اپنی توجہ کا مرکز بنایاوہ ایک مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
شکور صاحب ایک پختہ کار سیاسی دانشمند تھے۔ وہ مارکسسٹ تھے اور انہوں نے ساری زندگی اپنی سیاسی کمٹمنٹ سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں کیا۔ ہمارے لئے ان کا گھر تہذیب وتمدن ، ادب وفن کے مرکز کا درجہ رکھتا تھا۔کراچی کے علاقے لسبیلہ کے قریب سولجر بازار سے ملحق یو بی ایل کے کے اپارٹمنٹس میں ان کے گھر میں ہماری مستقل بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں جہاں ہم نے یادگار مباحث و مذاکرے کئے
جنرل ضیاء کے بدبخت اور سیاہ کار دور میں ہم خیال دوستوں کا دم اور ان کا مل بیٹھنا غنیمت ہوا کرتا تھا۔سوچنے والے مل بیٹھتے تو کیا کیا نہ سوچتے تھے۔ شکور صاحب کے پاس ناہید صدیقی کے رقص کے کیسٹوں کا اچھا خاصا کلکشن ہوتا تھا، مہاراج کتھک کے دادرا اور ٹھمری کے ماتروں پر ناہید صدیقی کا رقص دیکھنا ایک تفریح سے بڑھ کر ایک ذہنی ریاضت ہوا کرتا تھا۔سرائیکی عوامی سنگت کے تمام دوستوں نے نصیرالدین شاہ کا غالب کے روپ میں ڈھل جانا شکور صاحب کے گھرمیں دیکھا تھا، ہم نے کیفی اعظمی اور شوکت اعظمی کے قلم کے ہنر کو جادوگری بنتے یہاں پر ہی دیکھا تھا۔ڈرامہ غالب کے ڈائیلاگز پر ہم نے قاسم خان لاشاری کے تبصروں کی دانش بھی یہاں ہی چکھی تھی۔ انجم لاشاری، شاہد جتوئی، زبیررانا، حمید اصغر، فریدی صاحب فاضل جمیلی، عزیز شاہد اور دیگر دوست شکورصاحب کے مستقل مہمان ہوا کرتے۔ کبھی کبھار یہاں پر صفدر صدیق رضی آتے تو شعروں کی محفل جمتی تو خوب جمتی۔
شکور صاحب کی معرفت ہماری انہی دنوں سیدشمس الدین سے ملاقات ہوئی تو ایک جہانِ دیگر دریافت ہوا۔ شمس کے والد امام شہاب الدین حضرت مہدی جونپوری کے مسند نشین تھے اور مہدوی انہیں اپنا امام کہتے تھے۔ شمس نے والد کے جانشین کے طور پر دائروی مہدوی مسلمانوں کی امامت نہیں سنبھالی۔ انہوں نے طبقاتی سماج کی پیچیدہ گرہوں کو کھولنے کا کام سنبھال لیا۔ شکور صاحب اور سید شمس یوبی ایل میں ایک ساتھ کام کرتے تھے اور سماج کے دھتکارے ہوئے ذلت کے مارے لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق نباہنے کے جتن کرتے۔ ان دنوں شمس پر اُوشو کا بھوت سوار تھا۔ ان کے پاس اس کے لیکچرز کے ان گنت کیسٹ تھے۔ سید شمس الدین کے گھر پر محمد علی صدیقی، مسلم شمیم، راحت سعید، عبدالشکور، انجم لاشاری، شاہد جتوئی، قاسم خان لاشاری اور یہ احقر جمع ہوتے اور اُوشو(گرورجنیش) کے لیکچر سننے میں راتیں بتائی جاتیں۔ اس موقع پرشامل شمس ہمیں بانسری سناتے اور ایک سماں باندھ دیتے۔
شکور صاحب کے ساتھ جب جون ایلیا اور زاہدہ حنا سے ملاقاتیں ہوتیں تو سماج سازی کے خواب بُننے نت نئے جتن شروع ہوجاتے۔ یار جانی شکور یہ شعر سن، اور پھرشعروں کی مجلس سج جاتی۔
آج کے بعد عشرتِ مجلسِ شامِ غم کہاں
دل نہ لگے گا تیرے بعد پر تیرے بعد ہم کہاں
شکور صاحب ، ارشاد امین، شاہد جتوئی، قاسم خان ، وارث رضا اور ہم کبھی یکجا ہوتے تو دنیا بھر کے ترقی پسند ادب کے تمام زاویئے کھنگالے جاتے اور گفتگو زکنارِ شب تا کنارِ شب جاری رہتی۔ جب مارچ 1986ءکراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات منعقد ہوئیں تو اس کی انتظامی کمیٹی کے صدر شوکت صدیقی اور سیکریٹری مسلم شمیم تھے۔ سرائیکی کی نمائندگی کیلئے مجھے اور شاہد جتوئی کو سنٹرل کمیٹی میں شامل کیا گیا، پنجابی کی نمائندگی اسرار شاکی اور زیب ازکار حسین کر رہے تھے۔ ان دنوں شکور صاحب ہمارے ساتھ بہت سرگرمی سے کام کرتے تھے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کے کلکتہ کے 1936ء کے تاسیسی اجلاس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی اور پچاس سال بعدانجمن کی گولڈن جوبلی کے ابتدائی اجلاس کی مجلس صدارت میں شوکت صدیقی، مجنوں گورکھپوری، عبداللہ جمالدینی، بہادر خان بنگلزئی، صوبھو گیانچندانی، فداحسین گاڈی، جوگندرپال ، سید سبط حسن اور دیگر عظیم اور تاریخ ساز شخصیات شریک ہوئی تھیں۔ گولڈن جوبلی کی تقریبات میں سرائیکی کی نمائیندگی کرنے والوں میں اسلم رسول پوری، احسن واگھا، مظہرعارف، عاشق بزدار، صوفی تاج گوپانگ، سعید خاور، زبیررانا، ممتاز حیدر ڈاہر، بشارت بلوچ، مشتاق گاڈی کے ساتھ ساتھ عبدالشکور بھی شریک تھے۔عبدالشکور سرائیکی عوامی سنگت کے بنیادی رکن تھے۔ وہ مشتاق فریدی صاحب کے بڑے بھائی ارشاد صاحب کے دوست اور کلاس فیلو تھے۔ فریدی صاحب اُن کا بڑے بھائی کی طرح احترام کرتے مگر سنگت میں شکور صاحب تمام دوستوں سے بے پناہ محبت سے پیش آتے۔ وہ زندگی بھر ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، انہوں نے ایک لمحے کیلئے بھی موقع پرستی کی راہ اختیار نہیں کی اور نظریاتی طور پر مکمل ایمانداری سے آخری دم تک اپنے موقف پر قائم رہے۔ وہ سرائیکی عوامی سنگت میں ایک معلم اور نظریاتی استاد کا درجہ رکھتے تھے۔
قاسم خان لاشاری، فریدی صاحب، شاہد جتوئی اور میں شکور صاحب سے ان کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کر رہے تھے مگر ہم سب اس بات سے بے خبر تھےکہ بھابھی کے انتقال کے ایک ماہ اور چار روز بعد قاسم خان لاشاری ہمیں چھوڑ جائیں گے اور قاسم خاں کے بچھڑ جانے کےمحض آٹھ روز بعد شکور صاحب ہمیں دائمی جدائی کا دکھ دے جائیں گے۔ ہم شکور صاحب اور قاسم خان لاشاری کی بچھڑنے کے دُکھ پر سوگوار ہیں۔ ہمیں کیسے کیسے عالی دماغ، روشن خیال، عوام دوست، ترقی پسند، سامراج دشمن، نظریاتی رفیق، سراپا محبت اور شفیق ساتھی شکور صاحب اورقاسم خان چھوڑ گئے۔ ان کی یادیں، باتیں، ان کا سیاسی عمل، ان کی ثابت قدمی، ان کی استقامت، ان کی نقطہ فہمی اور ہر دکھ سُکھ میں ان کا جم کر کھڑے رہنے کا انداز ہمیں حوصلہ دیتا رہے گا، وہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ان کی نظریات ہمارے رہبری کریں گے۔ ہم ان کے عمل سے طاقت کشید کریں گے۔ وہ عوام کے ساتھ رہے ہم عوام کے ساتھ رہیں گے۔ وہ نظرانداز کئے گئے دھتکارے ہوئے ذلت کے مارے عام لوگوں کے ہمنوا رہے ہم ان کے نقش قدم پر چلے جائیں گے۔ یہ ہمارا عہد ہے، ہمارا وعدہ ہے، ہمارا وچن ہے اور ہمارا پکا عزم ہے، ہم اپنے یاروں کی یادوں کے ساتھ رہیں گے۔ یارو ہم تمہیں کبھی نہیں بھولیں گے اور نہ ہی بھول پائیں گے۔۔۔۔
اے وی پڑھو:
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
جاری ہے۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر